اہم پاکستانی خبریں

سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے کیس کی سماعت غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی

سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے کیس کی سماعت غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کرتے ہوئے چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے یقین دہانی لی کہ ٹرائل نہیں ہو گا۔

سپریم کورٹ میں سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بینچ میں شامل ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کم از کم دو ہفتے تک اس کیس کی مزید سماعت نہیں ہو سکتی، ہم آئین اور عوام کا دفاع کریں گے، فوج کو کسی بھی غیر آئینی اقدام سے روکیں گے، جس کا کیس آئین قانون پر اترے گا وہ کامیاب ہو گا۔

چیف جسٹس نے استفسار اٹارنی جنرل صاحب کوئی ٹرائل نہیں ہو گا؟

’یقین دہانی کرا دی ہے کہ ٹرائل نہیں ہو گا‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یقین دہانی کرا دی ہے کہ ٹرائل نہیں ہو گا، عدالت کو ٹرائل سے متعلق یقین دہانیاں فوج کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے کرائی ہیں، عدالت کو جو یقین دہانی کرائی ہے پوری کی جائے گی، آئین و قانون کو پس پشت ڈالنے کی کوئی کوشش نہیں ہو رہی۔

پاک فوج نے گولی نہ چلا کر درست اقدام کیا، چیف جسٹس
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سمجھتے ہیں کہ اٹارنی جنرل کو مزید سننے کی ضرورت ہے، کچھ عدالت کو بھی سمجھنا ہے، کل میں یہاں سے اٹھا تو مجھے متوازی عدالتی نظام کے بارے میں معلوم نہیں تھا، آج کے دلائل سے معلوم ہوا کہ متوازی عدالتی نظام کیا ہے، ہر ایک کا دماغ اتنا تیز نہیں ہوتا جتنے میرے برابر بیٹھے ساتھیوں کا ہے، میری خوش قسمتی ہے کہ اتنے عظیم لوگوں کو اس کیس میں سنا، تمام درخواست گزاروں اور وکلاء کا شکر گزار ہوں، کتنا اچھا ہوتا ہے کہ تمام افراد آئین و قانون کی پابندی کریں، جو ہمارے ساتھ تعاون کرتے ہیں ان کا بے حد احترام کرتے ہیں، جو تعاون نہ بھی کریں ہم ان کا بھی احترام کرتے ہیں، جانتے ہیں کہ ملک اور اس عدالت میں مشکل وقت چل رہا ہے، 9 مئی کو بہت سنگین واقعات ہوئے، کبھی نہیں چاہوں گا کہ پاکستان آرمی شہریوں پر گولیاں چلاتی، فوج کی تعریف کرنی چاہیے کہ انہوں نے شہریوں پر گولیاں نہیں چلائیں، میانوالی میں دیوار توڑ کر فوجی تنصیبات پر حملہ کیا گیا، اٹارنی جنرل کو سراہتا ہوں انہوں نے بہترین دلائل دیے، آرمڈ فورسز کو غیرقانونی کام کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، اعتزاز احسن نے جب کہا کہ مظاہرین کو گولی کیوں نہیں ماری تو مجھے بہت دکھ ہوا، پاک فوج عوام اور ملک کے دفاع کے لیے ہے، پاک فوج نے گولی نہ چلا کر درست اقدام کیا۔

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ صرف ایک استدعا ہے کہ اس کیس کا اسی ہفتے فیصلہ کریں۔

’بینچ میں شامل کچھ ججز نے ایک بھی دن کی چھٹی نہیں کی‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کل کیس کی سماعت کرنا ممکن نہیں ہو گا، کل بینچ میں شامل ایک جج صاحب دستیاب نہیں، باقی کچھ ججز بھی چند روز کے لیے دستیاب نہیں، جہاں تک میرا تعلق ہے رات 8 بجے تک بیٹھتا ہوں، عدالتی چھٹیاں چل رہی ہیں اور بینچ میں شامل کچھ ججز نے ایک بھی دن کی چھٹی نہیں کی، تیکنیکی طور پر عدالتی چھٹیاں3 ماہ کی ہیں لیکن ہم ایک ماہ کی چھٹیاں کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔

آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم پر ازخود نوٹس لینے کی استدعا
سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواست گزار اعتزاز احسن نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم پر ازخود نوٹس لینے کی استدعا کر دی۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ دیکھتے ہیں پارلیمنٹ کے باقی دونوں دھڑے اس بل پر کیسا ردعمل دیتے ہیں، چیف جسٹس اپنی صوابدید پر ازخود نوٹس نہیں لے سکتا۔

اعتزاز احسن نے تجویز دی کہ آپ اپنے باقی ججز سے مشاورت کر لیں۔

چیف جسٹس نے جواب دیا آپ کا بہت شکریہ۔

سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا وہ متوازی عدالتی نظام کے مدعے پر دلائل دیں گے، یہ کورٹ مارشلز خصوصی ٹریبونلز یا عدالتیں ہیں جو دفاعی وجوہات کے لیے قائم کیے گئے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا ان ٹریبونلز کی آرٹیکل 175 کے دائرے سے خارج ہونے کے بعد آزادی کیسے یقینی بنائی جائے گی۔

’ریاست شہری کو بنیادی حقوق سے محروم نہیں کر سکتی‘
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ریاست چاہے بھی تو شہری کو بنیادی حقوق سے محروم نہیں کر سکتی، شہری کو بنیادی حقوق سے محروم کرنے کو پارلیمنٹ کی سویٹ ول پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تشریح کے مطابق 21ویں آئینی ترمیم میں استثنیٰ چاہیے تھا کیونکہ سویلین کا آرمی ایکٹ سے تعلق بنانا تھا، موجودہ کیس میں آپ کے مطابق سویلین کے جرائم پہلے ہی آرمی ایکٹ میں درج ہیں۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button