مضامین

ستار علوی سے زینبیون تک غیرت مند پاکستان کا سفر

ستار علوی کون ہیں؟ پاکستان کی فضائی افواج کے پائلٹ افسر جنہوں نے 1973ء کی جنگ میں عرب ملک شام کے دفاع میں جنگ میں حصہ لیا اور اسرائیلی حملہ آور طیارہ مار گرایا۔ زینبیون کون ہیں؟ ان غیرت مند پاکستانیوں کی تنظیم جو شام کے مقدس مقامات کو اسرائیلی بلاک اور اس کے پراکسی دہشت گردوں کے حملوں سے بچانے کی دفاعی جنگ میں اپنا حصہ ڈالنے گئے ہیں۔ شام کی حکومت کی نظر میں ان کی حیثیت وہی ہے، جو جناب ستار علوی صاحب کی تھی۔ یعنی وہاں ان کی موجودگی قانونی ہے۔ شام ایک آزاد و خود مختار عرب ملک ہے، جہاں ایک علوی صدر ہے، ایک سنی عرب وزیراعظم ہے اور دیگر اعلیٰ ترین ریاستی حکومتی عہدوں پر اکثریت سنی عربوں کی ہے۔ شام میں باقاعدگی کے ساتھ الیکشن ہوتے ہیں۔ وہاں عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب اراکین پر مشتمل پارلیمنٹ ہے اور وہاں کا صدر بھی عوام ہی کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہوتا ہے۔ جس وقت ستار علوی نے شام کی دفاعی جنگ میں حصہ لیا تھا، تب بھی ایک علوی ہی شام کا صدر تھا۔ اب جب زینبیون وہاں ہیں، تب بھی ایک علوی ہی شام کا صدر ہے۔

اب پرابلم کیا ہے!؟ پرابلم اسرائیلی بلاک اور اس کے جھوٹے مبلغین ہیں۔ جب جب شیعہ مسلمانوں سے متعلق جھوٹ پھیلایا جائے گا تو حقائق پر مبنی منہ توڑ جواب بھی دیا جاتا رہے گا۔ فیکٹ چیک کریں تو شام میں سنی عربوں اور علویوں کے تعلقات بہترین ہیں۔ علوی صدر کی زوجہ سنی عرب ہیں۔ سنی و علوی مرد و خواتین کے مابین شادیاں وہاں عام رواج ہے۔ وہ عرب ہیں اور اسی شناخت پر انکا اصرار ہے۔ لیکن پاکستان میں کاذبین یعنی جھوٹوں کے ٹولے عرب ملک شام سے متعلق اتنا جھوٹ بولتے ہیں کہ الامان الحفیظ۔ اس لیے فیکٹ چیک کرتے ہیں اور زینبیون سے متعلق حقائق کی تہہ تک پہنچتے ہیں۔ چونکہ یہ پاکستانی ہیں اور ان کے خلاف اردو زبان میں جھوٹ پر مبنی غلط معلومات کی بہتات ہے، اسی لیے ہم اس معاملے کو پاکستان ہی کے تناظر میں دیکھیں تو بھی باآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ حقائق کیا ہیں۔

سب سے پہلا سوال یہ کہ کیا کسی پاکستانی کا کسی دوسرے ملک جا کر جنگ لڑنا، کیا زینبیون کوئی پہلی تنظیم ہے، جس نے یہ کام کیا ہے؟ تو اس کا جواب ہے بالکل نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانیوں کی بہت سے دیوبندی اور وہابی و اہل حدیث مسلک مذہبی تنظیموں نے افغانستان میں جا کر جنگ میں حصہ لیا ہے۔ لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ زینبیون نے جس ملک جا کر یہ کام کیا ہے، یہ اس حکومت و ریاست کی اجازت سے کیا ہے۔ لیکن جو پاکستانی افغانستان کی جنگ میں حصہ لینے گئے تھے، وہ اس ملک کی حکومت کے خلاف جنگ لڑنے گئے تھے اور درحقیقت وہ امریکی حکومت کی قیادت میں لڑی جانے والی مغربی زایونسٹ بلاک کی سوویت بلاک کے خلاف ایک پراکسی وار تھی اور اسکا اعتراف امریکی سی آئی اے کے اس وقت کے ایک افسر گیری اسکروئن نے اپنی کتاب دی فرسٹ ان میں کیا ہے۔ امریکی زایونسٹ بلاک کے وہ پراکسی پاکستانی مجاہدین کہلائے۔ نہ تو یہ پاکستانی افغانستان میں کسی مزار شریف کو بچانے گئے تھے اور نہ ہی کسی اور مقدس مقام کو۔

پاکستانی بوسنیا بھی گئے اور کچھ فرق کے ساتھ دیگر ممالک میں بھی جاتے رہے اور اسی عرب ملک شام کی منتخب جمہوری حکومت اور پوری ریاست کے خلاف اسی امریکی زایونسٹ سعودی بلاک کی جنگ لڑنے والے پراکسی گروپس میں پاکستانیوں کی بھی ایک قلیل تعداد وہاں کی حکومت نے کنفرم کی تھی۔ حتیٰ کہ چائنا سے بھی جتھے گئے اور چائنا کی حکومت نے ان کے خلاف شام کی حکومت کے ساتھ مل کر کاؤنٹر اقدامات بھی کیے۔ عرب ملک شام کے خلاف اس سازش کا اعتراف اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ہارڈ چوائسز میں کیا۔ اس دور میں لیون پنیٹا سی آئی اے کے سربراہ بھی رہے اور وزیر دفاع بھی۔ انہوں نے وردی فائٹس نامی اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب میں تحریر کی۔ یعنی یہ امریکی اسرائیلی اور عرب اور نیٹو اتحادی ممالک کی مشترکہ پراکسی وار ہے، جو شام کی عرب جمہوری ریاست و حکومت کے خلاف لڑی جا رہی ہے۔

شام سے یہ ممالک کیوں ناراض ہیں، کیونکہ یہ واحد عرب ریاست ہے جو فلسطین کی آزادی کے کاز سے مخلص ہے۔ شام کے ایک حصے جولان پر اسرائیل کا غیر قانونی قبضہ ہے۔ یہ اسرائیل سے جولان کی غیر مشروط آزادی کی قائل ہے جبکہ امریکی اسرائیلی عرب بلاک اسرائیل کو تسلیم کروانے کی شرط رکھتے آئے ہیں۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ مقبوضہ عرب علاقوں کی اسرائیل کے غیر قانونی قبضے کو آزاد کرنے والی حماس، حزب جہاد اسلامی اور حزب اللہ کی مدد بھی کرتی ہے۔ جب اردن میں حماس کے خالد میشال کے کان میں زہر ڈال کر مارنے کی کوشش کی گئی تھی تو یہ عرب ملک شام ہی تھا، جس نے حماس کی قیادت کو محفوظ پناہ گاہ دی۔ شام پر امریکی زایونسٹ عربی غربی بلاک کا دباؤ یہ بھی ہے کہ وہ فلسطین و لبنان کے مقبوضہ علاقوں کی آزادی کے لیے سرگرم مسلح تحریکوں کی حمایت اور مدد نہ کرے۔ اس زاویئے سے دیکھیں تو زینبیون غیرت مند پاکستانی قوم کی طرف سے آزادی بیت المقدس کی جنگ ہی کے ایک محاذ پر مصروف عمل ہے۔ سوال تو ان سے ہونا چاہیئے کہ جو بیت المقدس کی آزادی کی جنگ لڑنے والوں پر جھوٹے الزامات لگا کر عوام الناس کو گمراہ کر رہے ہیں۔

ایک تو یہ خود اسرائیلی بلاک کے دفاع میں مصروف رہتے ہیں اور دوسرا پاکستانی قوم کے اچھے امیج کو دہشت گردی اور تکفیریت سے داغدار کرتے ہیں۔ ان میں اور زینبیون دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ داعش، القاعدہ، سپاہ صحابہ لشکر جھنگوی (یعنی مولوی لدھیانوی، اورنگزیب فاروقی، معاویہ اعظم و آنجہانی ملک اسحاق وغیرہ کی) یہ سب پاکستانیوں کی قاتل دہشت گرد تنظیمیں ہیں۔ یہ جی ایچ کیو، پاک فضائیہ اور پاک بحریہ کی تنصیبات پر دہشت گردانہ حملے کرنے والی تنظیمیں ہیں۔ انہوں نے سنی تحریک کے قائدین کو شہید کیا ہے۔ انہوں نے شیعہ مومنین کو شہید کیا ہے۔ انہوں نے مساجد، مزارات، کلیساء، مندر سبھی پر دہشتگردانہ حملے کیے ہیں۔ انہوں نے سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کو نہ بخشا۔ انہوں نے پاکستانی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کو نہ بخشا۔ ان کی دہشت گردی سے پورا پاکستان تباہ ہوا۔ یہ افغانستان میں امریکی جنگ کا ایندھن بنے تو پاکستان کو اسی ہزار جانوں کا نقصان ملا، دو سو بلین ڈالر کا مالی نقصان ملا۔ نفرتیں، تعصبات، آدم بو بم بارود وحشی مولوی اور ان کے جنونی پیروکار ملے۔ اسلام، مسلمان اور پاکستان تینوں کو عالمی سطح پر بدنام کیا گیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے عظیم نظریاتی پاکستان کے سافٹ امیج پر دہشت گردی و جنونیت کا ایسا داغ ایسا دھبہ لگا دیا کہ جو مٹائے نہیں مٹ رہا، اتارے نہیں اتر رہا۔

افغانستان اور پاکستان میں مذہبی دہشت گردی کا بانی سعودی عرب ہے۔ سعودی شہریوں کی القاعدہ تنظیم امریکا کی افغان پراکسی وار کے دوران بنی اور اسی دور میں حق نواز جھنگوی لعنت اللہ علیہ کی تکفیریت ظاہر ہوئی۔ پڑھے لکھے جاہلوں سے پوچھیں تو کہیں گے کہ ضلع جھنگ کے شیعہ زمینداروں کی وجہ سے انجمن سپاہ صحابہ بنی۔ فرض کر لیں کہ اگر ایسا ہی تھا تو ضلع جھنگ کے شیعہ زمیندار فیصل صالح حیات کے ساتھ حق نواز جھنگوی کے مشن کا جانشین، مولوی لدھیانوی کا پیشرو اور معاویہ اعظم کا باپ اعظم طارق پرویز مشرف کی جرنیلی حکومت میں ایک ساتھ کیسے بیٹھ گئے!؟ کوئی شرم کوئی حیا ہوتی ہے! اور اسی پر بس نہیں کرتے۔ یہ آج تک کن کے خلاف بولتے ہیں، ان شیعہ اسلامی مراجعین اور خاص طور پر ولی فقیہ امام خامنہ ای صاحب کے خلاف کہ جنہوں نے امہات المومنین کی اہانت کو حرام (ممنوع) قرار دیا ہے۔

زینبیون کے پاکستانی جوان تو اس ولی فقیہ آیت اللہ العظمیٰ سید علی حسینی خامنہ ای کے مقلد ہیں اور آصف علوی کو جس حکومت نے مجلس پڑھوائی، اس کی گود میں انجمن سپاہ صحابہ (راہ حق پارٹی) اسی کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہے اور اسی حکومت کی تائید کرتی ہے۔ کالعدم اور دہشت گرد ہونے کے باوجود ریاست پاکستان، پاکستانیوں کے ان قومی قاتلوں کو پروٹوکول دیتی ہے اور یہ پاکستانی قوم کے سفاک قاتل دہشت گرد زینبیون کے خلاف جھوٹ بول بول کر اسرائیل اور سعودی عرب کی بولی بولتے ہیں۔ یہ سعودی سفیر کے مہمان بنتے ہیں۔ کھیل تو شروع سے واضح ہے۔ یہ تکفیری ہم سے مباہلہ کر لیں، اس بات پر کہ شام میں سعودی عرب سمیت اسرائیلی بلاک کے ان مسلمان نما عرب ممالک سے زیادہ جمہوریت اور آزادی ہے، تو میرے اردو زبان دوستو اور خاص طور پر میرے پاکستانی بھائیو اور بہنوں، ان کے جھوٹ کو پھیلانے سے گریز کریں، کیونکہ اللہ نے کاذبین پر لعنت کی ہے۔ لعنتی بننے سے بچیں۔

زینبیون عالم اسلام و عرب میں پاکستان کا ناز ہیں، پاکستان کا فخر ہیں۔ یہ جناح و اقبال کی نظریاتی مملکت کے غیرت مند فرزند ہیں۔ یہ پاکستان کے لیے خطرہ نہیں بلکہ حقیقی دفاعی لائن ہیں۔ یہ ستار علوی کی میراث کے وارث ہیں۔ زینبیون ام المومنین بی بی خدیجۃ الکبریٰ اور جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے روحانی بیٹے ہیں۔ یہ بی بی زینب سلام اللہ علیہا (حرم آل رسول اللہ ﷺ) کے دفاع کی جنگ میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ حجر بن عدی اور حضرت اویس قرنی جیسے نامور بزرگان اسلام اور صحابہ کرام کے مزارات کو دہشت گردانہ حملوں سے بچانے کے لیے یہ پاکستانی زینبیون تاریخ اسلام کے ماتھے کا حسینی جھومر ہیں۔ انہوں نے پاکستانی قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ اب اگر عرب اسٹریٹ پر، عرب رائے عامہ میں، فلسطین میں بیت المقدس میں مسلمانوں عربوں کی نظر میں پاکستان کا اچھا امیج ممکن ہے تو وہ انہی زینبیون کے دم سے ہے، ورنہ تو سوائے تکفیری دہشت گردی کے پاکستان کی عالمی سطح پر اب کوئی دوسری پہچان ہے ہی کب!؟ الحمد للہ رب العالمین کہ زینبیون نے ہماری طرف سے جہاد کفائی میں حصہ لے کر ہمیں گناہگار ہونے سے بچا لیا اور میں پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے فقط اتنا عرض کروں گا کہ پاکستانیوں کی موجودہ نسل کو انڈر ایسٹیمیٹ مت کریں۔ جس ملک میں تکفیری دہشت گرد لدھیانوی کو پروٹوکول ملے، وہاں تو زینبیون کے قدموں کی خاک بن کر رہو تب بھی کم ہے۔!
تحریر: محمد سلمان مہدی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button