مضامین

جنت البقیع

 تحریر: ظہیر عباس جٹ
zaheerabasjut@gmail.com

معاشرتی نظام اسلام میں انسانی تاریخ کی اپنی الگ اہمیت ہوتی ہے۔ جس سے کبھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ہمارے درمیان سے تاریخ کو ہٹا دیا جائے تو ہمارے درمیان ایک ایسا زمانی اور مکانی خلا واقع ہو جائے گا ایک نسل کا دوسری نسل سے رابطہ منقطع ہو جائے گا۔ ایسی صورتحال سے مستقبل کے درمیان کی مسافت طے کرنا ایک ناگزیر عمل ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ انسان اپنے ماضی کے آثار و باقیات کے خط مستقیم سے ہی حال اور مستقبل کی مسافت کا تعین کرتا ہے۔ خاص کر جب کوئی شخص کسی مذہب یا قوم کی تہذیب و ثقافت کا تجزیہ کرنا چاہتا ہے تو وہ سب سے پہلے اس قوم اور مذہب کے اتحاد کا ہی جائزہ لیتا ہے۔ اس لئے کہ اس کے بغیر کوئی شخص کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ اس کی سچائی حقیقت کا ادراک کر سکتا ہے لہٰذا اس زمین پر آباد ہونے والی قوموں کی سب سے بڑی وراثت ان کے ماضی کی تہذیب و ثقافت ہی ہوتی ہے۔ اگر کسی قوم یا مذہب کے وجود کو ختم کرنا مقصود ہو تو اس کے ماضی کے تمام آثار کو ختم کر دیا جائے تو وہ قوم خود بخود اپنی شناخت سے محروم ہو جائے گی۔

اسلام کی سب سے بڑی شناخت اس کے ماضی کی تاریخ کے دامن میں موجود اس کے آثار و باقیات ہیں۔ جس کی وجہ سے آج عالمی سطح پر اسلام کی اپنی ایک الگ شناخت ہے۔ عالمی استعمار کی سب سے بڑی کوشش یہی ہے کہ اسلام کی اس عظیم الشان تاریخ کو اس طریقه سے مسخ کر دیا جائے کہ آنے والی نسلیں اپنی اصل پہچان سے محروم ہو جائیں۔ موجوده عهد میں مشرقی وسطٰی میں برپا ہونے والی جنگ استعماری طاقتوں کے مختلف سیاسی و سماجی مقاصد کے حصول کے اہداف میں سے ایک اہم ہدف یہ بھی ہے کہ اسلام کے مقدس آثار و شعائر کو ختم کردیا جائے۔ اسلام دشمنوں کا یہ وہ دیرینہ خواب ہے جسے وہ کسی بھی صورت میں شرمندہ تعبیر کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن انہیں اپنے مقاصد کے حصول میں مستقل شکست آمیز ذلت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اسلام کے ساتھ سب سے بڑا المیہ یہ رہا کہ ابتدائے اسلام سے ہی مسلمان سامراجی طاقتوں کا آلہ کار بنے ر ہے اور ان استعماری طاقتوں نے مسلمانوں کو اسلام کے خلاف کھڑا کردیا۔ اور اسلام اور مسلمان دونوں ایک دوسرے سے ہمیشہ مزاحم رہے۔

تاریخی پس منظر:

تاریخ میں بقیع کے انہدام کا ذکر دو بار ملتا ہے۔ پہلی بار اس مذموم سازش کا ارتکاب 1803ء میں ہوا جب وہابیوں نے حجاز پر قبضہ کی غرض سے حملہ کیا۔ ان کا لشکر طائف کو فتح کرنے کے بعد مکہ مکرمہ کی طرف بڑھا اور وہاں کے مقدسات و گنبد کو گرا دیا۔ ان میں وہ گنبد بھی شامل تھا جو زم زم کے مقام پر تعمیر کیا گیا تھا۔ 1805ء میں اس فعل کو دہراتے ہوئے مدینہ منورہ کی مساجد بشمول جنت البقیع کو منہدم کیا گیا۔ قریب تھا کہ روزہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی گرا دیا جاتا لیکن خوش قسمتی سے یہ سانحہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ بقیع کی تمام قبور کی اونچائی اور نشانات کو ختم کر دیا گیا۔ اور زیارت قبور پر آنے والے زائرین کے لئے سخت سزا مقرر کی گئی۔ مسلمانان مکہ و مدینہ کو مکمل تباہی سے بچانے کے لئے خلافت عثمانیہ کے قیام کی حمایت کی اور محمد علی پاشا نے حملہ کر کے مکہ اور مدینہ پر قبضہ حاصل کر لیا۔ 1818ء میں عثمان خلیفہ عبد المجید اور عبدالحمید نے تمام مقامات مقدسہ کی تعمیر نو کا فیصلہ کیا اور یہ سلسلہ 1860ء تک جاری رہا۔

مغربی طاقتوں کی ایماء پر خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے کے بعد وہابی دوبارہ حجاز میں داخل ہوئے۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے روزہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ تمام تاریخی ورثہ کو مسمار کر دیا۔ اس کے علاوہ مکہ مکرمہ میں واقع قبرستان جنت المعلی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آبائی گھر کو بھی گرا دیا۔ اس قبیع فعل کے ردعمل میں تمام اسلامی دنیا نے صدائے احتجاج بلند کی۔ متحدہ ہندوستان میں آل سعود کے مذکورہ اقدام کے خلاف قرارداد منظور کی گئی۔ ایران، عراق، مصر، انڈونیشیا، افغانستان اور ترکی میں مظاہرے ہوئے۔ مکہ مکرمہ میں جن محترم بزرگ ہستیوں کی قبور کو منہدم کیا گیا ان میں حضرت بی بی آمنہ، حضرت خدیجہ بنت خویلد حضرت، ابو طالب علیہ السلام اور حضرت عبد المطلب علیہ السّلام شامل ہیں۔ جبل احد پر حضرت حمزہ علیہ السلام اور دوسرے شہداء اور جدہ میں حضرت بی بی حوا کی قبریں بھی آل سعود کے عقیدے کا نشانہ بنیں۔ اس کے علاوہ بنو ہاشم کے مخصوص افراد کے گھر بھی گرا دیئے گئے جن میں حضرت علی علیہ السلام و سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا اور حضرت حمزہ علیہ السلام کے گھر شامل ہیں۔

مدینہ منورہ کے تاریخی قبرستان جنت البقیع میں دختر رسول حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام، حضرت امام زین العابدین علیہ السلام، حضرت امام محمد باقر علیہ السلام، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے روضوں کو منہدم کیا گیا۔ فرزند رسول حضرت ابراہیم علیہ السلام، ازواج رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا، حضرت ام البنین سلام اللہ علیها، حضرت حلیمہ سعدیہ سلام اللہ علیہا اور دوسرے صحابہ کرام کی قبور کی انچائی کو بھی ختم کر دیا گیا۔ موجودہ جنت البقیع میں قبریں دور سے مٹی کے ٹیلے دکھائی دیتی ہیں جن پر چھوٹے چھوٹے پتھر بکھرے ہوئے ہیں۔ زائرین کو قبور کے پاس جانے اور فاتحہ خوانی کی اجازت نہیں کیوںکہ آج بھی حجاز (سعودی عرب) پر آل سعود قابض ہیں۔ آل سعود کی سرپرستی میں مقدسات کے انہدام کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس کی وجہ حج و عمرہ کی کمائی سے حاصل ہونے والا منافع ہے۔ ایک ہی وقت میں زیادہ سے زیاد حجاج کرام اور زائرین کو رہائش فراہم کرنے کی غرض سے مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے آس پاس تعمیرات جاری ہیں۔ دور نبوی کے کنویں اور پل ختم کر دیئے گئے ہیں۔

رسول اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ کے گھر کی جگہ مکہ ہوٹل تعمیر کیا گیا ہے۔ دیگر صحابہ کرام اور ازواج رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کو گرا کر ہوٹلز کو تعمیر کیا گیا ہے۔ جن کی آمدنی سے سعودی حکمران امریکہ سےمزید ہتھیار خرید سکیں۔ آل سعود نے مکہ مکرمہ کو اقوام متحدہ کے ادارے کے تاریخی ورثہ عمارات میں بھی اسی وجہ سے شامل نہیں کیا تاکہ دنیا کو پتہ نہ چل سکے، یہاں کے تاریخی مقامات کو کتنی تیزی سے ختم کیا جا رہا ہے۔ موجودہ دور میں ایک بار پھر دنیا نے اپنی آنکھوں سے یہ دیکھ لیا کہ امریکہ اسرائیل اور سعودی عرب کے ٹکڑوں پر پلنے والی دہشت گرد تنظیموں نے وہی عمل انجام دیا جو آل سعود نے اپنے حکومت کے قیام کے بعد دیا تھا۔ شام اور عراق میں موجود عالم اسلام کی بزرگ شخصیتوں کے مزارات کو کس طرح سے داعش اور جبہۃ النصرہ جیسی تنظیموں نے شرک و بدعات کے نام پر شہید کیا۔ کسی سے پوشیدہ نہیں یہاں تک کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشہور صحابی جناب حجر بن عدی کی قبر کو توڑ کر ان کی لاش کے ساتھ بے حرمتی کی۔ ایسا جرم کوئی قوم اپنے اکابرین اور بزرگ ہستیوں کے ساتھ نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ کچھ سلفی دہشت گردوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے حضرت امام حسین علیہ السلام کی قبر جو کربلا میں موجود ہے اسے توڑنے کی کوشش کی لیکن انہیں بری طرح ذلت اور شخص کا منہ دیکھنا پڑا۔

اس طرح کے غیر اسلامی کام صرف اور صرف امریکہ اور اسرائیل کی خوشنودی میں انجام دیئے جا رہے ہیں۔ یہ کون سے مسلمان ہیں اور ان کا کیسا اسلام ہے۔ جو اس طرح کے اخلاقی اور غیر اسلامی فعل کو انجام دینے میں ایک لمحہ بھی انتظار نہیں کرتے۔ انہیں دنیا کی دیگر قوموں سے سبق لینا چاہیئے کہ وہ اپنے عظیم لوگوں کی یادگار کا کس طرح تحفظ کرتی ہیں۔ صرف اس لئے کہ آنے والی نسلیں یہ دیکھ کر اپنی قوم پر فخر کر سکیں، جن کی قوم میں ان عظیم ہستیوں نے جنم لیا تھا۔ جو آج ہمارے لئے فخر کا مقام ہے۔ اس لئے کہ اگر ساری قومیں اپنے بزرگوں کے آثار اور ان کے کارناموں کو فراموش کردیں گی تو ان کا نام تاریخ سے ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا۔ لہذا تمام مسلمانوں کو چاہیئے کہ عالم اسلام میں گزرنے والی عظیم ہستیوں کے آثار و باقیات کا تحفظ کریں۔ اور ان کے نشانات کو محفوظ کریں جنھیں ساری طاقتیں مٹانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اگر مسلمانوں نے ایسا نہیں کیا تو آنے والی نسلیں اپنے ماضی کی ان عظیم باقیات و آثار سے محروم ہو جائیں گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button