آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کا مذاکرات سے انکار کا اعلان کرکے ٹرمپ کی امیدوں پر پانی پھیر دیا، علامہ ناصر عباس جعفری
مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ کا انٹرویو میں کہنا تھا کہ امریکی اتحادی چاہتے ہیں کہ ایران اس ریجن سے یمن، شام، عراق اور لبنان سے نکل جائے، ٹرمپ نے ایک بڑا بلنڈر کیا، وہ یہ کہ جنگ کی دھمکی دیکر ایران کو مذاکرات کی ٹیبل پر لایا جاسکے، وہ سمجھ رہے تھے کہ اس طرح نیا معاہدہ ہو جائے گا کہ وہ الیکشن جیت جائیں گے، اسے الیکشن کمپئین کا حصہ بنائیں گے۔
اب ڈونلڈ ٹرمپ نے کوشش کی کہ امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے کوشش کی کہ ایران پر پریشر ڈال کر ایران کی اکانومی کو توڑا جائے اور ایران سے نیا معاہدہ کیا جائے۔ یہ ایران کے دفاعی سسٹم کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، ایران کی ترقی کے سفر کر روکنا مقصود ہے، یہ چاہتے ہیں کہ ایران اس ریجن سے یمن، شام، عراق اور لبنان سے نکل جائے، ٹرمپ نے ایک بڑا بلنڈر کیا، وہ یہ کہ جنگ کی دھمکی دیکر ایران کو مذاکرات کی ٹیبل پر لایا جاسکے، وہ سمجھ رہے تھے کہ اس طرح نیا معاہدہ ہو جائے گا کہ وہ الیکشن جیت جائیں گے، اسے الیکشن کمپئین کا حصہ بنائیں گے۔ لیکن رہبر نے یہ کہہ کر ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے کہ ہم مذاکرات نہیں کریں گے۔ ایران نے واضح کیا ہے کہ اگر یہ حملہ کریں گے تو ہم اس ریجن میں ان کے اتحادیوں کو بھی ماریں گے۔ کسی کا خیال نہیں کریں گے، ان کو احساس ہوا کہ ایران نے تو بہت بڑا جواب دینا ہے۔
سوال: جاپانی وزیراعظم تھے آئے پیغام لیکر، ایران کیجانب سے کیا پیغام ملا ہے اور اسکا دنیا کو کیا پیغام گیا ہے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: دیکھیں، انہوں نے سوئٹرزلینڈ اور جاپان کے ذریعے پیغام دینے کی کوشش کی کہ بات چیت کریں، مذاکرات کی ٹیبل پر آئیں، انہوں نے بھی واضح پیغام دیا کہ امریکا یہ جرات کر ہی نہیں سکتا، دوسرا ٹرمپ قابل اعتماد آدمی ہی نہیں، اگر حملہ آور ہوا بھی اسے کن چیزوں کو سامنا کرنا پڑے گا، یہ سب چیزیں سامنے آئیں۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ جنگ جیتنے کیلئے کی جاتی ہے، کیا امریکا یہ جنگ جیت پائے گا، اسی طرح سب کو پتہ ہے کہ امریکا یہ جنگ نہیں جیت سکتا، چائنہ سے ٹکراو، اگر جنگ ہوتی ہے، تائیوان چلا جائے گا، اس طرح روس سے ٹکراو ہے، اگر جنگ ہوتی ہے یوکرائین ہاتھ سے جاتا ہے، امریکی صدر کہتا ہے کہ ہم نے تین جگہوں کو ٹارگٹ کر لیا تھا، لیکن مجھے بتایا گیا کہ وہاں پر ڈیڑھ سو بندے مارے جائیں گے، اس لیے فیصلہ واپس لے لیا، حالانکہ تم نے عراق میں لاکھوں بندے مارے ہیں، تم نے شام میں تباہی مچاہی ہے، سچ یہ ہے کہ تم میں لڑنے کی صلاحیت ہی نہیں رہی۔
سوال: جو ڈرون گرایا گیا ہے، اسکی کیا خاصیت ہے اور امریکا کیلئے کیا اہمیت رکھتا تھا۔؟
علامہ ناصر عباس: یہ امریکا کا ماڈرن ڈرون تھا، یہ تقریباً 60 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرسکتا تھا، یہ 30 گھنٹے سے زیادہ لگاتار پرواز کرسکتا تھا، یہ 12800 میل تک پرواز کرسکتا تھا، یہ اتنا بڑا ڈرون تھا کہ ایک دن میں ایک لاکھ مربع کلو میٹر کی تصویریں لے سکتا تھا اور پچاس جی بی ڈیٹا فی سیکنڈ معلومات دے سکتا تھا، یہ ڈرون گرائے جانے سے دشمن کی آنکھیں کھل گئی ہیں، ایران بھی ٹیکنالوجی میں بہت آگے چلا گیا ہے، اب ٹیکنالوجی کسی کی ذاتی میراث نہیں رہی، امریکا کو شکست کھانی پڑ رہی ہے، ایران نے باقاعدہ شواہد دکھائے ہیں کہ یہ ہماری سرحدی حدود میں گرایا گیا ہے، اس کو گرانے کی باقاعدہ فلم بنائی گئی ہے، اس سے ایک دن پہلے بھی ان کا ڈرون آیا تھا، اس پر بھی میزائل فائر کیے گئے تھے اور وارنگ دی گئی تھی کہ آپ نے ادھر نہیں آنا، مگر یہ چلے گئے، پھر انہوں نے مار کر گرا دیا۔
امریکہ اب انتہائی کمزور ہوچکا ہے، یہ کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں رہا۔ اب تنہائی کا شکار ہے، اس لئے اب امریکا تو کچھ کرنے سے رہا، اب یہ ایران کے خلاف عالمی سطح پر کوئی محاذ نہیں بنا سکتا، روس، چین، جرمنی سمیت کوئی بھی ملک ساتھ نہیں ہے، نیٹو ممالک اس کے ساتھ نہیں ہے۔ امریکا کا اتحادی اسرائیل تو غزہ میں محصور فلسطینیوں سے نہیں لڑ سکتا، حزب اللہ کے پاس ڈیڑھ لاکھ میزائلوں کا ذخیرہ ہے، جو اسرائیل پر ماریں گے، حزب اللہ سترہ سو میزائل ایک دن میں فائر کرسکتی ہے، اسرائیل ایک چھوٹا سا ملک ہے، جس کی چوڑائی زیادہ سے زیادہ 137 کلومیٹر ہے، بعض جگہوں پر اس کی چوڑائی چوبیس سے پچیس کلومیٹر ہے، اس میں گہرائی ہی نہیں ہے، یعنی اس کو آسانی سے نقصان پہنچایا جاسکتا ہے۔
سوال: ویسے اس معاملے پر اسرائیل کیوں خاموش نظر آرہا ہے۔؟
علامہ ناصر عباس: وزیراعظم نے کابینہ کا اجلاس بلایا، جس میں انہوں نے اپنے ارکان کو واضح کیا کہ آپ نے اس تنازعے پر کچھ بھی بیان نہیں کرنا، کوئی ردعمل نہیں دینا، ہم نے اپنی سرزمین کو میدان جنگ نہیں بنانا، نیتن یاہو نے کہا کہ میری درخواست ہے کہ امریکا کے اتحادی اس کا ساتھ دیں، اسے تنہا نہ چھوڑیں، باقی امریکا کے اتحادی یمن کی دلدل میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں، یمنی انہیں مار رہے ہیں، یہ آگے سے کوئی جواب ہی نہیں دے پاتے، امریکا بھی انکی مدد کو نہیں آرہا، امارات کی بھی کوئی حیثیت نہیں، لہذا سعودی بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم جنگ نہیں چاہتے، لیکن انکا دل یہ چاہتا ہے کہ امریکا ایران پر حملہ کرے، لیکن وہ نہیں کرسکتے، اسی طرح سے امریکا کی اقتصادی لڑائی اب صرف ایران کے ساتھ ہی نہیں ہے، چین اور یورپ کے ساتھ بھی ہے، ایک ہی وقت میں کئی محاذ کھول رکھے ہیں۔
سوال: آپ نے کہا کہ امریکا اگلے الیکشن کی تیاری کر رہا ہے، تو کیا اسکا ٹرمپ کو فائدہ ہوگا۔؟
علامہ ناصر عباس: میرے خیال میں ٹرمپ کے پاس اب دلدل سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں ہے، وہ جنگ کا طبل بجا بیٹھا ہے، مگر اب اس سے کیسے نکلے، اسے سمجھ نہیں آرہی، اس کے پاس کوئی فیس سوینگ نہیں ہے، اگر جنگ کرتا ہے تب بھی ہارتا ہے، نہیں کرتا تب بھی اسے سخت مخاصمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکا کے پاس نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
سوال: فرض کریں اگر ایک چھوٹی سے جنگ شروع ہو بھی تو کہاں جاسکتی ہے۔؟
علامہ ناصر عباس: دیکھیں، اگر وہ چھوٹی سی سٹرائیک کرتا ہے تو ایران آگے سے مارے گا، ایک چھوٹی سی سٹرائیک بھی جنگ کا سبب بن سکتی ہے، ایران نے جس میزائل سے ان کا ڈرون مار گرایا ہے، وہ خود ایران نے بنایا ہے، امریکا ذلیل ہوگا، اس کے بحری اڈے تباہ ہو جائیں گے، ایران کا ریڈار سسٹم بہت ایڈوانس ہے، ایران کا ڈیفینس سسٹم بہت ایڈوانس ہوچکا ہے، ایران کے سامنے امارات اور سعودیہ ہیں، جنہوں نے اپنے اڈے دیئے ہوئے ہیں، یہ سب میدان جنگ کا حصہ بنیں گے، انہیں قیمت چکانی پڑے گی، مجھے لگتا ہے کہ افغانستان کے طالبان بھی امریکا کو ماریں گے، دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے، اس جنگ میں کئی اتحادی سامنے آئیں گے۔ موجودہ حالات میں ایران ایک بڑی قوت کے طور پر ابھرا ہے۔ ایران نے امریکا کو شام اور عراق میں شکست دی ہے، یمن میں بھی یہ شکست کھا چکے ہیں۔
سوال: ایران کی کرنسی کی کیا صورتحال ہے۔؟
علامہ ناصر عباس: دیکھیں، فی الحال تو ڈالر کی قیمتیں اتنی نہیں بڑھیں جتنی پاکستان میں صورتحال ہے، کم زیادہ ہوتی رہتی ہیں، بلکہ آجکل سنا ہے کہ کم ہوئی ہیں، ایران اقتصادی جنگ کا چالیس سال سے مقابلہ کر رہا ہے، اسے معلوم ہے کہ اس نے کیسے ٹیکل کرنا ہے۔ اس پابندی کے باوجود ایران نے بہت زیادہ ترقی ہے، انہوں نے اپنے زور بازو سے سب کچھ کیا ہے، جو یورپ کر رہا ہے۔ سڑکیں انفراسٹرکچر سب جدید ہے۔ انہوں نے زیر زمین میٹرو تک بنائی ہیں۔
سوال: اگر جنگ ہوتی ہے تو روس اور چین کہاں کھڑے ہونگے۔؟
علامہ ناصر عباس: جواب واضح ہے کہ ایران کے ساتھ کھڑے ہوں گے، روس کے صدر نے واضح کہا ہے کہ ایران پر حملہ ہوا تو تہران کا ساتھ دیں گے۔ چین بھی ساتھ دے گا۔