مضامین

غدار غدار، کافر کافر؟

شیعہ نیوز:دنیا بھر میں اپنے ملک کے غداروں کو موت کی سزا دی جاتی ہے اور جہاں موت کی سزا نہ دی جاتی ہو، وہاں ان کا ٹھکانہ جیل ہی ہوتی ہے۔ اس لئے کہ ملک سے غداری سے بڑھ کے شائد ہی کوئی اور جرم اتنا سنگین ہو، مگر ہمارا پاکستان ایک ایسا ملک ہے، جہاں غداری کے سرٹیفیکیٹ بڑی شد و مد کے ساتھ بانٹے جاتے ہیں، مگر اس کی سزا ابھی تک کسی کو بھی نہیں ملی۔ شائد اس جگہ پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے، جہاں غداری کے سرٹیفیکیٹس بہت سستے میں مل جاتے ہیں، جب اور جیسے کسی کا دل چاہے، یہ سرٹیفیکیٹ بانٹتا پھرے، نہ سرٹیفیکیٹ بانٹنے والے کو اس کی پرواہ اور نہ ہی سرٹیفیکیٹ کی حامل قرار دی گئی شخصیت کو اتنا تکلیف دہ محسوس ہوتا ہے۔

ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ غداری کے ساتھ ساتھ یہاں کفر کی فیکٹریاں لگانے والوں اور فتوے صادر کرنے والوں کو بھی کھلی چھٹی دی گئی ہے۔ یہ لوگ کسی کے کنٹرول میں نہیں، جب اور جہاں چاہا کسی کو بھی کافر قرار دے دیں اور فتویٰ صادر کر دیں۔ غداری سے بری سزا یہاں کافر قرار دینا ہے، اس لئے کہ غداری میں جان کی امان کا چانس ہے بلکہ کوئی خطرہ نہیں، بس یہ ہے کہ یہ کھیل چونکہ اقتدار کے ایوانوں میں کھیلا جاتا ہے، لہذا جب کوئی اپوزیشن میں غدار قرار دیا جائے تو جوابی طور پر میوزیکل چیئر کے اس کھیل میں اپنی باری آنے پر فریق مخالف سے بدلہ بھی لیا جا سکتا ہے، یعنی بدلے میں اسے بھی غدار بنایا جا سکتا ہے۔ اس کیلئے آپ کے پاس بہت سے ثبوت اور جواز موجود ہوتے ہیں، البتہ کافر قرار دیئے جانے والا بیچارہ ایک طرف تو ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے،دوسری طرف اس کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔

یہ بہت ہی مشکل گھڑیاں ہوتی ہیں، اس کا واضح ثبوت سابق گورنر سلمان تاثیر ہیں، جنہیں ایک عیسائی عورت جس پر مبینہ طور پہ گستاخی رسولۖ کا الزام لگایا گیا تھا، کی حمایت کرنے پر ایک پولیس گارڈ نے سر بازار گولیوں سے بھون دیا تھا، جسے بعد ازاں پھانسی کی سزا دی گئی، مگر یہ قاتل اب بھی ایک بہت بڑے حلقے کا ہیرو ہے، جس کے نزدیک اس قاتل نے بے حد ہی ثواب کا کام کیا تھا۔ کیا عجب نہیں کہ اس ملک اور ریاست کے بانی جنہوں نے اپنی ساری زندگی اس کے قیام کیلئے خرچ کی، انہیں بھی کافر اعظم کا خطاب دیا گیا اور انہی کی بہن جو اس عظیم اسلامی ریاست کے قیام میں بھائی کیساتھ شانہ بشانہ تھیں، ان کو ایک آمر نے غدار اور ایجنٹ کہا، کیونکہ انہوں نے اس کے مقابل الیکشن لڑنے کی غلطی کی تھی اور یہ بھی کیا عجب ہے کہ اس ریاست کے بانی یعنی بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کو اگر کافر قرار دیا گیا تو آج انہی کے مکتب و فرقہ کو کلی طور پہ کافر کہا جا رہا ہے۔ یہ کام کوئی اور نہیں کر رہا، انہی کی اولادیں کر رہی ہیں، جنہوں نے قائد کو کافر کہا تھا۔ کل بھی انہیں اس کی آزادی تھی تو آج بھی انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں کہ یہ فیکٹری کس کے مال سے چل رہی ہے۔؟

پاکستان کے سیاستدان جنہیں غدار قرار دیا گیا، ان کی فہرست بہت طویل ہے، عجیب بات ہے کہ کل جنہیں ایک جماعت کے لوگ غدار اور سکیورٹی رسک کہا کرتے تھے، آج وہی ان کا دفاع کرنے کی مشترک جدوجہد کر رہے ہیں اور جن کے اکسانے اور بھڑکانے پر یہ جماعت ایسا کہتی تھی، آج انہی کے خلاف زبان درازی پر یہ جماعت زیر عتاب نظر آتی ہے۔ آج ان کے حصے میں غداری کے سرٹیفیکیٹ آئے ہیں، کہتے ہیں کہ کسی کیلئے گڑا کھودنے سے پہلے اگر یہ سوچ لیا جائے کہ کبھی اسی گڑھے میں اسے بھی دھکیلا جا سکتا ہے تو شائد بندہ، بندے کا پتر بن جائے اور کسی کیلئے گڑھا نہ کھودے، مگر انسانوں کی کثرت ہمیشہ وقتی فوائد اور مفادات کو دیکھتی ہے اور ڈنگ ٹپانے کی کوشش کرتے ہیں، جس کے باعث اسے دھچکے لگتے ہیں۔

آج نون لیگ کیساتھ کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے، اگر اس کی قیادت نے سمجھداری اور دور اندیشی کا مظاہرہ کیا ہوتا تو اسے یہ دن شائد نہ دیکھنے پڑتے کہ تین دفعہ وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچنے کے بعد بھی اسے ملک کیلئے سکیورٹی رسک کہا جا رہا ہے اور کسی ملک دشمن ہمسائے کے بندوں سے ملنے کا الزام دیا جا رہا ہے، حالانکہ اس ملک کے کتنے ہی لوگ جو تجارت یا ثقافت سے وابستہ ہیں، وہ بھارتی شہریوں سے ملتے ہیں اور کنٹریکٹ بھی کرتے ہیں، مگر یہ غداری ان کے حصے میں نہیں آتی۔ نون لیگ کو اس بارے میں گہرا غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ اس ملک میں اس نے اس کلچر (غداری) کو فروغ دینے میں جو کردار ادا کیا، آج اس کے سامنے آچکا ہے۔ اس نے اقتدار کی کرسی تک پہنچنے کیلئے غیر جمہوری قوتوں کے تلوے چاٹنے میں عافیت سمجھی، اس نے اس ملک کے منتخب جمہوری وزیراعظم کو پھانسی دینے والے آمر کی گود میں پناہ لیئے رکھی بلکہ اس کے زیر سایہ پروان چڑھنے میں فخر محسوس کیا۔

اسے اس پر شرمندگی کا اظہار کرنا چاہیئے، اس پر معافی مانگنی چاہیئے اور اس عہد کو دہرانا چاہیئے کہ کبھی بھی غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ مل کر جمہوریت کا بستر گول کرنے کی سازش کا حصہ نہیں بنے گی یا پھر کھلے عام تسلیم کرے جیسے پنڈی سے تعلق رکھنے والا ایک وفاقی وزیر کہتا ہے کہ اس کا تعلق اسٹیبلشمنٹ سے ہے۔ نون لیگ کے کردار کو ابھی تک دیگر سیاسی جماعتیں مشکوک انداز میں دیکھتی ہیں، اس لئے کہ چھوٹے میاں اور بڑے میاں کے بیانیہ میں فرق ہے اور دن اور رات کی ملاقاتوں کا بھی مسئلہ ہے، چھوٹے میاں ہر دور میں اسٹیبلشمنٹ کیساتھ مل کر چلنے کی کوشش کرتے ہیں اور بڑے میاں کو وقتی ابال آتا ہے اور وہ کبھی کبھی بھڑاس نکالنے کے انداز میں سامنے آجاتے ہیں، جیسے آج کل آئے ہیں اور ان کی تقریروں پر غداری کا مقدمہ درج کرکے ایف آئی آر بھی کاٹی گئی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس ملک کو بنے تہتر سال ہوگئے اب یہ کافر کافر کی صدائیں اور غدار فلاں غدار کے نعرے ختم ہو جانے چاہیئے، قانون کو مکڑی کا جالہ نہ سمجھا جائے کہ جس کا جی چاہے، اس کی خلاف ورزی اپنا وطیرہ بنا لے۔

ہماری سلامتی کے اداروں نے بڑی محنت اور جدوجہد کے بعد ایک بیانیہ تیار کیا اور اس پر ملک کے نامور اور طول و عرض کے ہزاروں علماء سے دستخط بھی کروائے، اس کے تحت کئی ایک پروگرام ہوئے، اسے پیغام پاکستان کا نام دیا گیا اور اس میں یہ طے پایا کہ کوئی کسی کو کافر قرار نہیں دے سکتا، مگر افسوس کہ وہ لوگ جنہیں ہمارے حساس ادارے اپنے ہیلی کاپٹروں پر بٹھا کر ملک کے مختلف حساس ایریاز میں لے کر جاتے نظر آئے، انہی کی طرف سے برسر عام اور کھلے بندوں کافر کافر کی صدائیں لگائی جا رہی ہیں، پھر کدھر گیا وہ "پیغام پاکستان”؟ غدار اور کافر قرار دینا جب ریاست کا کام ہے تو کسی ایرے غیرے کو یہ اختیار نہ دیا جائے، اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو ریاستی اداروں کا فرض ہے کہ ملکی استحکام و سلامتی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں اور ایسا کرنے والوں کو اس کی قانونی سزا دیں، تاکہ یہ ملک غداری کے سرٹیفیکیٹس بانٹنے والوں اور کفر ساز فیکٹریوں کی پروڈکشن کے انتہائی مضر اثرات سے محفوظ رہ سکے۔

تحریر: ارشاد حسین ناصر

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button