اسرائیلی موساد کو خاموش تنبیہ!
پچھلے ہفتے اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے خبر دی کہ آبنائے ہرمز کے قریب اسرائیلی بحری جہاز میں ایک دھماکہ ہوا۔ بہاماس میں رجسٹرڈ یہ کارگو بحری جہاز اسرائیلی ملکیت ہے۔ دھماکے سے متعلق قائم مقام اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو نے حسب توقع الزام لگایا کہ اس دھماکے میں ایران ملوث ہے۔ اسرائیل کے قائم مقام وزیر جارحیت بینی گنٹز نے کہا کہ اس دھماکے میں ایران ملوث ہوسکتا ہے۔ اسرائیلی فوجی سربراہ کوخاوی نے بھی ایران کو ملوث قرار دیا۔ اسرائیلی میڈیا کی خبروں میں الزام لگایا گیا کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے دو میزائل فائر کیے تھے۔ امریکا میں متعین اسرائیلی سفیر نے بھی اس ضمن میں ایران پر الزام لگایا۔ یعنی اسرائیل نے پوری کوشش کی کہ ایران کے خلاف اسرائیلی ایجنڈا کے مطابق ماحول بنایا جائے۔ لیکن ایران کی جانب سے سرکاری طور پر ان الزامات کو مسترد کر دیا گیا۔ آخری اطلاعات تک اسرائیلی ملکیت کارگو بحری جہاز میں دھماکہ کا سبب زیر سمندر بارودی سرنگ کو قرار دیا گیا۔
اب تک کی صورتحال یہ ظاہر کرتی ہے کہ اسرائیلی حکام محض اندازوں اور تکوں کی بنیاد پر ایک موقف کا اظہار کر رہے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ میزائل فائر ہوئے، کبھی کہتے ہیں کہ بارودی سرنگ کی وجہ سے ہوا۔ ایک اسرائیلی صحافی کے مطابق 26 فروری 2021ء کو یہ دھماکہ وقوع پذیر ہوا۔ پہلی خبر کے مطابق خلیج عمان میں بحری جہاز میں دھماکہ ہوا۔ ایک خبر کے مطابق آبنائے ہرمز کے قریب ہوا۔ بعد ازاں اسے دبئی کی راشد بندرگاہ پر لنگر انداز کرکے اس کی مرمت کی گئی۔ گو کہ اس بحری جہاز کو کوئی بہت زیادہ یا بڑا نقصان نہیں پہنچا، لیکن تاحال یہ ایک معمہ ہے کہ اس بحری جہاز میں دھماکہ کس نے کیا یا کروایا ہے۔ اس موضوع پر روسی خبر رساں ادارے اسپوتنک نیوز نے ایک مقالہ شائع کیا ہے۔ مقالہ نویس نے سوالیہ انداز میں اس واقعہ کو اسرائیل کے لیے ایک ایرانی پیغام کے طور پر پیش کیا ہے۔ کیا یہ واقعی ایران کی جانب سے اسرائیل کو تنبیہی پیغام ہے، اس کا رسمی اعتراف ایران نہیں کر رہا۔ اس معاملے پر مختلف آراء موجود ہیں۔
سعودی عرب کے انگریزی روزنامہ عرب نیوز نے ایران کے فارسی روزنامہ کیہان کے حوالے سے ایک خبر دی ہے کہ اس بحری جہاز کا تعلق اسرائیلی فوج سے ہے اور جب اس بحری جہاز کے ذریعے خلیج عمان اور خلیج فارس سے متعلق معلومات جمع کی جا رہی تھیں، تب اسے ٹارگٹ کیا گیا۔ یعنی اسے ہدف بنانے کا سبب یہ تھا کہ اسرائیلی فوج اس بحری جہاز کو جاسوسی کے لیے استعمال کر رہی تھی۔ لیکن اسپوتنک نیوز میں مقالہ نگار نے اس حوالے سے دیگر معلومات بھی بیان کی ہیں۔ ان میں سے ایک اہم اطلاع یہ ہے کہ اس اسرائیلی بحری جہاز کی تجارتی کمپنی کا ایک شراکت دار اسرائیلی جاسوسی ادارے موساد کا سربراہ بھی ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اسرائیلی ملکیتی دیگر بحری جہاز بھی یہاں سے گذرتے رہے ہیں، انہیں ٹارگٹ نہیں کیا گیا تو صرف اسی بحری جہاز کو کیوں ٹارگٹ کیا گیا، یہ ایک اہم نکتہ ہے۔! اس کی وجہ کسی حد تک وہی ہے جو اسپوتنک نیوز کے مقالہ نگار نے بیان کی۔
جس بحری جہاز میں دھماکہ ہوا، یہ اسرائیلی درآمد کنندہ تاجر رامی انجر کی ملکیت ہے جبکہ موساد کا موجودہ سربراہ یوسی کوہن اس کا مددگار اور سہولت کار ہے۔ البتہ اسپوتنک نیوز کے مقالے کے مطابق اس کا شراکت دار ہے۔ موساد کا موجودہ سربراہ جب موساد کا نائب سربراہ تھا، تب رامی انجر کا جنوبی کوریا کی کار کمپنی کیا کی اسرائیل درآمد سے متعلق ایک اور اسرائیلی درآمد کنندہ سے پھڈا ہوگیا تھا۔ اسرائیلی موساد کا افسر دوسرے فریق کا مددگار تھا۔ یوسی کوہن نے اس افسر پر دباؤ ڈال کر اسے رامی انجر کا ساتھ دینے پر مجبور کیا تھا۔ یعنی یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بحری جہاز رامی انجر کی ملکیت ہے اور رامی انجر کا اسرائیلی موساد کے موجودہ سربراہ سے مذکورہ نوعیت کا تعلق ہے۔ یہ سب آن ریکارڈ معلومات ہیں۔ اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ اس بحری جہاز کو جس کسی نے بھی ٹارگٹ کیا ہے، اس نے براہ راست اسرائیلی موساد کے سربراہ یوسی کوہن کو شٹ اپ کال دی ہے۔ اسرائیلی موساد کے سربراہ کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ وہ اور ان کے دوست اس خطے میں انڈر واچ ہیں۔ ان کی سرگرمیاں دنیا سے ڈھکی چھپی ہوں گی، لیکن جنہوں نے ان کے بحری جہاز کو ٹارگٹ کیا ہے، وہ اسرائیلی سرگرمیوں سے متعلق پل پل کی خبر رکھتے ہیں۔
ایرانی سائنسدان محسن فخری زادہ کی شہادت کے بعد کے تین مہینوں کے اندر اسرائیلی موساد کے ایک انتہائی خفیہ بین الاقوامی کارروائیوں کے شعبے کے سربراہ فہمی ہناوی کا قتل، اسرائیلی ڈرون کا مقبوضہ فلسطین اور لبنان کے قریب مار گرایا جانا اور اب بحری جہاز میں دھماکہ، یہ سب کچھ تنبیہی پیغامات بھی ہوسکتے ہیں۔ ساتھ ساتھ یہ پوری دنیا پر اسرائیل کی دھاک بٹھانے والے احمقوں کو زمینی حقیقت دکھانے کے لیے ٹریلر بھی ہوسکتے ہیں۔ پیغام واضح ہے کہ اسرائیل کی ہیبت، دہشت، رعب سب کچھ کھوکھلا اور مصنوعی ہے۔ یہ حماس و حزب اللہ کے بچوں کو بھی ڈرانے میں ناکام ہے، چہ جائیکہ ایران۔! اب تک جو پیٹرن دیکھنے میں آیا ہے، وہ یہ ہے کہ جب جب امریکا و اسرائیل علی الاعلان کوئی کارروائی کرتے ہیں تو جوابی کارروائی والے بھی علی الاعلان جواب دیتے ہیں اور جب جب امریکی زایونسٹ بلاک اپنی کارروائیوں کا رسمی اعتراف نہیں کرتے تو جوابی کارروائی کرنے والے بھی اسی ڈھکے چھپے انداز میں بات کرتے ہیں۔
یہ حقیقت ریکارڈ پر رہنی چاہیئے کہ اس وقت کس پر کس کی ہیبت، رعب و دبدبہ طاری ہے!؟ فلسطین کی مقدس سرزمین اور بیت المقدس کا غاصب اسرائیل 1990ء کے عشرے سے موساد کے سربراہ کے نام کو دنیا کے سامنے علی الاعلان ظاہر کیا کرتا تھا۔ لیکن موساد کے بین الاقوامی کاررائیوں کے شعبے کے سربراہ فہمی ہناوی کے قتل کے بعد جب موجودہ اسرائیلی موساد کے سربراہ یوسی کوہن کے جانشین کا اعلان ہوا تو اس کا نام نہیں بیان کیا گیا۔ ماننا پڑے گا کہ مقاومت اسلامی کے محور نے اسرائیل کو 1990ء کے عشرے سے پہلے کے دور میں دھکیل دیا ہے! اور اسرائیل کے بے مثال مددگار اور سہولت کار ڈونلڈ ٹرمپ تمام تر خدمات کے باوجود دوسری مرتبہ امریکی صدر بننے میں ناکام رہے، اس کا اصلی سبب بھی ایران فیکٹر ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت میں ایران کے ایک درجن سے زیادہ میزائل عین الاسد عراق میں امریکی فوجی تنصیبات پر فائر ہوئے، امریکی فوج نے اب اس کی تفصیلی وڈیو جاری کی ہے۔ یاد کیجیے کہ ٹرمپ صاحب کیا کہتے رہے اور اب وڈیو جاری کرنے والے کیا کہتے ہیں! کہاں امریکا اور کہاں ایران! کہاں حماس و حزب اللہ، کہاں اسرائیل!۔ بظاہر تو دور دور تک کوئی موازنہ نہیں بنتا لیکن زمینی حقائق دیکھیں تو اللہ تعالیٰ کی طاقت پر ایمان مستحکم و راسخ ہو جاتا ہے کہ اللہ پر ایمان اور توکل اور اللہ کے اولیاء سے توسل واقعی انسان کو لاحول ولا قوۃ الا باللہ کا مظہر بنا دیتا ہے۔
تحریر: محمد سلمان مہدی