مضامینہفتہ کی اہم خبریں

اربعین حسینیؑ۔۔۔ تاریخ کی ایک نئی کروٹ

شیعہ نیوز: ہ ہے۔ کروڑوں انسان امام حسینؑ کی خدمت میں سلامِ نیاز پیش کرنے کے لیے جس والہانہ انداز سے گوشہ و کنار عالم سے اکٹھے ہو رہے تھے، انسان کو حیرت زدہ کر دینے کے لیے کافی تھا۔ پھر اس کے ساتھ مشی اور اربعین واک کے سلسلے، بات کچھ زیادہ ہی آگے بڑھتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ کئی کئی دن پیدل چل کر خواتین و حضرات روز اربعین حسینؑ سید الشہداء کی بارگاہ میں عرض ادب اور اظہار عقیدت کے لیے پہنچتے تھے۔ ان میں مرد و زن، پیر و جوان یہاں تک کہ مریض بھی شامل تھے۔ وہ بھی کہ جو ایک ٹانگ سے محروم تھے اور وہ بھی جو دونوں ٹانگوں سے محروم تھے، شامل کاروان دکھائی دیتے تھے۔ مسلمانوں پر ہی کیا بس تھی کہ وہ اپنے نبیؐ کے نواسے سے اظہار محبت کے لیے جائیں، یہاں تو مسیحی، سکھ، بدھسٹ اور دیگر ادیان کے افراد بھی دکھائی دیتے تھے۔ اسی صورت حال کو دیکھ کر راقم نے اپنی کیفیت کو 2018ء میں یوں نظم بند کیا تھا:
یہ کربلا کیوں تمام دنیا سے عاشقوں کو بلا رہی ہے؟
نئے کسی انقلاب کا کیا حسینؑ سامان کر رہا ہے؟

پھر 2019ء کا اربعین گزرا تو کچھ عرصے بعد کرونا کی وبا نے تمام دنیا کو گھیر لیا۔ اس نے امیر کو دیکھا نہ غریب کو، چھوٹے ملک کا لحاظ کیا نہ بڑے کا، مسلمان کو نظرانداز کیا نہ غیر مسلم کو، شیعہ کو چھوڑا نہ سنی کو، بوڑھے کو معاف کیا نہ جوان کو، عورتوں پر رحم کھایا نہ مردوں پر۔ ایسے میں سلسلہ بڑھتا، پھیلتا، سمٹتا اور پھر پھیلتا محرم الحرام تک آپہنچا۔ عاشقان حسینیؑ کرونا کو کب خاطر میں لانے والے تھے لیکن حکومتیں زمینی حقائق کو دیکھ کر فیصلہ کرتی ہیں۔ عراقی حکومت نے فیصلہ کیا کہ ملک کے باہر سے بہت محدود پیمانے پر لوگوں کو اربعین کے موقع پر آنے کی اجازت دی جائے گی۔ پوری دنیا میں اربعین کے موقع پر ضریح امام الشہداء کو بوسہ دینے کے لیے بے قرار افراد پر یہ خبر جس قدر تلخ ہوسکتی ہے، اس کا اندازہ ایک عاشق ہی کر سکتا ہے۔ پوری دنیا میں یہ آرزو مچلنے لگی کہ اگر ہم نجف سے کربلا تک اربعین حسینیؑ کے ایام میں مشی سے محروم رہیں گے تو اس کی کسی حد تک تلافی کے لیے ہم امام حسینؑ کے نام پر ’’لبیک یاحسینؑ‘‘ کہتے ہوئے ایک حسینیؑ واک کا اہتمام کریں۔

یہ فیصلہ کسی دارالحکومت میں نہیں ہوا، اس کے پیچھے کوئی سلطنت کارفرما نہیں اور نہ اس کے پیچھے کسی دنیاوی طاقت کی دولت اور ارادہ کارفرما ہے۔ اس کے پیچھے عشق اور حضرت عشق کا ہاتھ ہے۔ یہ آسمانی فیصلہ ہے جو پوری دنیا میں بیک وقت پھیل گیا اور خدا جانے کیسے دلوں کے اندر جا سمایا اور لوگوں نے خود سے مشی یعنی اربعین واک کے منصوبے بنانا شروع کر دیے۔ یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کے دل میں یہ بات ڈالی تو انھوں نے اپنے تئیں لوگوں کو اس مشی کے اہتمام کی دعوت بھی دی، لیکن جس انداز سے اس مشی کا ظہور ہوا ہے، وہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اس کے پیچھے کوئی زمینی فرد ہے نہ تنظیمی ارادہ، اس کے پیچھے آسمانی ہاتھ ہے اور الٰہی ارادہ۔ بس پھر اسے کون روک سکتا تھا، خاص طور پر پاکستان میں ہم نے جو دیکھا، وہ ہماری ساری تنظیمی زندگی اور اجتماعی جدوجہد کے پیش نظر حیران کن بھی ہے، وجد آفریں بھی، ایمان پرور بھی اور کسی غیبی فیصلے کی نوید بھی۔

پاکستان میں اس فضا کو بنانے میں کچھ رقیبان روسیاہ کا بھی ہاتھ ہے۔ پروردگار کے فیصلے وہی جانتا ہے اور اس کی حکمتوں کی خبر اسی کو ہے، مگر یہ کہ وہ کسی کو اپنے خزانۂ غیب سے کچھ عطا فرما دے۔ پاکستان جسے اولیاء کی سرزمین کہا جاتا ہے، جسے ریاست مدینہ کے بعد اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اولین ریاست کا درجہ حاصل ہے، جس کے پیچھے قدرت کی حکمتوں کے کئی اشارے آشکار ہوچکے ہیں، اس پر ایک انہونی ہوگئی اور وہ یہ کہ بڑے بڑے مجمعوں میں بعض بدقسمت، بدبخت اور سیاہ باطن افراد نے یزید کی حمایت میں نعرے بلند کر دیے۔ ان نعروں سے ان کا خبث باطن تو ظاہر ہوا ہی، پاک باطن افراد کو بھی بے قرار کر گیا۔ نبی پاکؐ اور ان کی آلؑ کے عاشقوں کو یہ بات بے تاب کر دینے کے لیے کافی تھی۔ اس بات کا لوگوں کو غم زیادہ تھا کہ بظاہر صلح کل کا لبادہ اوڑھے بعض مفتی بھی اس ناپاک جسارت کی سرپرستی کرتے دکھائی دیے، جن کا کہنا تھا کہ امام حسینؑ کے قتل میں انھیں یزید کا کوئی ہاتھ دکھائی نہیں دیتا۔

ظاہر ہے ان کی ایسی باتوں نے یہی دن دکھانا تھا کہ ان کے سامنے ظلمت کدۂ باطل سے نکل کر بعض لوگوں نے یزید کی حمایت میں ایسے نعرے بلند کرنا تھے۔ عاشقان حسینی نے ان نعروں کا مناسب ترین جواب دینے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان میں اربعین حسینیؑ کے ایام میں جو کچھ ہوا، اسے محبان اہل بیتؑ کا حکیمانہ جواب بھی سمجھا جانا چاہیے، اس لیے کہ اس کے پیچھے جو شعور اور حکمت کارفرما ہے، وہ اب آشکار ہوچکی ہے۔ روزِ اربعین سے چند دن پہلے ہی ملک کے گوشہ و کنار سے اربعین واک کے سلسلے شروع ہوگئے، جو بڑھتے بڑھتے روز اربعین اپنے عروج پر دکھائی دیے۔ خود جوش عوامی اٹھان کے ان مظاہر اور بے ساختہ سلسلوں نے ہمیں ورطۂ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں چھوٹے بڑے دیہات اور قصبوں سے لے کر میٹروپولٹن شہروں تک عوامی واک جاری تھی۔ ہر عمر کے لوگ، ہر صنف کے افراد، ہر طبقے کی عوام اور خواص بعض مقامات پر بیسیوں کلو میٹر کے فاصلے طے کرکے اپنی مقررہ منزلوں تک پہنچے۔

ایسا لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اربعین کے روز عاشقان حسینیؑ کو پوری طرح آزمانے کا فیصلہ کر رکھا تھا، لہذا بادلوں کا سائبان نہ کہیں خنک ہوا۔ سورج کی تمازت تھی کہ اپنے جوبن پر رہی اور عشق کی حدت تھی کہ اس کا مقابلہ کرتی رہی۔ عاشقوں کے قدم تھے کہ آگے بڑھتے چلے جاتے تھے۔ اس وقت جب ہم یہ سطور قلمبند کر رہے ہیں، ابھی بہت سے علاقوں سے خبریں آرہی ہیں اور کئی علاقوں سے ابھی تک خبریں نہیں پہنچیں، لیکن جو خبریں سامنے آچکی ہیں، وہ یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ پروردگار کی منشاء اس سے کچھ اور ہے، جو سامنے ہے، وہ کم ہے اور جو سامنے آنے والا ہے، اس سے کہیں زیادہ ہے۔ کئی دلوں سے یہ آواز اٹھی ہے کہ واقعاً یہ ایک عالمی انقلاب کی دھمک ہے، وہی عالمی انقلاب جس کا وعدہ ہم سے کیا جا چکا ہے۔ وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ "اور ہمارا ارادہ ہے کہ ہم زمین پر کمزور کر دیے جانے والے لوگوں پر احسان کریں اور انھیں پیشوا بنا دیں اور انھیں ہم وارث قرار دیں۔”

کون نہیں جانتا کہ رسولؐ اللہ کی آل کو ظالموں نے کمزور کر دیا، یہاں تک کہ ان کے بچوں کو ذبح کر دیا، ان کی لاشوں پر گھوڑے دوڑائے گئے، ان کے سروں کو نیزوں پر اٹھایا گیا، ان کی مخدرات کے سروں سے چادریں نوچ لی گئی اور انھیں رسن بستہ دنیا کے بدترین اور ظالم ترین حکمرانوں کے سامنے باغی قرار دے کر غلاموں کی طرح پیش کیا گیا۔ جن کے خاندان کو اللہ نے نبوت کے لیے چنا، جن کے گھروں میں وحی کے زمزمے گونجتے تھے، فرشتے جن پر درود بھیجتے تھے، اللہ نے جن پر چادرِ تطہیر کا سایہ کیا، ان کو کوچہ و بازار میں پھرایا گیا۔ ان سے زیادہ مستضعف تاریخ میں کون ہوا ہے؟ اللہ نے آخرکار آل محمدؐ کو ظاہری طور پر بھی عالمی پیشوائی کے منصب پر سرفراز فرمانا ہے۔ زمامِ قیادت امام حسینؑ ہی کے فرزند امام مہدیؑ کے ہاتھ میں ہوگی۔ اس وقت مقامِ محمدیؐ مزید آشکار ہوگا، جب امام مہدیؑ کے پیچھے اللہ کے ایک منتخب اور بے مثال پیغمبر یعنی حضرت مسیحؑ نماز ادا کریں گے۔

بعید نہیں کہ جسے ہم اربعین واک کہہ رہے ہیں اور جو آج ایک عالمی مظہر کے طور پر سامنے آرہا ہے نیز جس کا مرکز و محور امام حسینؑ ہیں، اسی انقلاب کا پیش خیمہ ہو۔ بعید نہیں کہ بندگان خدا کو اس عالمی انقلاب کے لیے تیار کیا جا رہا ہو۔ آج جس طرح سے یزید کے ماننے والے سفیانی رسوا ہو رہے ہیں، اسی طرح ان کا ایک پیشوا جسے نبی کریمؐ کی پیشگوئیوں میں سفیانی کہا گیا ہے، وہ اپنے جدِ بے توقیر توہین کے سزاوار یزید نابکار کے لیے زندہ باد کا نعرہ لگا کر ہی رسوا ہوگا اور حسینؑ کا مہدیؑ تکبیر و توحید کا پرچم بلند کرکے سرفراز و کامران ہوگا۔ اس پہلو سے کہنے کو اور بہت کچھ ہے، لیکن آج کی نشست میں اسی پر کفایت کرتے ہیں۔

گذشتہ برس راقم نے کربلا میں اربعین کی عالمی نہضت کی اُٹھان کے حوالے سے ایک سلام کہا تھا، جسے آخر میں قارئین کی نذر کیا جاتا ہے:
گفتار تیری صادق کردار تیرا احسن
عالم پناہ بن کر پھیلا ہے تیرا دامن
ہے خیمہ گاہ تیری انسانیت کا مأمَن
اور ذوالجناح تیرا آمادہ بَر قَدَمْ زَن
وَالْعٰدِیٰتِ ضَبْحًا O فَالْمُوْرِیٰتِ قَدْحًاO

پا در رکاب کوئی، کوئی سنبھل رہا ہے
اِک انقلاب جیسے سینوں میں پل رہا ہے
شب کی سیاہیوں سے سورج نکل رہا ہے
کربل میں جو بہا تھا وہ خوں اُبل رہا ہے
اِس خوں میں روشنی ہے اور پھیلتی ہے چَھن چَھن
وَالْعٰدِیٰتِ ضَبْحًا O فَالْمُوْرِیٰتِ قَدْحًاO

آفاق میں صدائے تکبیر گونجتی ہے
لگتا ہے جیسے دنیا تبدیل ہوگئی ہے
سب قافلوں کی منزل کیوں کربلا بنی ہے
پھر آسماں سے سورہ کوثر اُتر رہی ہے
کُھلنے کو ہے یہ منظر اُٹھنے کو ہے یہ چلمن
وَالْعٰدِتِ ضَبْحًا O فَالْمُوْرِیٰتِ قَدْحًاO

تحریر: ثاقب اکبر

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button