مضامین

فلسطین کی پشت میں غدار عرب حکمرانوں کا خنجر

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ)

تحریر: فاطمہ محمدی

منگل کی رات بحرین کے دارالحکومت منامہ میں فلسطین میں سرمایہ کاری اور فلسطین کو کم سود والا قرضہ فراہم کرنے کیلئے اقتصادی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ یہ کانفرنس درحقیقت مسئلہ فلسطین سے متعلق امریکہ کے پیش کردہ راہ حل سینچری ڈیل کو عملی جامہ پہنانے کیلئے انجام پانے والے اقدامات کی ایک کڑی تھی۔ کانفرنس میں کئی عرب حکمرانوں نے فلسطین کاز کو نظرانداز کرتے ہوئے شرکت کی۔ دوسری طرف تمام فلسطینی گروہوں نے اس کانفرنس کے انعقاد پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ فلسطینی عوام گذشتہ کئی روز سے مسلسل سڑکوں پر نکل کر منامہ کانفرنس کے خلاف احتجاجی مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اخبار رای الیوم کی رپورٹ کے مطابق فتح تنظیم کے سیکرٹری جنرل محمد العلول نے نابلس میں احتجاجی مظاہرے میں شریک افراد سے خطاب کرتے ہوئے کہا: "بحرین کانفرنس میں شریک عرب حکمرانوں نے فلسطینیوں کی پشت میں خنجر گھونپا ہے۔”

محمد العلول نے غدار حکمرانوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا: "ہماری جدوجہد میں مداخلت کرنا بند کر دیں۔” انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطینی عوام امریکہ اور اسرائیل کو ماضی کی طرح اب بھی اپنا دشمن تصور کرتے ہیں۔ دوسری طرف فلسطین اتھارٹی کے ترجمان نبیل ابو ردینہ نے منامہ کانفرنس آغاز ہونے سے پہلے کہا تھا کہ اس کانفرنس کا مقصد مغربی کنارے سے ہٹ کر غزہ کی پٹی میں ایک عرب سلطنت تشکیل دینا ہے۔ فلسطینی حکام کا تصور ہے کہ سینچری ڈیل کا مقصد غزہ کی پٹی میں ایک علیحدہ فلسطینی ریاست تشکیل دینا ہے۔ ابو ردینہ نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ امریکہ اور اسرائیل کے یکطرفہ اقدامات عرب اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہیں، کہا: "بحرین کانفرنس قدس شریف کو یہودیانے کا راستہ ہموار کرے گی اور ہر وہ منصوبہ جس میں خود مختار فلسطینی ریاست سے چشم پوشی کی جائے گی، ناکامی کا شکار ہوگا۔”

آل سعود رژیم سینچری ڈیل آگے بڑھانے میں امریکہ اور اسرائیل کیلئے بنیادی کردار ادا کر رہی ہے۔ گذشتہ دو برس کے دوران سعودی حکام نے فلسطینی حکام اور جماعتوں پر بھاری رقوم کے بدلے سینچری ڈیل قبول کر لینے کیلئے شدید دباو ڈالا ہے۔ لیکن اب تک کسی فلسطینی تنظیم یا شخصیت نے اسے قبول نہیں کیا۔ کل منامہ کانفرنس کے خلاف غزہ کی پٹی میں منعقد ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے بھی تقریر کی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا: "سینچری ڈیل سے انکار فلسطینی سرزمین سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے سے انکار، متبادل وطن سے انکار اور غزہ کی پٹی یا مغربی کنارے کے اسرائیل سے الحاق کا انکار ہے۔” انہوں نے یہ تاکید کرتے ہوئے کہ منامہ کانفرنس اور سینچری ڈیل مردہ پیدا ہوئے ہیں، کہا: "ہم سلام بھیجتے ہیں لبنان پر اور ان تمام ممالک پر جو اسرائیل سے سازباز کرنے اور امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے مخالف ہیں۔”

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی مشیر اور داماد جیرالڈ کشنر نے بھی منامہ کانفرنس میں شرکت اور تقریر بھی کی۔ وہ اس کانفرنس میں امریکی سیاست دانوں اور تاجروں کی نمائندگی کر رہے تھے۔ جیرالڈ کشنر نے منامہ کانفرنس میں اپنی افتتاحی تقریر کے دوران گذشتہ وعدوں کو دہرایا اور فلسطینی عوام کو سینچری ڈیل قبول کر لینے کی ترغیب دلائی۔ المیادین کی رپورٹ کے مطابق جیرالڈ کشنر نے کہا: "ہم فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کیلئے امن اور استحکام چاہتے ہیں۔ ہم مشرق وسطیٰ خطے میں بیرونی سرمایہ کاری کیلئے مناسب ماحول فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ جو کچھ انجام پا رہا ہے، وہ سینچری ڈیل نہیں بلکہ فلسطینی قوم کیلئے ایک سنہری موقع ہے اور ہم فلسطینی قوم اور خطے کی دیگر اقوام کیلئے سنہری موقع فراہم کرسکتے ہیں۔” امریکی حکام ایسے وقت فلسطینیوں کی معیشت بہتر بنانے کے دعوے کر رہے ہیں، جب ان کی جانب سے پیش کردہ سینچری ڈیل معاہدے میں فلسطینیوں کے بنیادی ترین حقوق کو بھی نظرانداز کر دیا گیا ہے۔

اگرچہ بعض عرب حکمرانوں نے منامہ کانفرنس میں شرکت کرکے امریکہ اور اسرائیل کی چاپلوسی کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن ایسے عرب حکمران بھی ہیں، جنہوں نے اس کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔ کانفرنس میں شریک نہ ہونے والی اہم ترین عرب شخصیات میں فلسطین اتھارٹی کے سربراہان اور فلسطینی جماعتوں کے لیڈران شامل ہیں۔ منامہ کانفرنس کے خلاف تمام فلسطینی رہنماوں میں اتفاق نظر پایا جاتا ہے۔ عراق اور لبنان کے سربراہان مملکت نے بھی منامہ کانفرنس کا بائیکاٹ کیا ہے۔ الجزیرہ نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق منامہ میں منعقد ہونے والی فلسطین مخالف کانفرنس میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکمران آگے آگے رہے۔ مصر، مراکش اور اردن کے سربراہان مملکت بھی اس کانفرنس میں شریک تھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button