بائیکاٹ کے ساتھ جواب بھی دیجئے!
فرانسیسی حکومت کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت و نمائش پر ہر جگہ بائیکاٹ کے نعرے، فیس بک پر پوسٹس، کویت اور اردن کے بائیکاٹ کی مثالیں دیکھ کر ہم بھی اس مہم میں شریک ہونے کا سوچنے لگے تھے۔ ناشتے میں فرانسیسی بسکٹ کے بجائے انڈہ پراٹھا کھانے کا سوچ رہے تھے۔ گھر میں موجود صابن اور شیمپو کے پیچھے لگے اسٹیکر پر فرانس کی مہر دیکھ رہے تھے تاکہ ان کو نکال پھینکیں۔
جذبات میں آکر بائیکاٹ کی حمایت میں ایک پوسٹ بھی لکھ ڈالی اور سمجھنے لگے کہ شاید اس بائیکاٹ کے فیصلے سے ہمارا فرض ادا ہوگیا۔ یوں ہی لکھی ہوئی پوسٹ ہم نے آگے کسی کو بھیج دی اور سوچا کہ شاید ہمارے دیے گئے بائیکاٹ کے پیغام سے وہ بھی متفق ہوں گے۔ لیکن ان کے سوالات نے ہمارے دماغ کی کھڑکی پر دستک دی اور ہم سے استفسار کیا کہ کیا یہ گستاخی پہلی مرتبہ ہوئی؟ اور نہ یہ بائیکاٹ مہم پہلی مرتبہ چلائی جارہی ہے۔ مسلمانوں کی طرف سے شدید ردعمل پہلی مرتبہ دیا جارہا ہے اور نہ ہر مرتبہ بائیکاٹ کے بعد دوبارہ گستاخی دہرائی جاتی ہے۔
بے شک ہمارے بائیکاٹ سے کبھی کچھ فرق بھی نہیں پڑا، مگر یہ ہمارے ایمان کا ادنیٰ درجہ سمجھ لیا جائے۔ ہمیں اس سے آگے بڑھنا ہے اور ان ناپاک اجسام کو روکنا ہے۔ بائیکاٹ کی یہ چھوٹی سی قربانی تو ہم دے ہی سکتے ہیں۔ ہمارے دکاندار اور تاجر حضرات اگر ان مصنوعات کی خرید و فروخت ترک کریں تو انہیں بھی نقصان ہوگا، لیکن یہ ان کی طرف سے بھی قربانی ہوگی۔
ربیع الاول کا آغاز ہوتے ہی ہمیں ہر جگہ چراغاں نظر آنے لگتا ہے۔ گلی محلوں کو برقی قمقموں سے سجادیا جاتا ہے، جھنڈیوں پر جشن عید میلادالنبی صلی اللہ وسلم لکھ کر سجاوٹ کی گئی ہوتی ہے۔ مشہور چوک، چوراہوں پر خانہ کعبہ، روضہ رسول اور مسجد نبوی کے ماڈل نظر آنے لگتے ہیں، جس کے ارد گرد لوگوں کا جم غفیر عقیدت سے جمع رہنے لگتا ہے۔ ہم نے یہاں تک سنا کہ لوگ ان ماڈلز کے طواف بھی کرتے ہیں، گویا اب عمرہ یا حج کرنے کےلیے آپ کو مکہ مدینہ جانے کی ضرورت نہیں۔ لیکن کیوں کہ ہم نے کلمہ پڑھ لیا ہے، اس لیے ہمارے لیے ہر کام جائز ہے۔ ہماری ہر گستاخی معاف۔ یہ بتیاں، قمقمے، آرائش کا سامان، یہ سب مسلمانوں نے نہیں بنایا۔ صرف کرنے کے کام میں ہم مسلمانوں کو لگا دیا ہے۔
عقیدت کے نام پر یہ سب دیکھ کر ہمیں ایک میوزیم یاد آنے لگا جہاں جوتے پر نام محمدؐ لکھا ہوا تھا اور اسے نوادرات اسلامیہ کے طور پر بے انتہا ادب و احترام سے سجایا ہوا تھا۔ لوگ جاتے اور محبت سے اس جوتے کو لبوں سے لگا لیتے۔ یہ سوچ کر بھی دل کانپ اٹھتا ہے کہ جوتے کی شبیہہ پر اتنا مبارک نام لکھا گیا ہے۔ اس جوتے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے سے نسبت دینا کہاں کا انصاف ہے؟ ان باتوں پر عمل کرنا جو دین اسلام میں ممنوع ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ آج ہر کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک حلیے کے برعکس کفار کے حلیے کو اپنا رہا ہے۔ قرآن و سنت کو فراموش کرکے ان گوروں کی بنائی ہوئی گوگل اور فیس بک پر یقین کیا جارہا ہے۔ دشمنان اسلام کی زبان انگریزی کو عربی پر فوقیت دینا ہماری ترجیحات کو واضح کرتا ہے کہ ہم نام کے مسلمان ہیں۔ فرقہ واریت کی آڑ میں اپنے ہی مسلمان بھائی کو کافر کہنا ہمارے بیچ انتشار کے راستے ہموار کرتا ہے۔ گانوں کی طرز پر حمد و نعت اور ان کے پیچھے ساز بجانا اس بات کا ثبوت ہے کہ موسیقی گناہ نہیں۔ کیا ہم ان سب کے بعد خود کو سچا مسلمان ثابت کرسکتے ہیں؟
ذرا سوچیے! اس وقت امت مسلمہ کو ایسا کیا کرنا چاہیے کہ دوبارہ ان کی ہمت نہ ہو کہ وہ ہمارے دین و ایمان کا، ہمارے قرآن و حدیث کا اور ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کرنے کا سوچ بھی نہ سکیں۔ امت مسلمہ کی کون سی کمزوری ہے جو ان کے ہاتھ لگ گئی ہے، جس کی وجہ سے یہ ممالک مسلسل اس فعل قبیح کے مرتکب ہورہے ہیں۔ یہ وہی یہود و نصاریٰ ہیں جو مسلمانوں سے خوفزدہ ہوتے تھے، ڈر کے مارے تھر تھر کانپنے لگتے تھے، ان کے دلوں میں مسلمانوں کی ہیبت تھی۔ وہ مسلمانوں کے غلام تھے، جن کے دلوں میں مسلمانوں کی تلواروں کا ڈر تھا اور مسلمانوں کی بہادری سے ان کی زبانیں گنگ تھیں۔
ہمیں خود کو ایک مضبوط مسلمان بننا ہوگا۔ ہمیں انہیں منہ توڑ جواب دینے کےلیے ان کے مدمقابل آنا پڑے گا۔ ان کی مصنوعات کے جواب میں اپنی مصنوعات تیار کرنا ہوں گی۔ ہر میدان میں ان کفار کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہونا ہوگا۔ ملکی و بین الاقوامی سطح پر بھرپور جواب دینا ہوگا۔ دنیا کو باور کرانا ہوگا کہ 313 صحابہؓ کا اتحاد اگر کفار کو مات دے سکتا ہے تو پھر اس دور میں ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دلوں کو زخمی کرنے کا جواب بھی حاضر ہے۔ اس لیے تمام مسلم ممالک امت واحدہ بن کر ہر پلیٹ فارم پر یک زبان جواب دیں۔