حضرت علی ؑ نے اپنے ظاہری دور حکومت میں جو نظام مملکت متعارف کرایا اسے اپنے خطبات اور اپنے گورنروں کو لکھے گئے خطوط میں واضح اور روشن کیا۔ چودہ سو سال گذر جانے کے باوجود آج بھی علی ؑ کا عطا کردہ نظام حکومت ہر ملک اور ہرمعاشرے کے دل کی آواز ہے۔
حضرت علی علیہ السلام کے دور خلافت و حکومت کے بیشمار خصویات اسلامی اور انسانی تاریخ میں موجود ہیں۔ جس میں سب سے ممتاز و معروف خصوصیت عدل و انصاف کی فراہمی ہے۔ آپ ؑ کے ظاہری خلافت کا عرصہ اگرچہ صرف چار سال آٹھ ماہ نو دن پر محیط ہے لیکن اس قلیل عرصے میں امیر المومنین ؑ جس طرح نظام ِ حکومت چلایا وہ بے مثل و بے نظیر ہے۔ شیعہ سنی کتب ِ تاریخ میں علی ؑ کے دور ِ حکومت کی ایک خصوصیت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ یہ نظام قرآن اور سنت کی بنیاد پر قائم تھا۔ پس منظر میں یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ جب ظاہری مسند ِ خلافت تین دن تک خالی پڑی رہی تو اکابر صحابہ و اہل بیت ؑ اور مہاجرین و انصار کے مسلسل اور شدید اصرار و درخواست پر امیرالمومنین ؑ نے بار بار انکار کے بعد خلافت کا بوجھ اپنے کندھوں پر لیا۔
علی ؑ جانتے تھے کہ انہیں کون کون سے بحرانوں کا سامنا کرنا ہوگا؟ کن مشکلات سے گذرنا ہوگا؟ کن سنگین مراحل کو دیکھنا ہوگا؟ اور کن کن فتنوں کا مقابلہ کرنا ہوگا؟ وقت نے دیکھا کہ جونہی علی ؑ نے زمام ِ اقتدار سنبھالی تو فتنوں اور بغاوتوں نے سر اٹھا لیا ۔ مدت سے دبی نفرت کی چنگاریوں نے ہوا کا آسرا لے لیا۔ جنگوں کے بادل امڈنے لگے۔ لیکن علی ؑ نے ہر ہر مسئلے کے حل کے لیے قرآن و سنت کا سہارا لیا۔ قرآن و سنت کو رہنما بنایا۔ قرآن و سنت سے دلائل و براہین لے کر فیصلے کئے۔ اور مقابل آنے والی ہر قوت کے سامنے قرآن و سنت کی تعلیمات رکھیں۔
وہ علی ؑ جس کے علم کے بارے میں ام المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ’’علی ؑ سے زیادہ مسائل شریعہ جاننے والا کوئی نہیں ہے‘‘۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ’’ہم نے جب بھی علی ؑ سے کوئی مسئلہ دریافت کیا ہے تو ہمیشہ درست ہی جواب پایا ہے ‘‘۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں ’’میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ہر اس مسئلے سے جو درپیش ہو مگر اس کا حل کرنے والا علی ؑ موجود نہ ہو‘‘۔حضرت سعید بن المسیب اس کی تائید میں فرماتے ہیں کہ ’’ حضرت عمر ؓ ہر اس پیچیدہ مسئلہ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے تھے جسے حل کرنے کے لیے ابوالحسن علی ابن ابی طالب موجود نہ ہوں‘‘۔ ایک دوسرے مقام پر جب شریعت کے خلاف ایک غلط فیصلہ ہوگیا اور حضرت علی ؑ نے اصلاح فرما دی تو حضرت عمر ؓ نے کھلا اقرار کیا کہ ’’اگر علی ؑ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا۔ علی ؑ نے عمر کو ہلاکت سے بچا لیا‘‘۔
خلافت سے قبل ہی جس کے علم اور عدالت مسلمہ ہوں وہ خلافت کے دوران بھلا کس طرح شریعت اور قران و سنت کے خلاف فیصلے کر سکتا ہے؟ جو خود صحابہ کرام کے نزدیک اولین و آخرین میں سب سے زیادہ عالم ‘ بافہم و فراست اور عادل و غیر جانبدار ہو وہ کس طرح کسی کے ساتھ زیادتی ‘ بے عدلی یا جانبداری کر سکتا ہے؟ اکابر صحابہ کی گواہی تاریخ کے صفحات پر موجود ہے کہ حضرت علی ؑ ظاہر و باطن دونوں کے امین ہیں۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے واضح فرما دیا کہ ’’بیشک علی ؑ ابن ابی طالب ؑ کے پاس علم ِ ظاہر بھی ہے اور علم ِ باطن بھی ہے ‘‘۔ کیسے ہو سکتا کہ ظاہر و باطن کے علوم پر دسترس رکھنے والا علی ؑ کسی مدمقابل آئے اور اس کے ساتھ قرآن و سنت کے مطابق معاملہ نہ کرے۔ ؟
حضرت علی ؑ نے اقرباء پروری کی جس طرح حوصلہ شکنی کی وہ اس سے قبل نہیں دیکھی گئی۔اپنے حقیقی بھائی عقیل ابن ابی طالب ؑ کے ساتھ مال ِ غنیمت کے حوالے سے کیا جانے والا سلوک اور فیصلہ آج تک تاریخ پر ثبت ہے اور یاقیامت ثبت رہے گا ۔ ایسا حکمران کہاں ملے گا جو روزانہ سرکاری خزانے کا حساب کرکے اور بیت المال میں جھاڑو دے کر سوئے۔ علی ؑ نے خلافت کا لباس پہنا ہی اسی شرط پر کہ وہ کسی حکمران کے مطابق نہیں بلکہ قرآن و سنت کے مطابق فیصلے کرے گا ۔ علی ؑ آخر دم تک اپنے اس فیصلے پر قائم رہے۔ حق منوانے اور عدل قائم کرنے کے راستے میں جنگیں برداشت کیں۔ قتل و قتال قبول کیا۔ اپنے جانثاروں کی میتیں دیکھیں۔ اپنے اقربا ء و جوارح کو بھوک اور تنگدستی کی حالت میں دیکھتا رہا لیکن نہ حق سے منہ موڑا اور نہ عدل سے پیچھے ہٹا۔
حضرت سعد ابن ابی وقاص ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺنے حضرت علی ؑ سے فرمایا کہ تم میری طرف سے اس مرتبہ پر فائز ہوجس مرتبہ پر حضرت موسیٰ ؑ کی طرف سے حضرت ہارون فائز تھے مگر بات یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا(بخاری و مسلم) امت کا المیہ یہی رہا ہے کہ حضرت علی ؑ کو نبی ؐ کے فرمان مطابق ہارون جیسا مقام نہیں دیا۔ نبی اکرم ؐ کے فرمان کا واضح مقصد ہی یہی ہے کہ جس طرح حضرت موسیٰ ؑ کی عدم موجودگی میں موسیٰ ؑ کی امت کی رہنمائی حضرت ہارون ؑ کے ذمے رہی اسی طرح میرے ؐ بعد میری امت کی سرداری اور رہنمائی کے لیے علی ؑ کی ذات موجود رہے گی۔
حضرت علی ؑ نے اپنے ظاہری دور حکومت میں جو نظام مملکت متعارف کرایا اسے اپنے خطبات اور اپنے گورنروں کو لکھے گئے خطوط میں واضح اور روشن کیا۔ چودہ سو سال گذر جانے کے باوجود آج بھی علی ؑ کا عطا کردہ نظام حکومت ہر ملک اور ہرمعاشرے کے دل کی آواز ہے۔ تاریخ میں متعدد حکمرانوں اور معاشروں نے علی ؑ کے طرز حکومت سے استفادہ کیا ہے۔ دور ِ حاضر میں اقوام متحدہ نے تمام اقوام عالم اور حکومتوں و حکمرانوں کو ہدایت کی ہے اور تجویز دی ہے کہ وہ علی علیہ السلام کے عدل سے آراستہ نظام کو آئیڈیل بنائیں اور اس سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے نافذ کرنے کی کوشش کریں۔
شدّت ِ عدل کی وجہ سے شہید ہونے والا حکمران بھلا قابل تائید و تقلید ہوگا یا نہیں؟ آئیے اپنے آپ کو سیرت ِعلی ؑ کے سانچے میں ڈھالیں اور اپنی ذات سے جماعت تک اور گھر سے حکومت تک ہر مقام پر علی ؑ کے دور ِ حکومت کے زریں اصولوں کو نافذ کریں۔