
زبانی حمایت کافی نہیں
تحریر: مرتضیٰ مکی
ایک ایسے وقت جب غزہ پٹی پر صیہونی جارحیت کو بیس مہینے ہونے کو ہیں، چار یورپی ممالک نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے، جس میں ریاست فلسطین کی اقوام متحدہ میں مکمل رکنیت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اسپین، آئرلینڈ، سلووینیا اور ناروے ان ممالک کی صف میں شامل ہوگئے ہیں، جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے فریم ورک کے اندر ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ صیہونی حکومت کی شدید مخالفت کے باوجود اسپین، آئرلینڈ اور ناروے پہلے ہی سرکاری طور پر فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرچکے ہیں۔ یورپی ممالک کے اس اقدام کو بین الاقوامی قانون کی پاسداری اور اہل فلسطین کے حق خود ارادیت کی حمایت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ فیصلہ "صرف علامتی یا سیاسی عمل” نہیں ہے بلکہ "بین الاقوامی قانون کی پاسداری” کی علامت بھی بن سکتا ہے۔
اسرائیلی حکومت پر دباؤ:
قابل ذکر ہے کہ فلسطین کو تسلیم کرنے سے نہ صرف اسرائیلی حکومت پر فلسطینیوں کے حوالے سے اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کے لیے دباؤ پڑ سکتا ہے، بلکہ اس دباؤ کے نتیجے میں غزہ پر جارحیت کو فوری طور پر روکا بھی جاسکتا ہے۔ اس میں ایک بات میں کافی تضاد بھی ہے کہ سفارتی مذمت کے باوجود یورپ اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات جاری رکھے ہوئے ہے، حالانکہ یورپ میں وسیع پیمانے پر مظاہرے ہو رہے ہیں، جن میں اسرائیل کے بائیکاٹ اور جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ دراین اثناء فرانس بھی سعودی عرب کے ساتھ مل کر نیویارک میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ 17 سے 20 جون تک منعقد ہونے والی اس کانفرنس کا مقصد "فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے روڈ میپ” تیار کرنا اور "اسرائیل کی سلامتی کی ضمانت” کو یقینی بنانا ہے۔
دوسری جانب اسرائیل نے اس پر اپنا سخت موقف دیا ہے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈون سار نے دھمکی دی ہے کہ اگر فلسطین کو تسلیم کر لیا گیا تو اسرائیل مغربی کنارے کی بستیوں پر اپنی خود مختاری کا اعلان کر دے گا۔ بہرحال سفارتی کوششوں اور حمایت کے بیانات کے باوجود، فلسطینی عوام کو جس چیز کی فوری ضرورت ہے، وہ غزہ میں قتل عام کا خاتمہ، سرحدی گزرگاہوں کو کھولنا اور انسانی امداد کے داخلہ کے لئے حالات سازگار بنانا ہے۔ اسرائیلی جرائم کے سامنے عملی اقدام اور جرأت کے بغیر صرف زبانی حمایت حقیقی تبدیلی کا باعث نہیں بن سکتی۔ اہل فلسطین کو انصاف فراہم کرنے اور غزہ میں انسانی حقوق کی بحالی کے لئے متعدد سنجیدہ اقدام بالخصوص موثر اقتصادی اور سفارتی دباؤ اشد ضروری ہے۔