
امریکی-صہیونی منصوبہ: حزب اللہ کے خلاف اقتصادی محاصرہ تیز
شیعہ نیوز:امریکہ اور غاصب صہیونی حکومت نے حزب اللہ لبنان کے خلاف فوجی اور سیاسی دباؤ میں ناکامی کے بعد اب معاشی جنگ چھیڑ دی ہے۔ حزب اللہ سے وابستہ مالی ذرائع پر حملے، منی چینجرز کی ٹارگٹ کلنگ اور بیروت ایئرپورٹ پر مسافروں کی تلاشی جیسے اقدامات کے ذریعے لبنانی مزاحمت کو مالی طور پر مفلوج کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
گزشتہ موسم خزاں میں شروع ہونے والی صہیونی جارحیت کے دوران بیروت کے جنوبی علاقے ضاحیہ میں متعدد مقامات کو نشانہ بنایا گیا اور دعویٰ کیا گیا کہ وہاں حزب اللہ کی مالی ذخائر موجود ہیں۔ میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی افواہوں کے نتیجے میں بیروت کے ساحل ہسپتال کے نیچے خفیہ خزانے کی تلاش بھی شروع کردی گئی۔
اپریل 2024 میں اسرائیلی انٹیلیجنس نے معروف لبنانی صراف محمد ابراہیم سرور کو قتل کیا، جن پر الزام تھا کہ وہ حزب اللہ اور فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے لیے مالی ترسیل کرتا تھا۔ بعد ازاں 27 نومبر کو جنگ بندی سے محض چند گھنٹے قبل بیروت میں کئی منی ایکسچینج مراکز کو ڈرون حملے کا نشانہ بنایا گیا۔
حال ہی میں ایک اور منی چینجر اور اس کے دو بیٹے جنوبی لبنان میں گاڑی پر حملے کے دوران شہید کر دیے گئے۔ دوسری طرف بیروت ایئرپورٹ پر ایران، عراق اور افریقہ سے آنے والے مسافروں کے سامان کی سخت چیکنگ کی جا رہی ہے، تاکہ حزب اللہ کے لیے مبینہ مالی معاونت کو روکا جا سکے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ سب اقدامات لبنان کے مزاحمتی ڈھانچے کو کمزور کرنے اور عوام کو خوف و دباؤ کا شکار بنانے کی امریکی-اسرائیلی پالیسی کا حصہ ہیں۔
جنگ سے کئی سال پہلے امریکی حکام لبنان میں جس کسی کو بھی پابندیوں کی فہرست میں شامل کرتے تھے، اس پر بدعنوانی، حزب اللہ سے مالی تعاون یا اس تحریک سے وابستہ تاجروں کے ساتھ روابط کا الزام عائد کیا جاتا تھا۔
سرکاری ذرائع سے حاصل شدہ دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ صہیونی حکومت نے لبنان میں ان افراد کو اپنا آلہ کار بنایا جو املاک و جائیداد کے ڈیٹا تک رسائی رکھتے تھے۔ لبنانی بینکوں نے بھی امریکیوں کی درخواست پر اپنی مالی جانچ پڑتال کے حصے کے طور پر اکاؤنٹ ہولڈرز اور حزب اللہ کے درمیان ممکنہ تعلقات کا سراغ لگانے کی کوشش کی۔
اس دشمنانہ مہم کے نتیجے میں لبنان کے بڑے اور چھوٹے بینکوں نے کئی سرکاری ملازمین، یونیورسٹی کے اساتذہ اور عوامی شخصیات کے اکاؤنٹس صرف اس بنیاد پر بند کر دیے کہ وہ مبینہ طور پر حزب اللہ سے وابستہ ہیں۔ اسی دوران، صہیونی حکومت نے بھی ان افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جن پر حزب اللہ کی مالی معاونت کا الزام تھا۔
انجمن قرض الحسن کے خلاف امریکہ و اسرائیل کی پس پردہ جنگ
جنگ شروع ہونے سے پہلے انجمن "قرض الحسن” امریکی اور یورپی حکام کی جانب سے لبنانی مالی و اقتصادی اداروں سے گفتگو کا ایک مستقل موضوع رہی۔ یہ دعوی کیا جاتا تھا کہ یہ انجمن حزب اللہ سے وابستہ ہے، جو امریکہ کی نام نہاد دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل ہے۔ بعد ازاں، قرض الحسن کو دہشت گردی کی مالی معاونت کرنے والے ادارے کے طور پر نامزد کیا گیا اور یہ الزام بھی لگایا گیا کہ یہ انجمن کالے دھن کو جمع کرکے منی لانڈرنگ میں استعمال کرتی ہے۔ حالانکہ امریکی حکام بخوبی جانتے ہیں کہ انجمن قرض الحسن لبنانی بینکاری نظام سے منسلک نہیں، اور اس پر کوئی بینکنگ ضوابط لاگو نہیں ہوتے۔ یہ صرف ایک عوامی فلاحی ادارہ ہے جو گزشتہ دو دہائیوں سے اپنی سرگرمیوں کو وسعت دے چکا ہے اور ہزاروں لبنانی شہری اس سے استفادہ کرتے رہے ہیں۔
حزب اللہ نے کبھی اس انجمن سے اپنی وابستگی یا حمایت کو چھپایا نہیں۔ حتی کہ سید حسن نصراللہ نے اپنے ایک خطاب میں مزاحمت کے حامیوں سے اپیل کی تھی کہ وہ اس انجمن کے فنڈز کو تقویت دینے کے لیے اپنی رقوم جمع کروائیں۔ انجمن قرض الحسن کی سب سے بڑی قوت اس کا عوامی اعتماد تھا؛ لوگ کبھی تصور بھی نہیں کرتے تھے کہ ان کی جمع شدہ رقوم ضائع ہوسکتی ہیں۔ جبکہ لبنانی مرکزی بینک کے سابق سربراہ اور امریکہ کا اہم آلہ کار ریاض سلامہ کی قیادت میں لبنانی بینکاری نظام میں پائی جانے والی منظم کرپشن نے عوام کے مالی اثاثوں کو سخت نقصان پہنچایا۔ اس کے نتیجے میں ہزاروں لبنانی شہری اپنی رقوم سے محروم ہوئے۔
حالیہ جنگ کے دوران جب غاصب اسرائیلی حکومت نے لبنان کے مختلف علاقوں میں انجمن قرض الحسن کے دفاتر کو بمباری کا نشانہ بنایا، تو اس کے بعد اس انجمن کے عملے کو بھی قتل و تعاقب کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے باوجود، انجمن میں سرمایہ رکھنے والے کسی فرد نے کبھی شکایت یا اعتراض نہیں کیا، بلکہ جنگ کے دوران خود انجمن کی انتظامیہ نے کھاتے داروں سے رابطہ کرکے ان کی رقوم واپس کردیں۔ جیسے ہی جنگ ختم ہوئی، وہی افراد دوبارہ اپنی رقوم قرض الحسن میں جمع کروانے واپس آگئے۔
جنگ کے دوران، لبنانی معاشرے میں ایک بھرپور یکجہتی مہم بھی شروع ہوئی۔ بہت سے افراد نے اصرار کیا کہ وہ اپنے پیسے واپس نہیں لینا چاہتے، کیونکہ انہیں اعتماد تھا کہ ان کی رقوم بغیر ان کی اجازت اور پیشگی منظوری کے کسی بھی مقصد کے لیے استعمال نہیں کی جاتیں۔
لبنان کے مالیاتی اور اقتصادی شعبوں سے وابستہ تمام افراد اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ حزب اللہ کا ادارہ برائے تعمیر نو جب قرض الحسن کے فنڈز سے امداد دینے کے لیے چیکس جاری کرتا ہے، تو وہ صرف جنگ زدگان اور متاثرین کی فوری مدد کو ممکن بنانے کے لیے ہوتا ہے، خاص طور پر ایسے حالات میں جب لبنانی حکومت خود عوام کو بنیادی امداد فراہم کرنے سے قاصر ہے۔
لبنان میں مزاحمتی تحریک کو غیر مسلح کرنے کے خواہش مند حلقے اب اس کی مالی بنیادوں کو کمزور کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اسی مقصد سے حزب اللہ کے مالی ذرائع کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لبنانی مرکزی بینک جو عملی طور پر امریکی ایجنڈے کا تابع بن چکا ہے، برسوں سے ان ہی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے جنہیں عالمی مالیاتی نظام سے ہم آہنگی کے نام پر نافذ کیا جاتا ہے۔
مرکزی بینک کے نئے سربراہ کریم سعید بھی اپنے پیشرو ریاض سلامہ کی طرح امریکہ کے قریبی مہرے سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے حزب اللہ کو مالی طور پر محدود کرنے کی امریکی پالیسیوں پر مکمل عمل درآمد کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ وہ مرکزی بینک کی قیادت کو حزب اللہ کے اقتصادی محاصرے کے لیے ایک مؤثر ذریعہ بناچکے ہیں۔
مزاحمت کے دشمن شاید یہ سمجھتے ہیں کہ پابندیاں، اقتصادی محاصرہ، اور دہشت گردی کے الزامات حزب اللہ کو ختم کر دیں گے، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دشمنوں کے ان اوچھے ہتھکنڈوں سے حزب اللہ کی عوامی ساکھ متاثر ہونے کے بجائے اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ اس سازشوں کے نتیجے میں لبنانی قوم پر یہ حقیقت مزید واضح ہورہی ہے کہ مسلح مقاومت صرف ایک دفاعی ہتھیار نہیں بلکہ ان کی خودی، آزادی اور تشخص کا ناگزیر حصہ ہے۔