بھارت اور پاک کے درمیان کشیدگی کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر ہے، پروفیسر عبدالغنی بٹ
جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے سربراہ کاایک خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ عالمی طاقتیں جہاں بھارت اور پاکستان کے مابین اس مسئلہ کے حل کیلئے دباؤ بڑھا رہی ہیں، وہیں دنیا کے بدلتے سیاسی منظرنامے اور عالمی طاقتوں و علاقائی قوتوں کے مابین نئی صف بندی کیوجہ سے امنِ عالم کو درپیش مسائل سے گلو خلاصی کیلئے اس دیرینہ تنازعہ کا حل تلاش کرنے کیلئے بھارت اور پاکستان پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اگر بھارت اپنی روایتی ہٹ دھرمی چھوڑ کر اس مسئلے کو خلوص نیت کی بنیادوں پر حل کرنے میں تعاون دے تو یہ مسئلہ کشمیر منٹوں میں حل ہوسکتا ہے۔
پروفیسر عبدالغنی بٹ نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے فارسی زبان میں ایم اے اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کی ہیں، وکالت کے بجائے انہوں نے تدریس کو اہمیت دی، وہ 23 سال بحثیت پروفیسر جموں و کشمیر کے مختلف کالجز میں اپنی ذمہ داریاں انجام دیتے رہے، یہاں تک کہ انکو حکومت وقت نے آزادی کشمیر کیجانب رغبت و فعالیت کے پیش نظر سرکاری ملازمت سے برطرف کر دیا، ملازمت سے برطرفی کے فوراً بعد وہ مکمل طور پر سیاست سے وابستہ ہوگئے اور کشمیر کی اولین سیاسی جماعت ’’مسلم کانفرنس‘‘ کہ جسکو تاریخ کے ایک مرحلے میں توڑا گیا تھا، یا بقول پروفیسر صاحب اس تنظیم کو حکومت وقت نے دفن کرنا چاہا تھا، کا احیاء نو 1989ء میں عمل میں لایا گیا، پروفیسر عبدالغنی بٹ جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے سربراہ اور چیئرمین ہیں، وہ سابق میں آل پارٹیز حریت کانفرنس کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں،پروفسر عبدالغنی بٹ سے ایک نشست کے دوران ان سے خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)
سوال : اولاً مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے مذاکرات کی اہمیت و افادیت پر آپکی رائے جاننا چاہیں گے۔؟
پروفیسر عبدالغنی بٹ: مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر برصغیر بھارت و پاک میں امن و امان ناممکن ہے اور بھارت و پاکستان کے درمیان کشیدگی کی بنیادی وجہ کشمیر کا مسئلہ ہی ہے۔ اگر یہ مسئلہ 1947ء میں حل ہوا ہوتا تو آج ایسی صورتحال درپیش نہیں ہوتی۔ بھارت اور پاکستان میں امن تب تک قائم نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اس مسئلے کا آبرومندانہ حل نہیں نکالا جاتا۔ کشمیری قوم نے لاتعداد قربانیاں دیں ہیں، تاکہ انہیں مکمل آزادی نصیب ہو اور بھارت و پاکستان اس مسئلے کا آبرومندانہ حل نکالیں۔ برصغیر بھارت و پاک میں جھگڑوں کے بیچ امن اور ترقی ممکن نہیں ہے۔ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے بھارت و پاکستان چوتھی جنگ کے دہانے تک پہنچ گئے ہیں۔ اگر خدا نخواستہ جنگ کی صورتحال پیدا ہوئی تو یہ پورے برصغیر ایشیاء کے لئے تباہ کن ثابت ہوگا، اس لئے ضروری ہے کہ امن قائم ہو اور اس سلسلے میں دونوں ممالک کو بات چیت میں پہل کرنی ہوگی، تاکہ جنگ کی تباہ کاریوں سے بچا جاسکے اور امن و ترقی کے راستے کھولے جاسکیں۔ بہتر یہ ہے کہ پہلے مسئلہ کشمیر کے حل پر ہی بات چیت شروع ہو، تاکہ باقی ماندہ معاملات و مسائل خود بخود حل ہوں۔
سوال : کیا مسئلہ کشمیر واقعی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے یا جان بوجھ کر اسے اُلجھایا جا رہا ہے۔؟
پروفیسر عبدالغنی بٹ: دراصل مسئلہ کشمیر پیچیدہ مسئلہ نہیں ہے، البتہ عالمی قیادت اقوام متحدہ میں منظور کی گئی قراردادوں سے صرف نظر کرکے اسے طول دے رہی ہے۔ اس سلسلے میں کئی اڑچنیں بھی آڑے آرہی ہیں۔ ایک طرف دنیا بھر کے ممالک اس مسئلے کے سلسلے میں اس لئے چشم پوشی کر رہے ہیں کہ وہ ہر ایک مسئلے کو تجارت کے نکتہ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسلامی ممالک کو اس سلسلے میں جو کردار ادا کرنا تھا، وہ ایسا نہیں کر رہے ہیں، لیکن اس سب کے باوجود دنیا ہماری آواز کو سنی ان سنی بھی نہیں کر رہی ہے۔ عالمی طاقتیں جہاں بھارت اور پاکستان کے مابین اس مسئلہ کے حل کے لئے دباؤ بڑھا رہی ہیں، وہیں دنیا کے بدلتے سیاسی منظرنامے اور عالمی طاقتوں و علاقائی قوتوں کے مابین نئی صف بندی کی وجہ سے امنِ عالم کو درپیش مسائل سے گلو خلاصی کے لئے اس دیرینہ تنازعہ کا حل تلاش کرنے کے لئے بھارت و پاکستان پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ یہاں یہ بات بھی کہتا چلوں کہ اگر بھارت اپنی روایتی ہٹ دھرمی چھوڑ کر اس مسئلے کو خلوص نیت کی بنیادوں پر حل کرنے میں تعاون دے تو یہ مسئلہ منٹوں میں حل ہوسکتا ہے۔
سوال : مسئلہ کشمیر کے فوری حل کے حوالے سے کشمیری قیادت کو کیا لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیئے۔؟
پروفیسر عبدالغنی بٹ: مسئلہ کشمیر کے فوری حل کا جہاں تک سوال ہے، ہم اس مسئلے کے سلسلے میں کافی متفکر ہیں اور چاہتے ہیں کہ حریت کانفرنس ایک وسیع پلیٹ فارم کی صورت اختیار کرے، تاکہ ایک منظم اور نئی قوت سے جدوجہد آزادی کو آگے بڑھایا جاسکے۔ اس سلسلے میں اہم ترین اور اولین ترین پہل اتحاد و اتفاق کے لئے ہونی چاہیئے اور مجھے یقین ہے کہ جب ایک مضبوط پلیٹ فارم سے آواز ابھرے گی تو ہماری جدوجہد ضرور رنگ لائے گی۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ قوموں کی تاریخ میں جدوجہد ہمیشہ طویل رہی ہے۔ البتہ خلوص نیت سے اگر ہم آگے بڑھیں تو یہ ہمارے لئے فتح کی نوید بن سکتی ہے۔
سوال : آپکی نظر میں مسئلہ کشمیر کا کیا حل ممکن ہے، کشمیریوں کو کیوں اقوام متحدہ کے مجوزہ روڑمیپ سے ماورا کوئی حل قابل قبول نہیں ہے۔؟
پروفیسر عبدالغنی بٹ: دیکھیئے مسئلہ کشمیر کا حل بالکل آسان ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں قوموں کی آزادی سے متعلق حق تسلیم کیا گیا ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم بھارت سے اس کا کوئی حصہ چھیننا نہیں چاہتے ہیں۔ جموں و کشمیر کبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں رہا ہے، بھارت نے اکتوبر 1947ء میں ریاست جموں و کشمیر پر جابرانہ قبضہ کرکے ہمارے بنیادی حقوق سلب کر لیئے ہیں اور اس سلسلے میں خود بھارت کے رہنماؤں نے سلامتی کونسل میں اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ان کی فوجیں کشمیر میں عارضی طور پر مقیم ہیں اور حالات ٹھیک ہوتے ہی عوام کو اپنے سیاسی مستقبل سے متعلق رائے ظاہر کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ ہم اقوام متحدہ کے مجوزہ روڑمیپ یا ان کی ثالثی کو اس لئے بھی ایک بہتر حل تصور کرتے ہیں کہ اس میں قوموں کی سیاسی آزادی سے متعلق منشور موجود ہے۔ اب اگر بھارت سہ فریقی مذاکرات پر اپنی آمادگی کا اظہار کرے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا، ہم سہ فریقی بات چیت پر بھی راضی ہیں۔ اقوام متحدہ نے مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان میں مداخلت کرکے ایک حل پیش کر لیا اور ایسا جموں کشمیر کے لئے بھی ممکن ہے، کیونکہ ہمارا مسئلہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے میں سب سے دیرینہ مسئلہ ہے۔
سوال : ابھی اگر دیکھا جائے تو مزاحمتی قیادت پر مسلسل پابندیاں عائد کی جاچکی ہیں، انہیں بھارت کے مختلف جیل خانوں میں مقید رکھا گیا ہے، ایسے حربوں کے نتیجے میں بھارت آخرکار کیا چاہتا ہے۔؟
پروفیسر عبدالغنی بٹ: بھارت اور اس کے مقامی آلہ کار مزاحمتی رہنماؤں پر قدغن عائد کرکے عوام اور مزاحمتی قائدین کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کی سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں اور یہ ہر قابض حکمرانوں کے لئے ایک آزمایا ہوا ہتھیار رہا ہے۔ ہمیں سالہا سال سے جیلوں میں بند رکھا جا رہا ہے اور ہمارے جوانوں کو قید خانوں کی نذر کیا جا رہا ہے۔ اس بات سے واضح ہوتا ہے کہ بھارت اور اس کے مقامی حکمران ہم سے خائف ہیں اور ہمارا سامنا کرنے سے ڈر رہے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ حالیہ انتخابات میں ہمیں لوگوں کے پاس جانے نہیں دیا گیا اور تمام مزاحمتی قائدین اور اراکین کو جیلوں میں قید رکھ کر یک طرفہ انتخابات کا ڈھونگ رچایا گیا۔ بھارت ہمیں قید و بند کی نذر کرکے عوام کو ایک آواز سے محروم کرنا چاہتا ہے اور اس طرح دنیا و ہمارے بیچ ایک آہنی پردہ حائل کرکے جموں کشمیر کی صورتحال سے بے خبر رکھنے کی سعی کر رہا ہے۔
سوال : بھارت اور پاکستان کے مابین مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہونیکا احتمال ہے، کیا دوطرفہ مذاکرات سے مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے۔؟
پروفیسر عبدالغنی بٹ: دیکھیئے ہمارا ماننا ہے کہ بات سے بات بنے گی اور مسئلہ حل کرنے کے لئے مذاکرات کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے، لیکن اس کے لئے مسئلہ کشمیر کے تمام فریقین کو اپنے خلوص اور فراخدلی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جنگ و جدل کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ بھارت، پاکستان اور جنوبی ایشیاء کے تمام ممالک امن و چین سے رہیں اور اپنے عوام کو راحت پہنچانے کے لئے بھائی چارے کو قائم کرنے میں اپنا تعاون فراہم کریں۔ جہاں تک دو طرفہ مذاکرات کا تعلق ہے، ہم نے بار بار اپنے اس موقف کا اظہار کیا ہے کہ جموں و کشمیر کوئی سرحدی تنازعہ نہیں ہے بلکہ ڈیڑھ کروڑ عوام کے سیاسی مستقبل سے جڑا مسئلہ ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ جب تک جموں و کشمیر کے اصل فریق کو مذاکرات میں شامل نہیں کیا جاتا، تب تک کسی دیرپا امن یا حل کے لئے امید کرنا ہی عبث ہے۔ فریق اول کی غیر موجودگی میں کسی حل کے قابل قبول ہونے کی امید نہیں کی جاسکتی ہے۔ بھارت نے ہمیشہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا ہے اور کبھی بھی مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں سنجیدہ نظر نہیں آیا ہے، اگر بھارت سنجیدگی کا مظاہرہ کرتا ہے تو امن لوٹ آنے میں دیر نہیں لگے گی۔
بشکریہ : اسلام ٹائمز