مضامینہفتہ کی اہم خبریں

ولادت عالم آل محمد، امام ضامن، امام رحم و کرم، حضرت امام علی ابن موسی الرضا المرتضی (ع)

علماء و مورخین کا بیان ہے کہ آپ بتاریخ 11 ذی قعدہ سن 153 ہجری بروز جمعرات بمقام مدینہ منورہ متولد ہوئے۔

اعلام الوری ص 182

جلاء الیعون ص 280

روضة الصفاء ج 3 ص 13

انوار النعمانیہ ص 127

آپ کی ولادت کے متعلق علامہ مجلسی اور علامہ محمد پارسا نے لکھا ہے کہ جناب ام البنین کا کہنا ہے کہ جب تک امام علی رضا (ع) میرے بطن میں رہے، مجھے حمل کی گرانباری مطلقا محسوس نہیں ہوئی، میں اکثر خواب میں تسبیح و تہلیل اور تمہید کی آوازیں سنا کرتی تھی۔

جب امام رضا (ع) پیدا ہوئے تو آپ نے زمین پر تشریف لاتے ہی اپنے دونوں ہاتھ زمین پر ٹیک دیئے اور اپنی پیشانی مبارک آسمان کی طرف بلند کر دی، آپ کے لبہائے مبارک جنبش کرنے لگے ، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے آپ خداوند سے کچھ باتیں کر رہے ہیں، اسی اثناء میں امام موسی کاظم (ع) تشریف لائے اور مجھ سے ارشاد فرمایا کہ تمہیں خداوند کی یہ عنایت و کرامت مبارک ہو، پھر میں نے مولود مسعود کو آپ کی آغوش میں دیدیا، آپ نے اس کے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی۔ اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا کہ:

اسے لے لو یہ زمین پر خدا کی نشانی ہے اور میرے بعد حجت اللہ کے فرائض کا ذمہ دار ہے۔

ابن بابویہ نے لکھا ہے کہ آپ دیگر آئمہ علیہم السلام کی طرح مختون اور ناف بریدہ متولد ہوئے تھے۔

جلاء العیون ص 279

نام ، کنیت ، القاب:

آپ کے والد ماجد حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے لوح محفوظ کے مطابق اور تعیین رسول خدا (ص) کے مطابق آپ کو اسم علی سے موسوم فرمایا، آپ آل محمد میں تیسرے علی ہیں۔

اعلام الوری ص 225

مطالب السئول ص 282

آپ کی کنیت ابو الحسن تھی اور آپ کے القاب صابر، زکی، ولی، رضی، وصی تھے،

و اشھرھا الرضاء،

اور مشہور ترین لقب، رضا تھا۔

نور الابصار ص 128

تذکرة خواص الامة ص 198

لقب رضا کی توجیہ:

علامہ طبرسی نے تحریر کیا ہے کہ آپ کو رضا اس لیے کہتے ہیں کہ آسمان و زمین میں خداوند ، رسول اکرم اور آئمہ طاہرین، نیز تمام مخالفین و موافقین آپ سے راضی تھے۔

اعلام الوری ص 182

علامہ مجلسی نے تحریر کیا ہے کہ بزنطی نے حضرت امام محمد تقی (ع) سے لوگوں کی افواہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے والد ماجد کو لقب رضا سے مامون رشید نے ملقب کیا تھا ؟

آپ نے فرمایا ہرگز نہیں یہ لقب خدا و رسول کی خوشنودی کا جلوہ بردار ہے اور خاص بات یہ ہے کہ آپ سے موافق و مخالف دونوں راضی اور خوشنود و راضی تھے۔

جلاء العیون ص 279

روضة الصفاء ج 3 ص 12

بادشاہان وقت:

آپ نے اپنی زندگی کی پہلی منزل سے تا بہ عہد شہادت بہت سے غاصب بادشاہوں کے دور دیکھے، آپ 153 ہجری میں منصور دوانقی کے دور میں متولد ہوئے۔ سن 158 ہجری میں مہدی عباسی، سن 169 ہجری میں ہادی عباسی، سن 170 ہجری میں ہارون رشید عباسی، سن 194 ہجری میں امین عباسی، سن 198 ہجری مامون رشید عباسی علی الترتیب خلیفہ وقت ہوتے رہے۔

ابن الوردی حبیب السیر ابو الفداء

آپ نے ہر ایک کا دور بچشم خود دیکھا اور آپ پدر بزرگوار نیز دیگر اولاد علی و فاطمہ کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا، اسے آپ ملاحظہ فرماتے رہے، یہاں تک کہ سن 230 میں آپ دنیا سے رخصت ہو گئے اور آپ کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا۔

جانشینی:

آپ کے پدر بزرگوارحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کو معلوم تھا کہ حکومت وقت جس کی باگ ڈور اس وقت ہارون رشید عباسی کے ہاتھوں میں تھی، آپ کو آزادی کی سانس نہ لینے دے گی اور ایسے حالات پیش آ جائیں گے کہ آب کی عمر کے آخری حصہ میں اور دنیا کو چھوڑنے کے موقع پر دوستان اہلبیت کا آپ سے ملنا یا بعد کے لیے راہنما کا دریافت کرنا غیر ممکن ہو جائے گا، اس لیے آپ نے انہیں آزادی کے دنوں اور سکون کے اوقات میں جب کہ آپ مدینہ میں تھے پیروان اہلبیت کو اپنے بعد ہونے والے امام سے روشناس کرانے کی ضرورت محسوس فرمائی، چنانچہ اولاد علی و فاطمہ میں سے 17 آدمی جو ممتاز حیثیت رکھتے تھے، انہیں جمع فرما کر اپنے فرزند حضرت علی رضا علیہ السلام کی وصایت اور جانشینی کا اعلان فرما دیا اور ایک وصیت نامہ بھی مکمل فرمایا، جس پر مدینہ کے معززین میں سے 60 آدمیوں کی گواہی لکھی گئی، یہ اہتمام دوسرے آئمہ کے یہاں نظر نہیں آیا صرف ان خصوصی حالات کی بناء پر جن سے دوسرے آئمہ اپنی وفات کے موقعہ پر دوچار نہیں ہونے والے تھے۔

امام موسی کاظم (ع) کی شہادت اور امام رضا (ع) کے دور امامت کا آغاز:

183 ہجری میں حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے قید خانہ ہارون رشید ملعون میں اپنی عمر کا ایک بہت بڑا حصہ گزار کر درجہ شہادت حاصل فرمایا، آپ کی وفات کے وقت امام رضا علیہ السلام کی عمر میری تحقیق کے مطابق 30 سال کی تھی۔ والد بزرگوار کی شہادت کے بعد امامت کی ذمہ داریاں آپ کی طرف منتقل ہو گئیں، یہ وہ وقت تھا کہ جب بغداد میں ہارون رشید تخت خلافت پر قابض تھا اور بنی فاطمہ کے لیے حالات بہت ہی ناساز گار تھے۔

ہارونی فوج اور خانہ امام رضا (ع):

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے بعد 10 برس ہارون رشید کا دور رہا، یقینا وہ امام رضا علیہ السلام کے وجود کو بھی دنیا میں اسی طرح برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ جس طرح اس کے پہلے آپ کے والد ماجد کا رہنا اس نے گوارا نہیں کیا مگر یا تو امام موسی کاظم علیہ السلام کے ساتھ جو طویل مدت تک تشدد اور ظلم ہوتا رہا اور جس کے نتیجہ میں قید خانہ ہی کے اندر آپ دنیا سے رخصت ہو گئے، اس سے حکومت وقت کی عام بدنامی ہو گئی تھی اور یا واقعی ظالم کو بدسلوکیوں کا احساس اور ضمیر کی طرف سے ملامت کی کیفیت تھی جس کی وجہ سے کھلم کھلا امام رضا کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی تھی لیکن وقت سے پہلے اس نے امام رضا علیہ السلام کو ستانے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا، حضرت کے عہدہ امامت کو سنبھالتے ہی ہارون رشید نے آپ کا گھر لٹوا دیا، اور عورتوں کے زیوارت اور کپڑے تک اتروا لیے تھے۔

تاریخ اسلام میں ہے کہ ہارون رشید نے اس حوالہ اور بہانے سے کہ محمد ابن جعفر صادق علیہ السلام نے اس کی حکومت و خلافت سے انکار کر دیا ہے ایک عظیم فوج عیسی جلودی کی سالاری میں مدینہ منورہ بھیج کر حکم دیا کہ علی و فاطمہ کی تمام اولاد کو بالکل ہی تباہ و برباد کر دیا جائے، ان کے گھروں میں آگ لگا دی جائے ان کے سامان لوٹ لیے جائیں اور انہیں اس درجہ مفلوج کر دیا جائے کہ پھر ان میں کسی قسم کے حوصلہ کے ابھرنے کا سوال ہی پیدا نہ ہو سکے اور محمد ابن جعفر صادق کو گرفتار کر کے قتل کر دیا جائے۔

عیسی جلودی نے مدینہ پہنچ کر تعمیل حکم کی سعی بلیغ کی اور ہر ممکن طریقے سے بنی فاطمہ کو تباہ و برباد کیا، حضرت محمد ابن جعفر صادق علیہ السلام نے بھرپور مقابلہ کیا لیکن آخر میں گرفتار ہو کر ہارون رشید کے پاس پہنچا دیئے گئے۔ عیسی جلودی سادات کرام کو لوٹ کر حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے دولت کدہ پر پہنچا اور اس نے خواہش کی کہ وہ حسب حکم ہارون رشید، خانہ امام میں داخل ہو کر اپنے ساتھیوں سے عورتوں کے زیورات اور کپڑے اتارے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا یہ نہیں ہو سکتا، میں خود تمہیں سارا سامان لا کر دے دیتا ہوں، پہلے تو وہ اس پر راضی نہ ہوا لیکن بعد میں کہنے لگا کہ اچھا آپ ہی اتار لائیے، آپ محل سرا میں تشریف لے گئے اور آپ نے تمام زیورات اور سارے کپڑے ایک سترپوش چادر کے علاوہ لا کر دیدیا اور اسی کے ساتھ ساتھ اثاث البیت نقد و جنس یہاں تک کہ بچوں کے کان کے بندے سب کچھ اس کے حوالے کر دیا، وہ ملعون تمام سامان لے کر بغداد روانہ ہو گیا، یہ واقعہ آپ کے آغاز امامت کا ہے۔

آپ کی بیعت لفظ امیر المومنین سے کی گئی، آپ جب نماز کو نکلتے تھے تو آپ کے ساتھ دو سو صلحا و اتقیا ہوا کرتے تھے۔

علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ امام موسی کاظم علیہ السلام کی وفات کے بعد صفوان ابن یحیی نے حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے کہا کہ مولا ہم آپ کے بارے میں ہارون رشید سے بہت خائف ہیں ہمیں ڈر ہے کہ یہ کہیں آپ کے ساتھ وہی سلوک نہ کرے جو آپ کے والد کے ساتھ کر چکا ہے۔ حضرت رضا (ع) نے ارشاد فرمایا کہ یہ تو اپنی سعی کرے گا لیکن مجھ پر کامیاب نہ ہو سکے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا اور حالات نے اسے کچھ اس درجہ آخر میں مجبور کر دیا تھا کہ وہ کچھ بھی نہ کر سکا یہاں تک کہ جب خالد ابن یحیی برمکی نے اس سے کہا کہ امام رضا اپنے باپ کی طرح امر امامت کا اعلان کرتے اور اپنے کو امام زمان کہتے ہیں تو اس نے جواب دیا کہ ہم جو ان کے ساتھ کر چکے ہیں، وہی ہمارے لیے کافی ہے اب تو چاہتا ہے کہ:

ان نقتلھم جمیعا،

ہم سب کے سب کو قتل کر ڈالیں، اب میں ایسا نہیں کروں گا۔

نور الابصار، ص 144

امام علی رضا (ع) کا حج اور ہارون رشید عباسی:

زمانہ ہارون رشید میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام حج کے لیے مکہ معظمہ تشریف لے گئے، اسی سال ہارون رشید بھی حج کے لیے آیا ہوا تھا، خانہ کعبہ میں داخل ہونے کے بعد امام علی رضا علیہ السلام ایک دروازے سے اور ہارون رشید دوسرے دروازے سے نکلے۔

امام علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ دوسرے دروازے سے نکلنے والا جو ہم سے دور جا رہا ہے، عنقریب طوس میں ہم دونوں ایک جگہ ہوں گے۔

ایک روایت میں ہے کہ یحیی ابن خالد برمکی کو امام علیہ السلام نے مکہ میں دیکھا کہ وہ رومال سے گرد کی وجہ سے منہ بند کیے ہوئے جا رہا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اسے پتا بھی نہیں کہ اس کے ساتھ اس سال کیا ہونے والا ہے، یہ عنقریب تباہی کی منزل میں پہنچا دیا جائے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

راوی مسافر کا بیان ہے کہ حج کے موقع پر امام رضا علیہ السلام نے ہارون رشید کو دیکھ کر اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ملاتے ہوئے فرمایا کہ میں اور یہ اسی طرح ایک ہو جائیں گے۔

وہ کہتا ہے کہ میں اس ارشاد کا مطلب اس وقت سمجھا، جب آپ کی شہادت واقع ہوئی اور دونوں ایک مقبرہ میں دفن ہوئے۔

موسی ابن عمران کا کہنا ہے کہ اسی سال ہارون رشید مدینہ منورہ پہنچا اور امام علیہ السلام نے اسے خطبہ دیتے ہوئے دیکھ کرفرمایا کہ عنقریب میں اور ہارون ایک ہی مقبرہ میں دفن کیے جائیں گے۔

نور الابصار ص 144

امام رضا (ع) کے اخلاق و عادات اور شمائل و خصائل:

آپ کے اخلاق و عادات اور شمائل و خصائل کا لکھنا اس لیے دشوار ہے کہ وہ بے شمار ہیں۔

علامہ شبلنجی ابراہیم ابن عباس نے تحریر کیا ہے کہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے کبھی کسی شخص کے ساتھ گفتگو کرنے میں سختی نہیں کی، اور کبھی کسی بات کو قطع نہیں فرمایا۔

آپ کے مکارم عادات سے تھا کہ جب بات کرنے والا اپنی بات ختم کر لیتا تھا، تب اپنی طرف سے آغاز کلام فرماتے تھے۔

کسی کی حاجت روائی اور کام نکالنے میں حتی المقدور دریغ نہ فرماتے۔

کبھی ہمنشین کے سامنے پاؤں پھیلا کر نہ بیٹھتے اور نہ اہل محفل کے رو برو تکیہ لگا کر بیٹھتے تھے۔

کبھی اپنے غلاموں کو گالی نہ دی۔

امام رضا (ع) کہتا ہے کہ: میں نے کبھی آپ کو تھوکتے اور ناک صاف کرتے نہیں دیکھا تھا۔

آپ قہقہہ لگا کر ہرگز نہیں ہنستے تھے، خندہ زنی کے موقع پر آپ تبسم فرمایا کرتے تھے۔

محاسن اخلاق اور تواضع و انکساری کی یہ حالت تھی کہ دستر خوان پر تمام خادموں اور دربان تک کو اپنے ساتھ بٹھا لیتے۔

راتوں کو بہت کم سوتے اور اکثر راتوں کو شام سے صبح تک شب بیداری کرتے تھے۔

اکثر اوقات روزے سے ہوتے تھے، مگر ہر مہینے کے تین روزے تو آپ سے کبھی قضا نہیں ہوئے۔ ارشاد فرماتے تھے کہ ہر ماہ میں کم از کم تین روزے رکھ لینا ایسا ہے، جیسے کوئی ہمیشہ روزے سے رہے۔

آپ کثرت سے خیرات کیا کرتے تھے اور اکثر رات کے تاریک پردے میں اس استحباب کو ادا فرمایا کرتے تھے۔

موسم گرما میں آپ کا فرش جس پر آپ بیٹھ کر فتوا دیتے یا مسائل بیان کیا کرتے، بوریا ہوتا تھا اور موسم سرما میں کمبل۔ آپ کا یہی طرز اس وقت بھی رہا، جب آپ ولی عہد حکومت تھے۔

آپ کا لباس گھر میں موٹا اور خشن ہوتا تھا اور رفع طعن کے لیے باہر آپ اچھا لباس پہنتے تھے۔

ایک مرتبہ کسی نے آپ سے کہا کہ حضور اتنا عمدہ لباس کیوں استعمال فرماتے ہیں آپ نے اندر کا پیراہن دکھلا کر فرمایا اچھا لباس دنیا والوں کے لیے اور کمبل کا پیراہن خدا کے لیے ہے۔

علامہ موصوف تحریر کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ حمام میں تشریف رکھتے تھے کہ ایک شخص جندی نامی آ گیا اور اس نے بھی نہانا شروع کیا، دوران غسل میں اس نے بھی نہانا شروع کیا دوران غسل میں اس نے امام رضا علیہ السلام سے کہا کہ میرے جسم پر پانی ڈالیے۔ آپ نے پانی ڈالنا شروع کیا۔ اتنے میں ایک شخص نے کہا اے جندی فرزند رسول سے خدمت لے رہا ہے، ارے یہ امام رضا ہیں، یہ سننا تھا کہ وہ پیروں پر گر پڑا اور معافی مانگنے لگا۔

نور الابصار ص 38 ، 39

ایک مرد بلخی ناقل ہے کہ حضرت رضا کے ساتھ ایک سفر میں تھا۔ ایک مقام پر دستر خوان بچھا تو آپ نے تمام غلاموں کو جن میں حبشی بھی شامل تھے، بلا کر بٹھلا لیا۔ میں نے عرض کیا مولا انہیں علیحدہ بٹھلائیں تو کیا حرج ہے ؟

آپ نے فرمایا کہ سب کا رب ایک ہے اور ماں باپ آدم و حوا بھی ایک ہیں اور جزا و سزا اعمال پر موقوف ہے، تو پھر تفرقہ کیا۔

آپ کے ایک خادم یاسر کا کہنا ہے کہ آپ کا یہ تاکیدی حکم تھا کہ میرے آنے پر کوئی خادم کھانا کھانے کی حالت میں میری تعظیم کو نہ اٹھے۔

امام ہمیشہ نماز صبح اول وقت پڑھتے، اس کے بعد سجدہ میں چلے جاتے تھے اور نہایت ہی طول دیتے تھے پھر لوگوں کو پند و نصائح فرماتے تھے۔

سلیمان ابن جعفر کا کہنا ہے کہ آپ آباؤ اجداد کی طرح خرمے کو بہت پسند فرماتے تھے۔

آپ شب و روز میں ایک ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے۔

جب بھی آپ بستر پر لیٹتے تھے تو سونے تک قرآن مجید کے سورے پڑھا کرتے تھے۔

موسی ابن سیار کا کہنا ہے کہ آپ اکثر اپنے شیعوں کی نماز میت میں شرکت فرماتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ہر روز و شام کے وقت، امام وقت کے سامنے شیعوں کے اعمال پیش ہوتے ہیں، اگر کوئی شیعہ گناہ گار ہوتا ہے تو امام اس کے لیے استغفار کرتے ہیں۔

علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ آپ کے سامنے جب بھی کوئی آتا تھا، آپ پہچان لیتے تھے کہ مومن ہے یا منافق۔

اعلام الوری

تحفہ رضویہ

کشف الغمہ ص 112

علامہ محمد رضا لکھتے ہیں کہ آپ ہر سوال کا جواب قرآن مجید سے دیتے تھے اور روزانہ ایک قرآن ختم کرتے تھے۔

جنات الخلود ص 31

حضرت امام رضا (ع) کا علمی کمال:

مورخین کا بیان ہے کہ آل محمد کے اس سلسلہ میں ہر فرد خداوند کی طرف سے بلند ترین علم کے درجے پر قرار دیا گیا تھا، جسے دوست اور دشمن کو ماننا پڑتا تھا یہ اور بات ہے کہ کسی کو علمی فیوض پھیلانے کا زمانے نے کم موقع دیا اور کسی کو زیادہ۔

چنانچہ ان حضرات میں سے امام جعفر صادق علیہ السلام کے بعد اگر کسی کو سب سے زیادہ موقع حاصل ہوا ہے تو وہ حضرت امام رضا علیہ السلام ہیں، جب آپ امامت کے منصب پر نہیں پہنچے تھے، اس وقت حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام اپنے تمام فرزندوں اور خاندان کے لوگوں کو نصیحت فرماتے تھے کہ تمہارے بھائی علی رضا عالم آل محمد ہیں، اپنے دینی مسائل کو ان سے دریافت کر لیا کرو، اور جو کچھ اسے کہیں یاد رکھو، اور پھر حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی وفات کے بعد جب آپ مدینہ میں تھے اور روضہ رسول پر تشریف فرما ہوتے تھے تو علمائے اسلام مشکل مسائل میں آپ کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔

محمد ابن عیسی یقطینی کا بیان ہے کہ میں نے ان تحریری مسائل کو جو حضرت امام رضا علیہ السلام سے پوچھے گئے تھے اور آپ نے ان کا جواب تحریر فرمایا تھا، کو اکھٹا کیا تو 18000 ہزار کی تعداد میں تھے۔

صاحب لمعة الرضاء تحریر کرتے ہیں کہ حضرت آئمہ طاہرین علیہم السلام کی خصوصیات میں یہ امر تمام تاریخی مشاہد اور نیز حدیث و سیر کے اسانید معتبر سے ثابت ہے۔ محدثین و مفسرین اور تمام علماء و فضلاء جو آپ کے مقابلے کا بھی دعوی رکھتے تھے، وہ بھی علمی مباحث و مجالس میں آپ حضرات کے آگے زانوئے ادب تہ کیا کرتے تھے اور علمی مسائل کو حل کرنے کی ضرورت کے وقت حضرت علی امیر المومنین علیہ السلام سے لے کر امام رضا علیہ السلام تک وہ سب کتابوں میں موجود ہے۔

جناب امام رضا علیہ السلام کو اتفاق حسنہ سے اپنے علم و فضل کے اظہار کا زیادہ موقع پیش آیا کیوںکہ مامون عباسی کے پاس جب تک دار الحکومت مرو تشریف فرما رہے، بڑے بڑے علماء و فضلاء علوم مختلفہ میں آپ کی استعداد اور فضیلت کا اندازہ کرایا گیا اور کچھ اسلامی علماء پر موقوف نہیں تھا بلکہ علماء یہودی و نصاری سے بھی آپ کا مقابلہ کرایا گیا، مگر ان تمام مناظروں و مباحثوں میں ان تمام لوگوں پر آپ کی فضیلت و فوقیت ظاہر ہوئی۔

خود مامون بھی خلفائے عباسی میں سب سے زیادہ اعلم تھا، باوجود اسکے وہ بھی امام رضا (ع) کی برتری کا لوہا مانتا تھا اور چار و ناچار اس کا اعتراف پر اعتراف اور اقرار پر اقرار کرتا تھا۔

چنانچہ ابن حجر نے کتاب صواعق محرقہ میں لکھا ہے کہ آپ جلالت قدر عزت و شرافت میں معروف و مذکور ہیں، اسی وجہ سے مامون آپ کو بمنزلہ اپنی روح و جان جانتا تھا، اس نے اپنی بیٹی کا نکاح آنحضرت علیہ السلام سے کیا، اور ملک ولایت میں اپنا شریک گردانا۔

مامون امام رضا (ع) کی عزت و احترام کو دوسروں کی نظروں میں کم کرنے کے لیے، مسلسل علماء ادیان و فقہائے شریعت کو امام رضا علیہ السلام کے مقابلے میں بلاتا اور مناظرے کراتا، مگر امام رضا (ع) ہمیشہ ان لوگوں پر غالب آتے تھے اور خود ارشاد فرماتے تھے کہ میں مدینہ میں روضہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بیٹھتا تھا ، وہاں کے علمائے کثیر تعداد میں جب کسی علمی مسئلے میں عاجز آ جاتے تو بالاتفاق میری طرف رجوع کیا کرتے تھے، جواب ہائے شافی و کامل دے کر میں ان کی تسلی و تسکین کر دیا کرتا تھا۔

ابو صلت ابن صالح کہتے ہیں کہ حضرت امام علی ابن موسی الرضا علیہما السلام سے زیادہ کوئی عالم میری نظر سے نہیں گزرا ، اور جو کوئی بھی آپ کی زیارت سے مشرف ہوتا تھا تو وہ میری طرح آپ کی اعلمیت کی شہادت دیتا ہوا وہاں سے جاتا تھا۔

حضرت امام رضا (ع) اور مجلس شہدائے کربلا:

علامہ مجلسی بحار الانوار میں لکھتے ہیں کہ شاعر آل محمد، دعبل خزاعی کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ عاشورہ کے دن میں حضرت امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا، تو دیکھا کہ آپ اصحاب کے حلقہ میں انتہائی غمگین و حزیں بیٹھے ہوئے ہیں۔ مجھے حاضر ہوتے دیکھ کر فرمایا، آؤ آؤ ہم تمہارا ہی انتظار کر رہے ہیں، میں قریب پہنچا تو آپ نے اپنے پہلو میں مجھے جگہ دے کرفرمایا کہ:

اے دعبل چونکہ آج یوم عاشورا ہے اور یہ دن ہمارے لیے انتہائی رنج و غم کا دن ہے لہذا تم میرے جد مظلوم حضرت امام حسین علیہ السلام کے مرثیہ سے متعلق کچھ شعر پڑھو،

اے دعبل جو شخص ہماری مصیبت پر روئے یا رلائے تو اس کا اجر خدا پر واجب ہے،

اے دعبل جس شخص کی آنکھ ہمارے غم میں تر ہو تو وہ قیامت میں ہمارے ساتھ محشور ہو گا،

اے دعبل جو شخص ہمارے جد نامدار حضرت سید الشہداء علیہ السلام کے غم میں روئے گا تو خداوند اس کے تمام گناہ بخش دے گا۔

یہ فرما کر امام علیہ السلام نے اپنی جگہ سے اٹھ کر پردہ کھینچا اور مخدرات عصمت کو بلا کر اس میں بٹھا دیا پھر آپ میری طرف مخاطب ہو کر فرمانے لگے ہاں دعبل !

ابھی میرے جد امجد کا مرثیہ شروع کرو، دعبل کہتے ہیں کہ میرا دل بھر آیا اور میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور آل محمد میں رونے کا کہرام عظیم برپا تھا۔

صاحب در المصائب تحریر فرماتے ہیں کہ دعبل کا مرثیہ سن کر معصومہ قم جناب فاطمہ ہمیشرہ حضرت امام رضا علیہ السلام اس قدر روئیں کہ آپ کو غش آ گیا۔

اس اجتماعی طریقے سے ذکر حسینی کا سلسلہ عہد امام رضا میں مدینہ سے شروع ہو کر مرو تک جاری رہا۔

علامہ علی نقی لکھتے ہیں کہ اب امام رضا علیہ السلام کو تبلیغ حق کے لیے نام حسین کی اشاعت کے کام کو ترقی دینے کا بھی پورا موقع حاصل ہو گیا تھا جس کی بنیاد اس کے پہلے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام قائم کر چکے تھے، مگر وہ زمانہ ایسا تھا کہ جب امام کی خدمت میں وہی لوگ حاضر ہوتے تھے جو بحیثیت امام یا بحیثیت عالم دین آپ کے ساتھ عقیدت رکھتے تھے اور اب امام رضا علیہ السلام تو امام روحانی بھی ہیں اور ولی عہد سلطنت بھی، اس لیے آپ کے دربار میں حاضر ہونے والوں کا دائرہ وسیع تھا۔

امام رضا (ع) کی مدینہ سے مرو میں طلبی:

علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ حالات کی روشنی میں جب مامون ملعون نے اپنے مقام پر یہ قطعی فیصلہ اور عزم کر لینے کے بعد کہ امام رضا علیہ السلام کو ولیعہد خلافت بنائے گا تو اس نے اپنے وزیر اعظم فضل ابن سہل کو بلا بھیجا اور اس سے کہا کہ ہماری رائے ہے کہ ہم امام رضا کو ولی عہدی سپرد کر دیں تم خود بھی اس پر سوچ و بچار کرو، اور اپنے بھائی حسن ابن سہل سے مشورہ کرو۔

ان دونوں نے آپس میں تبادلہ خیال کرنے کے بعد مامون کی بارگاہ میں حاضری دی، ان کا مقصد تھا کہ مامون ایسا نہ کرے، ورنہ خلافت دوبارہ آل عباس سے آل محمد میں چلی جائے گی۔ ان لوگوں نے اگرچہ کھل کر مخالفت نہیں کی، لیکن دبے لفظوں میں ناراضگی کا اظہار کیا۔ مامون نے کہا کہ میرا فیصلہ اٹل ہے اور میں تم دونوں کو حکم دیتا ہوں کہ تم مدینہ جا کر امام رضا کو اپنے ہمراہ لاؤ۔ آخر کار یہ دونوں امام رضا (ع) کی خدمت میں مقام مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور انہوں نے مامون کا پیغام پہنچایا۔

حضرت امام رضا (ع) نے اس عرض کو مسترد کر دیا اور فرمایا کہ میں اس امر کے لیے اپنے کو پیش کرنے سے معذور ہوں لیکن چونکہ حاکم کا حکم تھا کہ انہیں ضرور لاؤ، اس لیے ان دونوں نے بے انتہا اصرار کیا اور آپ کے ساتھ اس وقت تک لگے رہے جب تک آپ نے مشروط طور پر جانے کا وعدہ نہیں کر لیا۔

نور الابصار ص 41

امام رضا (ع) کی مدینہ سے روانگی:

تاریخ ابو الفداء میں ہے کہ جب امین قتل ہوا تو مامون سلطنت عباسی کا مستقل بادشاہ بن گیا۔ یہ ظاہر ہے کہ امین کے قتل ہونے کے بعد سلطنت مامون کے نام ہو گئی مگر یہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ امین اپنے ننہیال کی طرف سے عربی النسل تھا اور مامون عجمی النسل تھا، امین کے قتل ہونے سے عراق کی عرب قوم اور ارکان سلطنت کے دل، مامون کی طرف سے صاف نہیں ہو سکتے تھے بلکہ وہ ایک غم و غصہ کی کیفیت محسوس کرتے تھے، دوسری طرف خود بنی عباس میں سے ایک بڑی جماعت جو امین کی طرف دار تھی، اس سے بھی مامون کو ہر طرح کا خطرہ لگا رہتا تھا۔

امام رضا علیہ السلام کا ولی عہد کو قبول کرنا بالکل ویسا ہی تھا کہ جیسا ہارون کے حکم سے امام موسی کاظم (ع) کا جیل خانے میں چلا جانا، اسی لیے جب امام رضا علیہ السلام مدینہ سے خراسان کی طرف روانہ ہو رہے تھے تو آپ کے رنج و صدمہ اور اضطراب کی کوئی حد نہ تھی، روضہ رسول سے رخصت کے وقت آپ کا وہی عالم تھا کہ جو حضرت امام حسین علیہ السلام کا مدینہ سے روانگی کے وقت تھا، دیکھنے والوں نے دیکھا کہ آپ بے تابانہ روضہ کے اندر جاتے ہیں اور نالہ و آہ کے ساتھ امت کی شکایت کرتے ہیں پھر باہر نکل کر گھر جانے کا ارادہ کرتے ہیں اور پھر دل نہیں مانتا پھر روضہ سے جا کر لپٹ جاتے ہیں، یہی صورت کئی مرتبہ ہوئی۔

راوی کا بیان ہے کہ میں حضرت کے قریب گیا تو فرمایا اے محول! میں اپنے جد امجدکے روضے سے جبری طور پر جدا کیا جا رہا ہوں، اب مجھ کو یہاں دوبارہ آنا نصیب نہ ہو گا۔ میں اسی مسافرت اور غریب الوطنی میں شہید کر دیا جاؤں گا، اور ہارون الرشید کے مقبرہ میں مدفون ہوں گا۔

اس کے بعد آپ گھر تشریف لائے اور سب کو جمع کر کے فرمایا کہ میں تم سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو رہا ہوں۔ یہ سن کر گھر میں ایک عظیم کہرام بپا ہو گیا اور سب چھوٹے بڑے رونے لگے ، آپ نے سب کو تسلی دی اور کچھ دینار اعزا میں تقسیم کر کے راہ سفر اختیار فرما لیا۔

ایک روایت کی بناء پر آپ مدینہ سے روانہ ہو کر مکہ معظمہ پہنچے اور وہاں طواف کر کے خانہ کعبہ کو رخصت فرمایا۔

سوانح امام رضا ج 3 ص 7

حضرت امام رضا (ع) کی نیشاپور میں تشریف آوری:

رجب 200 ہجری میں حضرت مدینہ منورہ سے مرو خراسان کی جانب روانہ ہوئے، اہل و عیال سب کو مدینہ منورہ ہی میں چھوڑا اس وقت امام محمد تقی علیہ السلام کی عمر پانچ برس کی تھی، آپ مدینہ ہی میں رہے، مدینہ سے روانگی کے وقت کوفہ اور قم کی سیدھی راہ چھوڑ کر بصرہ اور اہواز کا غیر متعارف راستہ اس خطرہ کے پیش نظر اختیار کیا گیا کہ کہیں عقیدت مندان امام مزاحمت نہ کریں، غرضکہ قطع مراحل اور طے منازل کرتے ہوئے یہ لوگ نیشاپور کے نزدیک جا پہنچے۔

مورخین لکھتے ہیں کہ جب آپ کی مقدس سواری نیشاپور کے قریب پہنچی تو جملہ علماء و فضلاء شہر نے بیرون شہر حاضر ہو کر آپ کی رسم استقبال ادا کی، داخل شہر ہوئے تو تمام خورد و بزرگ شوق زیارت میں امنڈ پڑے، مرکب عالی جب مربعہ شہر (چوک) میں پہنچا تو خلاق سے زمین پر تل رکھنے کی جگہ نہ تھی، اس وقت حضرت امام رضا قاطر نامی خچر پر سوار تھے، خچر پر عماری تھی اور اس پر دونوں طرف پردہ پڑے ہوئے تھے اس وقت امام المحدثین حافظ ابو زرعہ رازی اور محمد ابن اسلم طوسی آگے آگے اور ان کے پیچھے اہل علم و حدیث کی ایک عظیم جماعت حاضر خدمت ہوئی اور ان کلمات سے امام علیہ السلام کو مخاطب کیا:

اے جمیع سادات کے سردار، اے تمام مومنوں کے امام اور اے مرکز پاکیزگی، آپ کو رسول اکرم کا واسطہ، آپ اپنے اجداد کے صدقہ میں اپنے دیدار کا موقع دیجئے اور کوئی حدیث اپنے جد نامدار کی بیان فرمائیے، یہ کہہ کر محمد ابن رافع، احمد ابن حارث، یحیی ابن یحیی اور اسحاق ابن راہویہ نے آپ کی سواری کی لگام تھام لی۔

ان کی استدعا سن کر آپ نے سواری روک دئیے جانے کے لیے اشارہ فرمایا، اور اشارہ کیا کہ حجاب اٹھا دئیے جائیں فورا تعمیل کی گئی۔ حاضرین نے جونہی وہ نورانی چہرہ اپنے پیارے رسول کے جگر گوشہ کا دیکھا، سینوں میں دل بیتاب ہو گئے دو زلفین نور انور پر مانند گیسوئے مشک بوئے جناب رسول خدا چھوتی ہوئی تھیں، کسی کو یارائے ضبط باقی نہ رہا، وہ سب کے سب بے اختیار ڈھاریں مار کر رونے لگے، بہت سے لوگوں نے اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے، کچھ زمین پر گر کر لوٹنے لگے، بعض سواری کے گرد و پیش گھومنے اور چکر لگانے لگے اور مرکب اقدس کی زین و لجام چومنے لگے اور عماری کا بوسہ دینے لگے آخر مرکب عالی کے قدم چومنے کے اشتیاق میں درانہ بڑھے چلے آتے تھے، غرضکہ عجیب طرح کا ولولہ تھا کہ جمال باکمال کو دیکھنے سے کسی کو سیری نہیں ہوئی تھی، ٹکٹکی لگائے رخ انور کی طرف نگراں تھے، یہاں تک کہ دوپہر ہو گئی اور ان کے موجودہ اشتیاق و تمنا کی پرجوشیوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اس وقت علماء و فضلاء کی جماعت نے بآواز بلند پکار کر کہا کہ مسلمانو ذرا خاموش ہو جاؤ، اور فرزند رسول کے لیے آزار نہ بنو، ان کی استدعا پر قدرے شور و غل تھما تو امام علیہ السلام نے فرمایا:

حدثنی ابی موسی الکاظم عن ابیہ جعفر الصادق عن ابیہ محمد الباقر عن ابیہ زین العابدین عن ابیہ الحسین الشہید بکربل اعن ابیہ علی المرتضی قال حدثنی حبیبی وقرة عینی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال حدثنی جبرئیل علیہ السلام قال حدثنی رب العزت سبحانہ وتعالی قال لا الہ الا اللہ حصنی فمن قالھا دخل حصنی ومن دخل حصنی امن من عذابی،

میرے پدر بزرگوار حضرت امام موسی کاظم نے مجھ سے بیان فرمایا اور ان سے امام جعفر صادق علیہ السلام نے اور ان سے امام محمد باقر نے اور ان سے امام زین العابدین نے اور ان سے امام حسین نے اور ان سے حضرت علی مرتضی نے اور ان سے حضرت رسول کریم جناب محمد مصطفی (ص) نے اور ان سے جناب جبرائیل امین نے اور ان سے خداوند نے ارشاد فرمایا کہ لا الہ الا اللہ، میرا قلعہ ہے جو اسے زبان پر جاری کرے گا میرے قلعہ میں داخل ہو جائے گا اور جو میرے قلعہ میں داخل ہو گا، میرے عذاب سے محفوظ ہو جائے گا۔

مسند امام رضا (ع) ص 7

یہ کہہ کر آپ نے پردہ کھینچوا دیا، اور چند قدم بڑھنے کے بعد فرمایا:

بشرطھا و شروطھا و انا من شروطھا،

کہ لا الہ الا اللہ کہنے والا نجات ضرور پائے گا لیکن اس کے کہنے اور نجات پانے میں چند شرطیں ہیں کہ جن میں سے ایک شرط میں بھی ہوں یعنی اگر آل محمد کی محبت دل میں نہ ہو گی تو لا الہ الا اللہ کہنا کافی نہ ہو گا۔

علماء نے تاریخ نیشاپور کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس حدیث کے لکھنے میں متعدد راویوں کے علاوہ 24 ہزار قلمدان استعمال کیے گئے۔

اس حدیث کو بیس ہزار سے زیادہ افراد نے نقل کیا، اس حدیث کو حدیث ذہبی کا نام دیا گیا چونکہ اس حدیث کو سنہری روشنائی (یعنی سونے کا پانی )سے لکھا گیا،سند کے لحاظ سے یہ حدیث دیگر تمام احادیث میں سے زیادہ صاحب عظمت ہے ۔

اخبار الدول، ص 115

احمد ابن حنبل کا کہنا ہے کہ یہ حدیث جن اسناد اور اسماء کے ذریعہ سے بیان فرمائی گئی ہے، اگر ان اسماء کو پڑھ کر مجنون پر دم کیا جائے تو:

لافاق من جنونہ،

ضرور اس کا جنون جاتا رہے گا اور وہ اچھا ہو جائے گا۔

حدیث سلسلۃ الذہب:

"اللَّه جَلَّ جَلَالُهُ یقُولُ لَا إِلَهَ‏ إِلَّا اللَّهُ‏ حِصْنِی‏ فَمَنْ دَخَلَ حِصْنِی أَمِنَ مِنْ عَذَابِی قَالَ فَلَمَّا مَرَّتِ الرَّاحِلَةُ نَادَانَا بِشُرُوطِهَا وَ أَنَا مِنْ شُرُوطِهَا.

خداوند نے فرمایا: کلمہ "لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ” میرا مضبوط قلعہ ہے، پس جو بھی میرے اس قلعہ میں داخل ہو گا وہ میرے عذاب سے محفوظ رہے گا، جب سواری چلنے لگی تو امام رضا (ع) نے فرمایا: البتہ اس کی کچھ شرائط ہیں اور میں ان شرائط میں سے ایک میں ہوں۔

ابن بابویہ، کتاب التوحید، ص 49

مفید، الارشاد، ص 455

صدوق، معانی الاخبار‏، ص 371

نیشاپور میں امام (ع) کا محدثین کی محفل میں اس حدیث کا بیان مدینے سے خراسان تک کے سفر کا اہم ترین اور مستند ترین واقعہ شمار کیا جاتا ہے۔

فضل اللہ، تحلیلی از زندگانی امام رضا (ع)، ص 133

علامہ شبلنجی نور الابصارمیں بحوالہ ابو القاسم تضیری لکھتے ہیں کہ:

ساسانہ کے رہنے والے بعض رؤسا نے جب اس حدیث کی سلسلہ اسناد کو سنا تو اسے سونے کے پانی سے لکھوا کر اپنے پاس رکھ لیا اور مرتے وقت وصیت کی کہ اسے میرے کفن میں رکھ دیا جائے، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا مرنے کے بعد اس نے خواب میں بتایا کہ خداوند نے مجھے ان ناموں ( اسمائے گرامی آئمہ اطہار) کی برکت سے بخش دیا ہے اور میں بہت آرام کی جگہ میں ہوں۔

شہر طوس میں امام رضا (ع) کی تشریف آوری:

جب اس سفر میں چلتے چلتے شہر طوس پہنچے تو وہاں دیکھا کہ ایک پہاڑ سے لوگ پتھر تراش کر ہانڈی وغیرہ بناتے ہیں، آپ اس سے ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے اور آپ نے اس کے نرم ہونے کی دعا کی وہاں کے باشندوں کا کہنا ہے کہ اس پہاڑ کا پتھر بالکل نرم ہو گیا اور بڑی آسانی سے برتن بننے لگے۔

امام رضا (ع) کا دار الخلافہ مرو میں نزول:

امام رضا علیہ السلام طے مراحل اور قطع منازل کرنے کے بعد جب مرو پہنچے جسے سکندر ذوالقرنین نے بروایت معجم البلدان آباد کیا تھا اور جو اس وقت دار السلنطت تھا تو مامون نے چند روز ضیافت تکریم کے مراسم ادا کرنے کے بعد قبول خلافت کا سوال پیش کیا۔ حضرت نے اس سے اسی طرح انکار کیا کہ جس طرح امیر المومنین علی (ع) چوتھے خلیفہ کے موقع پر خلافت پیش کیے جانے کے وقت انکار فرما رہے تھے۔ مامون کو خلافت سے دستبردار ہونا، در حقیقت منظور نہ تھا، ورنہ وہ امام کو اسی خلافت کے قبول کرنے پر مجبورکرتا۔

چنانچہ جب حضرت نے خلافت کے قبول کرنے سے انکار فرمایا تو اس نے ولیعہدی کا سوال پیش کیا، حضرت اس کے بھی انجام سے ناواقف نہ تھے نیز بخوشی جابر حکومت کی طرف سے کوئی منصب قبول کرنا آپ کے خاندانی اصول کے خلاف تھا، حضرت نے اس سے بھی انکار فرمایا مگر اس پر مامون کا اصرار جبر کی حد تک پہنچ گیا اور اس نے صاف کہہ دیا کہ

لا بد من قبولک،

اگر آپ اس کو منظور نہیں کر سکتے تو اس وقت آپ کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے گا،

جان کا خطرہ قبول کیا جا سکتا ہے، جب مذہبی مفاد کا قیام جان دینے پر موقوف ہو، ورنہ حفاظت جان شریعت اسلام کا بنیادی حکم ہے، امام نے فرمایا یہ ہے تو میں مجبورا قبول کرتا ہوں مگر کاروبار سلطنت میں بالکل دخل نہ دوں گا، ہاں اگر کسی بات میں مجھ سے مشورہ لیا جائے تو نیک مشورہ ضرور دوں گا۔

تواریخ میں ہے کہ مامون نے حضرت امام رضا علیہ السلام سے کہا کہ شرطیں قبول کر لیں اس کے بعد آپ نے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کیا اور بارگاہ اہدیت میں عرض کی:

پروردگارا تو جانتا ہے کہ اس امر کو میں نے مجبوری و ناچاری اور خوف قتل کی وجہ سے قبول کیا ہے۔ خداوندا تو میرے اس فعل پر مجھ سے اسی طرح مواخذہ نہ کرنا کہ جس طرح جناب یوسف اور جناب دانیال سے باز پرس نہیں فرمائی۔ اس کے بعد کہا میرے پالنے والے تیرے عہد کے سوا کوئی عہد نہیں اور تیری عطا کی ہوئی حیثیت کے سوا کوئی عزت نہیں، خدایا تو مجھے اپنے دین پر قائم رہنے ک توفیق عنایت فرما۔

خواجہ محمد پارسا کا کہنا ہے کہ ولیعہدی کے وقت آپ رو رہے تھے۔

ملا حسین لکھتے ہیں کہ مامون کی طرف سے اصرار اور حضرت کی طرف سے انکار کا سلسلہ دو ماہ تک جاری رہا، اس کے بعد ولی عہدی قبول کی گئی۔

ولیعہدی کی رسم کا انعقاد:

یکم رمضان 201 ہجری ولیعہدی کا جشن منعقد ہوا، بڑی شان و شوکت کے ساتھ یہ تقریب عمل میں لائی گئی، سب سے پہلے مامون نے اپنے بیٹے عباس کو اشارہ کیا اور اس نے بیعت کی، پھر اور لوگ بیعت سے شرفیاب ہوئے، سونے اور چاندی کے سکے سر مبارک پر نثار ہوئے اور تمام ارکان سلطنت اور ملازمین میں انعامات تقسیم ہوئے۔ مامون نے حکم دیا کہ حضرت کے نام کا سکہ تیار کیا جائے، چنانچہ درہم و دینار پر حضرت کے نام کا نقش ہوا، اور اس وقت کی تمام مملکت میں وہ سکہ چلایا گیا، جمعہ کے خطبہ میں حضرت کا نام نامی داخل کیا گیا

یہ ظاہر ہے کہ حضرت کے نام مبارک کا سکہ عقیدت مندوں کے لیے تبرک اور ضمانت کی حیثیت رکھتا تھا، اس سکہ کو سفر و حضر میں حرز جان کے لیے ساتھ رکھنا یقینی امر تھا۔

صاحب کتاب جنات الخلود نے بحر و بر کے سفر میں تحفظ کے لیے آپ کے توسل کا ذکر کیا ہے، اسی کی یادگار میں بطور ضمانت بعقیدہ تحفظ ہم اب بھی سفر میں بازو پر امام ضامن ثامن کا پیسہ باندھتے ہیں۔

علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ 33 ہزار عباسی مرد و زن وغیرہ کی موجودگی میں آپ کو ولیعہد خلافت بنایا گیا۔ اس کے بعد اس نے تمام حاضرین سے حضرت امام علی رضا کے لیے بیعت لی اور دربار کا لباس بجائے سیاہ کے، سبز قرار دیا گیا جو سادات کا امتیازی لباس تھا، فوج کی وردی بھی بدل دی گئی تمام ملک میں احکام شاہی نافذ ہوئے کہ مامون کے بعد علی رضا تخت و تاج کے مالک ہیں اور ان کا لقب ہے ، الرضا من آل محمد ،

علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ قبول ولیعہدی کے سلسلہ میں آپ نے جو کچھ تحریر فرمایا تھا، اس پر گواہ کی حیثیت سے فضل ابن سہل ، سہل ابن فضل ، یحیی ابن اکثم، عبد اللہ ابن طاہر، ثمامہ ابن اشرس ، بشر ابن معتمر ، حماد ابن نعمان وغیرہ کے دستخط تھے، انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ امام رضا علیہ السلام نے اس جلسہ ولیعہدی میں اپنے مخصوص عقیدت مندوں کو قریب بلا کر کان میں فرمایا تھا کہ اس تقریب پر دل میں خوشی کو جگہ نہ دو۔

صواعق محرقہ ص 122

مطالب السول ص 282

نور الابصار ص 142

اعلام الوری ص 193

کشف الغمہ ص 112

جنات الخلود، ص 31

المامون، ص 82

وسیلة النجات، ص 379

ارحج المطالب، ص 454

مسند امام رضا، ص 7

تاریخ آئمہ ص 472

تاریخ احمدی ص 354

حضرت امام رضا (ع) کی ولیعہدی کا دشمنوں پر اثر:

تاریخ اسلام میں ہے کہ امام رضا علیہ السلام کی ولیعہدی کی خبر سن کر بغداد کے عباسی یہ خیال کر کے کہ خلافت ہمارے خاندان سے نکل چکی ہے، کمال دل سوختہ ہوئے اور انہوں نے ابراہیم ابن مہدی کو بغداد کے تخت پر بٹھا دیا اور محرم 202 ہجری میں مامون کی معزولی کا اعلان کر دیا، بغداد اور اس کے نواح میں بالکل بد نظمی پھیل گئی، لوٹ مار شروع ہو گئی، جنوبی عراق اور حجاز میں بھی معاملات کی حالت ایسی ہی خراب ہو رہی تھی۔

فضل وزیر اعظم سب خبروں کو بادشاہ سے پوشیدہ رکھتا تھا مگر امام رضا علیہ السلام نے اسے خبر دار کر دیا، بادشاہ وزیر کی طرف سے بدگمان ہو گیا۔ مامون کو جب ان شورشوں کی خبر ہوئی تو بغداد کی طرف روانہ ہو گیا۔ سرخس میں پہنچ کر اس نے فضل ابن سہل وزیر سلطنت کو حمام میں قتل کرا دیا۔

تاریخ اسلام، ج ص 61

شمس العلماء شبلی نعمانی حضرت امام رضا کی بیعت ولیعہدی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس انوکھے حکم نے بغداد میں ایک قیامت انگیز ہلچل مچا دی اور مامون سے مخالفت کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ بعض نے سبز رنگ وغیرہ کے اختیار کرنے کے حکم کی جبری طور پر تعمیل کی مگر عام صدا یہی تھی کہ خلافت خاندان عباس کے دائرہ سے باہر نہیں جا سکتی۔

المامون، ص 82

حضرت امام رضا (ع) اور نماز عید:

ولی عہدی کو ابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ عید کا موقع آ گیا، مامون نے حضرت سے کہلا بھیجا کہ آپ سواری پر جا کر لوگوں کو نماز عید پڑھائیں،حضرت نے فرمایا کہ میں نے پہلے ہی تم سے شرط کر لی ہے کہ بادشاہت اور حکومت کے کسی کام میں حصہ نہیں لوں گا اور نہ اس کے قریب جاؤں گا، اس وجہ سے تم مجھ کو اس نماز عید سے بھی معاف کر دو تو بہتر ہے ورنہ میں نماز عید کے لیے اسی طرح جاؤں گا کہ جس طرح میرے جد امجد حضرت محمد رسول اللہ (ص) تشریف لے جایا کرتے تھے۔ مامون نے کہا کہ آپ کو اختیار ہے جس طرح چاہیں جائیں، اس کے بعد اس نے سواروں اور پیادوں کو حکم دیا کہ حضرت کے دروازے پہ حاضرہوں۔

جب یہ خبر شہر میں مشہور ہوئی تو لوگ عید کے روز سڑکوں اور چھتوں پر حضرت کی سواری کی شان دیکھنے کو جمع ہو گئے، بہت بھیڑ لگ گئی عورتوں اور مردوں سب کو آرزو تھی کہ حضرت کی زیارت کریں اور آفتاب نکلنے کے بعد حضرت نے غسل کیا اور کپڑے بدلے، سفید عمامہ سر پر باندھا، عطر لگایا اور عصا ہاتھ میں لے کر عید گاہ جانے پر آمادہ ہو گئے، اس کے بعد نوکروں اور غلاموں کو حکم دیا کہ تم بھی غسل کر کے کپڑے بدل لو اور اسی طرح میرے ساتھ پیدل چلو۔

اس انتظام کے بعد حضرت گھر سے باہر نکلے کہ ننگے پاؤں ہو گئے اور پھر دو تین قدم چل کر کھڑے ہو گئے اور سر کو آسمان کی طرف بلند کر کے کہا:

اللہ اکبر اللہ اکبر، حضرت کے ساتھ نوکروں، غلاموں اور فوج کے سپاہیوں نے بھی تکبر کہی۔

راوی کا بیان ہے کہ جب امام رضا علیہ السلام تکبر کہتے تھے تو ہم لوگوں کو معلوم ہوتا تھا کہ در و دیوار اور زمین و آسمان سے حضرت کی تکبیر کا جواب سنائی دیتا ہے۔

اس ہیبت کو دیکھ کر یہ حالت ہوئی کہ سب لوگ اور خود لشکر والے زمین پر گر پڑے، سب کی حالت بدل گئی لوگوں نے چھریوں سے اپنی جوتیوں کے کل تسمے کاٹ دئیے اور جلدی جلدی جوتیاں پھینک کر ننگے پاؤں ہو گئے، شہر بھر کے لوگ چیخ چیخ کر رونے لگے ایک کہرام بپا ہو گیا۔

اس کی خبر مامون کو بھی ہو گئی، اس کے وزیر فضل ابن سہل نے اس سے کہا کہ اگر امام رضا اسی حالت میں عید گاہ تک پہنچ جائیں گے تو معلوم نہیں کیا فتنہ اور ہنگامہ برپا ہو جائے گا، سب لوگ ان کی طرف ہو جائیں گے اور ہم نہیں جانتے کہ ہم لوگ کیسے بچیں گے۔

وزیر کی اس بات پر متنبہ ہو کر مامون نے ایک شخص کو حضرت کی خدمت میں بھیج کر کہلا بھیجا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی ہے کہ جو آپ سے عید گاہ جانے کے لیے کہا ہے، اس سے آپ کو زحمت ہو رہی ہے اور میں آپ کی مشقت کو پسند نہیں کرتا، بہتر ہے کہ آپ واپس چلے آئیں اور عید گاہ جانے کی زحمت نہ فرمائیں، پہلے جو شخص نماز پڑھاتا تھا، وہی پڑھائے گا۔ یہ سن کر حضرت امام رضا علیہ السلام واپس تشریف لائے اور نماز عید نہ پڑھا سکے۔

وسیلة النجات، ص 382

مطالب السول، ص 282

نور الابصار، ص 143

مختلف مذاہب کے علماء سے حضرت امام رضا (ع) کے علمی مناظرے:

مامون رشید کو خود بھی علمی ذوق تھا، اس نے ولی عہدی کے مرحلہ کو طے کرنے کے بعد حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے کافی استفادہ کیا پھر اپنے ذوق کے تقاضے پر اس نے مختلف مذاہب کے علماء کو دعوت مناظرہ دی اور ہر طرف سے علماء کو طلب کر کے حضرت امام رضا علیہ السلام سے مقابلہ کرایا۔

عہد مامون میں امام علیہ السلام سے جس قدر مناظرے ہوئے ہیں، ان کی تفصیل اکثر کتب میں موجود ہے، اس سلسلہ میں کتاب احتجاج طبرسی ، بحار الانوار ، دمعہ ساکبہ وغیرہ جیسی کتابیں دیکھی جا سکتی ہیں۔

نصارا کے عالم سے علمی مناظرہ:

مامون رشید کے عہد میں نصارا کا ایک بہت بڑا عالم و مناظر شہرت عامہ رکھتا تھا، جس کا نام جاثلیق تھا، اس کی عادت تھی کہ متکلمین اسلام سے کہا کرتا تھا کہ ہم تم دونوں نبوت عیسی اور ان کی کتاب پر متفق ہیں اور اس بات پر بھی اتفاق رکھتے ہیں کہ وہ آسمان پر زندہ ہیں، اختلاف ہے تو صرف نبوت محمد مصطفی (ص) میں ہے، تم ان کی نبوت کا اعتقاد رکھتے ہو اور ہمیں انکار ہے پھر ہم تم ان کی وفات پر متفق ہو گئے ہیں، اب ایسی صورت میں کونسی دلیل تمہارے پاس باقی ہے کہ جو ہمارے لیے حجت قرار پائے۔ یہ کلام سن کر اکثر مناظر خاموش ہو جایا کرتے تھے۔

مامون رشید کے اشارے پر ایک دن وہ حضرت امام رضا علیہ السلام سے بھی ہم کلام ہوا، موقع مناظرہ میں اس نے مذکورہ سوال دہراتے ہوئے کہا کہ پہلے آپ یہ فرمائیں کہ حضرت عیسی کی نبوت اور ان کی کتاب دونوں پر آپ کا ایمان و اعتقاد ہے یا نہیں ؟ آپ نے ارشاد فرمایا:

میں اس عیسی کی نبوت کا یقینا اعتقاد رکھتا ہوں کہ جس نے ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی (ص) کی نبوت کی اپنے حوارین کو بشارت دی ہے اور اس کتاب کی تصدیق کرتا ہوں کہ جس میں یہ بشارت درج ہے کہ جو عیسائی اس کے معترف نہیں اور جو کتاب اس کی شارح اور مصدق نہیں اس پر میرا ایمان نہیں ہے۔ یہ جواب سن کر جاثلیق خاموش ہو گیا۔

پھر آپ نے ارشاد فرمایا کہ اے جاثلیق ہم اس عیسی کو کہ جس نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی بشارت دی ہے ، نبی برحق جانتے ہیں مگر تم ان کی تنقیص کرتے ہو اور کہتے ہو کہ وہ نماز روزے کے پابند نہ تھے۔

جاثلیق نے کہا کہ ہم تو یہ نہیں کہتے، وہ تو ہمیشہ قائم اللیل اور صائم النہار رہا کرتے تھے، آپ نے فرمایا عیسی تو بنا بر اعتقاد نصارا خود معاذ اللہ، خدا تھے۔ تو یہ روزہ اور نماز کس کے لیے کرتے تھے ؟

یہ سن کر جاثلیق مبہوت ہو گیا اور کوئی جواب نہ دے سکا۔

البتہ یہ کہنے لگا کہ جو مردوں کو زندہ کرے، جذامی کو شفا دے، نابینا کو بینا کر دے اور پانی پر چلے، کیا وہ اس کا سزاوار نہیں ہے کہ اس کی پرستش کی جائے اور اسے معبود سمجھا جائے ؟

اس پر آپ نے فرمایا:

الیسع بھی پانی پر چلتے تھے، اندھے کوڑی کو شفا دیتے تھے، اسی طرح حزقیل پیغمبر نے 35 ہزار انسانوں کو 60 برس کے بعد زندہ کیا تھا، قوم اسرائیل کے بہت سے لوگ طاعون کے خوف سے اپنے گھر چھوڑ کر باہر چلے گئے تھے۔ حق تعالی نے ایک لمحے میں سب کو مار دیا۔

بہت دنوں کے بعد ایک نبی بوسیدہ ہڈیوں پر گزرے، تو خداوند نے ان پر وحی نازل کی کہ انہیں آواز دو، انہوں نے کہا کہ اے استخوان بالیہ (استخوان مردہ) اٹھ کھڑے ہو، وہ سب بحکم خدا اٹھ کھڑے ہوئے۔

اسی طرح حضرت ابراہیم کے پرندوں کو زندہ کرنے اور حضرت موسی کے کوہ طور پر لے جانے اور رسول خدا کے احیاء اموات فرمانے کا حوالہ دے کر فرمایا کہ ان چیزوں پر تورات، انجیل اور قرآن مجید کی شہادت موجود ہے، اگر مردوں کو زندہ کرنے سے انسان خدا ہو سکتا ہے تو یہ سب انبیاء بھی خدا ہونے کے مستحق ہیں۔

یہ سن کر وہ چپ ہو گیا اور اس نے اسلام قبول کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ دیکھا۔

عالم یہودی سے علمی مناظرہ:

عالم یہود میں سے ایک عالم جس کا نام راس الجالوت تھا، کو اپنے علم پر بڑا غرور اور تکبر و تھا۔ وہ کسی کو بھی اپنی نظر میں نہ لاتا تھا۔ ایک دن اس کا مناظرہ اور مباحثہ فرزند رسول حضرت امام رضا علیہ السلام سے ہو گیا۔ آپ سے گفتگو کے بعد اس نے اپنے علم کی حقیقت جانی اور سمجھا کہ میں خود فریبی میں مبتلا ہوں۔

امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے کے بعد اس نے اپنے خیال کے مطابق بہت سخت سوالات کیے، جن کے تسلی بخش اور اطمینان آفرین جوابات سے بہرہ ور ہوا۔

جب وہ سوالات کر چکا تو امام علیہ السلام نے فرمایا کہ اے راس الجالوت ! تم تورات کی اس عبارت کا کیا مطلب سمجھتے ہو کہ: آیا نور سینا سے روشن ہوا جبل ساعیر سے اور ظاہر ہوا کوہ فاران سے، اس نے کہا کہ اسے ہم نے پڑھا ضرور ہے لیکن اس کی تشریح سے واقف نہیں ہوں۔

آپ نے فرمایا کہ نور سے وحی مراد ہے، طور سینا سے وہ پہاڑ مراد ہے کہ جس پر حضرت موسی خدا سے کلام کرتے تھے، جبل ساعیر سے محل و مقام عیسی علیہ السلام مراد ہے، کوہ فاران سے جبل مکہ مراد ہے کہ جو شہر سے ایک منزل کے فاصلے پر واقع ہے، پھر فرمایا تم نے حضرت موسی کی یہ وصیت دیکھی ہے کہ تمہارے پاس بنی اخوان سے ایک نبی آئے گا، اس کی بات ماننا اور اس کے قول کی تصدیق کرنا ؟

اس نے کہا ہاں دیکھی ہے آپ نے پوچھا کہ بنی اخوان سے کون مراد ہے ؟ اس نے کہا معلوم نہیں، آپ نے فرمایا کہ وہ اولاد اسماعیل ہیں، کیونکہ وہ حضرت ابراہیم کے ایک بیٹے ہیں اور بنی اسرائیل کے مورث اعلی حضرت اسحاق ابن ابراہیم کے بھائی ہیں اور انہیں سے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔

اس کے بعد جبل فاران والی بشارت کی تشریح فرما کر کہا کہ شعیا نبی کا قول توریت میں مذکور ہے کہ میں نے دو سوار دیکھے کہ جن کے نور سے دنیا روشن ہو گئی، ان میں ایک گدھے پر سوار تھا اور ایک اونٹ پر،

اے راس الجالوت تم بتلا سکتے ہو کہ اس سے کون مراد ہیں ؟ اس نے انکار کیا، آپ نے فرمایا کہ راکب الحمار سے حضرت عیسی اور راکب الجمل سے مراد حضرت محمد مصطفی (ص) ہیں۔

پھر آپ نے فرمایا کہ تم حضرت حبقوق نبی کے اس قول سے واقف ہو کہ خدا اپنا بیان جبل فاران سے لایا اور تمام آسمان حمد الہی کی (آوازوں) سے بھر گئے، اسکی امت اور اس کے لشکر کے سوار خشکی اور تری میں جنگ کرینگے، ان پر ایک کتاب آئے گی اور سب کچھ بیت المقدس کی خرابی کے بعد ہو گا۔

اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ یہ بتاؤ کہ تمہارے پاس حضرت موسی علیہ السلام کی نبوت کی کیا دلیل ہے ؟

اس نے کہا کہ ان سے وہ امور ظاہر ہوئے ہیں کہ جو ان سے پہلے انبیاء سے ظاہر نہیں ہوئے تھے، مثلا دریائے نیل کا شگافتہ ہونا، عصا کا سانپ بن جانا، ایک پتھر سے بارہ چشموں کا جاری ہو جانا اور ید بیضا وغیرہ وغیرہ۔

آپ نے فرمایا کہ جو بھی اس قسم کے معجزات کو ظاہر کرے اور نبوت کا مدعی ہو، اس کی تصدیق کرنی چاہیے ؟

اس نے کہا نہیں،

آپ نے فرمایا کیوں ؟

اس نے کہا اس لیے کہ موسی کو جو قربت یا منزلت حق تعالی کے نزدیک تھی، وہ کسی کو نہیں ہوئی لہذا ہم پر واجب ہے کہ جب تک کوئی شخص بعینہ وہی معجزات و کرامات نہ دکھلائے، ہم اس کی نبوت کا اقرار نہ کریں گے۔

امام نے ارشاد فرمایا کہ تم موسی سے پہلے انبیاء مرسلین کی نبوت کا کس طرح اقرار کرتے ہو، حالانکہ انہوں نے نہ کوئی دریا شگافتہ کیا، نہ کسی پتھر سے چشمے نکالے اور نہ ہی ان کا ہاتھ روشن ہوا، اور نہ ان کا عصا اژدہا بنا ؟

راس الجالوت نے کہا کہ جب ایسے امور و علامات خاص طور سے ان سے ظاہر ہوں جن کے اظہار سے عموما تمام خلائق عاجزہوں، تو وہ اگرچہ بعینہ ایسے معجزات ہوں یا نہ ہوں، ان کی تصدیق ہم پر واجب ہو جائے گی۔

حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا کہ حضرت عیسی بھی مردوں کو زندہ کرتے تھے، کور مادر نوزاد کو بینا بناتے تھے، مبروص کو شفا دیتے تھے، مٹی کی چڑیا بنا کر ہوا میں اڑاتے تھے، وہ یہ امور ہیں جن سے عام لوگ عاجز ہیں پھر تم ان کو پیغمبر کیوں نہیں مانتے ؟

راس الجالوت نے کہا کہ لوگ ایسے ہی کہتے ہیں، مگر ہم نے ان کو ایسا کرتے دیکھا نہیں ہے۔

امام نے فرمایا تو کیا آیات و معجزات موسی کو تم نے بچشم خود دیکھا ہے، آخر وہ بھی تو معتبر لوگوں کی زبانی سنا ہی ہو گا ویسا ہی اگر عیسی کے معجزات ثقہ اور معتبر لوگوں سے سنو، تو تم کو ان کی نبوت پر ایمان لانا چاہیے اور بالکل اسی طرح حضرت محمد مصطفی (ص) کی نبوت و رسالت کا اقرار آیات و معجزات کی روشنی میں کرنا چاہیے، سنو ان کا عظیم معجزہ قرآن مجید ہے کہ جس کی فصاحت و بلاغت کا جواب قیامت تک نہیں دیا جا سکے گا۔ یہ سن کر وہ خاموش ہو گیا۔

عالم مجوسی سے علمی مناظرہ:

مجوسی یعنی آتش پرست کا ایک مشہور عالم ہربذ اکبر، حضرت امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر علمی گفتگو کرنے لگا، آپ نے اس کے سوالات کے مکمل جوابات عنایت فرمائے۔ اس کے بعد اس سے سوال کیا کہ تمہارے پاس رزتشت کی نبوت کی کیا دلیل ہے ؟

اس نے کہا کہ انہوں نے ہماری ایسی چیزوں کی طرف راہنمائی فرمائی ہے کہ جس کی طرف پہلے کسی نے راہنمائی نہیں کی تھی، ہمارے اسلاف کہا کرتے تھے کہ زرتشت نے ہمارے لیے وہ امور مباح کیے ہیں کہ ان سے پہلے کسی نے نہیں کیے تھے۔

آپ نے فرمایا کہ تم کو اس امر میں کیا عذر ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص کسی نبی اور رسول کے فضائل و کمالات تم پر روشن کرے اور تم اس کے ماننے میں پس و پیش کرو، مطلب یہ ہے کہ جس طرح تم نے معتبر لوگوں سے سن کر زرتشت کی نبوت مان لی، اسی طرح معتبر لوگوں سے سن کر انبیاء اور رسل کی نبوت کے ماننے میں تمہیں کیا عذر ہو سکتا ہے ؟ یہ سن کر وہ خاموش ہو گیا۔

امام رضا (ع) کی زيارت کی فضيلت:

اہل سنت کی کتابوں ميں قبر امام رضا (ع) کی زيارت کی فضيلت ميں بہت سی روايات وارد ہوئی ہيں، جن ميں سے بعض کو ہم يہاں پر نقل کرتے ہيں:

1- سيد علی ابن شہاب الدين ہمدانی نے پيغمبر اکرم (ص) سے نقل کيا ہے کہ آپ نے فرمايا:

ستدفن بضعة منّى بخراسان، ما زار مکروب الاّ نفّس الله کربته، و لا مذنب الاّ غفر الله له،

بہت جلد ميرے جسم کا ايک حصہ خراسان ميں دفن ہو گا ، جس کو بھی کوئی غم ہو گا اور وہ آپ کی زيارت کرے گا تو خداوند اس کے غم کو دور کر دے گا اور جو گنہگار بھی ان کی زيارت کرے گا تو خداوند اس کے گناہوں کو بخش دے گا۔

مودة القربى، ص 140

ينابيع المودة، ص 265

2- حموينی نے اپنی سند کے ساتھ رسول خدا (ص) سے نقل کيا ہے کہ آپ نے فرمايا:

ستدفن بضعة منّى بخراسان، لا يزور ها مۆمن الاّ أوجب الله له الجنّة، و حرّم جسده على النار،

بہت جلد ميرے جسم کے ايک حصے کو خراسان ميں دفن کيا جائے گا، جو مومن بھی ان کی زيارت کرے گا، اس پر خداوند بہشت کو واجب کر دے گا اور اس کے جسم پر جہنم کی آگ کو حرام کر دے گا۔

فرائد السمطين، ج 2، ص 188

3- ابو بکر محمد ابن مومل کہتے ہيں: ميں نے اہل حديث کے امام ابو بکر ابن خزيمہ، ابن علی ثقفی اور اساتيد کی ايک جماعت کے ساتھ علی ابن موسی الرضا (ع) کی زيارت کے قصد سے طوس کی طرف روانہ ہوا۔ ميں نے ابن خزيمہ کو ديکھا کہ وہ اس ضريح کی اس قدر تعظيم کر رہے تھے اور اس کے سامنے اس قدر تواضع اور تضرع و زاری کر رہے تھے کہ ہم حيران رہ گئے۔

تهذيب التهذيب، ج 7، ص 339

4- ابن حبان نے اپنی کتاب الثقات ميں لکھا ہے کہ: علی ابن موسی الرضا کو طوس ميں مامون نے ايک شربت ديا جس کو پيتے ہی آپ کی شہادت واقع ہو گئی … آپ کی قبر سناباد ميں نوقان کے باہر مشہور ہے ، لوگ ان کی زيارت کے لیے آتے ہيں، ميں نے بہت زيادہ ان کی زيارت کی ہے ، جب تک ميں طوس ميں رہا مجھ پر کوئی بھی مصيبت پڑتی تھی تو ميں علی ابن موسی الرضا (صلوات اللہ علي جدہ و عليہ) کی قبر کی زيارت کے لیے جاتا تھا اور خداوند سے دعا کرتا تھا کہ ميری مصيبت کو دور کرے ، خداوند بھی ميری دعا کو مستجاب کرتا تھا اور وہ مصيبت مجھ سے دور ہو جاتی تھی اور يہ بات ايسی ہے کہ جس کا ميں نے بار ہا تجربہ کيا ہے اور ہر مرتبہ ميری مصيبت دور ہوئی ہے۔ خداوند ہميں مصطفی اور ان کے اہل بيت (صلي اللہ عليہ و عليہم اجمعين) کی محبت پر موت دے۔

الثقات، ج 8، ص 456 و 457

اهل بيت از ديدگاه اهل سنت، على اصغر رضوانى، ص 137

امام رضا (ع) کی صفات:

عالم آل محمد، القائم بامراللہ، الحجة، ناصرالدین اللہ، شاہد، داعیاالی سبیل اللہ، امام الہدی، العروة الوثقی، الامام الہادی، الولی، المرشد۔

بحار الانوار، ج 49 ص 123

القاب:

الرضا، الصابر، رضی، القبلة السابع، ہدانہ (وطن سے دور) قرة اعین المومنین، الصادق، الفاضل، الوصی۔

الارشاد، شیخ مفید، ص 310

مامون نے كیوں امام رضا (ع) كو اپنا ولی عہد بنایا ؟

مامون عباسیوں میں خلافت كے لیے سب سے زیادہ اہل اور سزاوار تھا لیكن چونكہ بنی عباس اس كے مخالف تھے، اس كے استاد فضل ابن سہل كے بھی سر سخت دشمن تھے۔

دوسری بات یہ كہ امین (مامون كا بھائی) ماں اور باپ كی طرف سے اصیل عرب، جبكہ مامون كی ماں ایک معمولی سے كنیز تھی، امین كو اس پر ہر لحاظ سے برتری اور فوقیت حاصل تھی۔

اسكے علاوہ اكثر امراء امین رشید كے طرف دار تھے، فوج كے بڑے بڑے افسر بھی اسی كے چاہنے والے تھے۔

اسكے مقابلے میں مامون كی تكیہ گاہ اور پناہ گاہ كیا تھی …لوگ…نہیں… درباری نہیں، فوج نہیں، عباسی خاندان نہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے كہ مامون كو حكومت كرنے كے لیے ہر طرف سے خطرہ ہی خطرہ تھا اور وہ كسی بھی صورت میں اپنی حكومت كو پائدار اور باقی نہیں ركھ سكتا تھا۔

تین گروہ كم از كم ضرور اس كے مقابلے میں تھے:

1- علوی شیعہ۔

3- اعراب۔

3- امین اور خاندان بنی عباس۔

اس كے علاوہ خود اہل خراسان بھی اب اس سے ناراض تھے اور اس كی حكومت كے لیے خطرہ ثابت ہو رہے تھے، ان چیزوں كو مد نظر ركھتے ہوئے، مامون كے لیے چند راہ حل تھے کہ جنكے ذریعے سے وہ اپنی حكومت كو بچا سكتا تھا:

1- علویوں اور شیعوں كی بغاوت كو سركوب كرنا (صلح یا شمشیر كے ذریعے)۔

2- علویوں سے عباسی حكومت كے لیے جواز اور مشروعیت كا سرٹیفكیٹ حاصل كرنا۔

3- عربوں كا اعتماد حاصل كرنا اور ان میں محبوبیت پانا۔

4- اپنی حكومت كے جواز كے لیے ایرانیوں اور خراسانیوں سے سرٹیفكیٹ حاصل كرنا۔

5- علویوں كو اہل دنیا ثابت كرتے ہوئے ان كی محبوبیت اور احترام كو ختم یا کم كرنا۔

6- اپنے لیے ہرخطرے سے محفوظ رہنے كے لیے اسباب فراہم كرنا۔

7- عباسیوں كو راضی اور خوشنود ركھنا۔

جی ہاں! یہ سب ایسی راہ حل ہیں کہ جو صرف اور صرف امام رضا علیہ السلام كی ولایت عہدی كے ذریعے سے ہی انجام تک پہنچ سكتی ہیں اور خاص كر امام رضا علیہ السلام جیسی محبوب شخصیت كے خطرے سے بھی وہ محفوظ و مصون رہ سكتا ہے۔ امام رضا علیہ السلام كی ولایت عہدی ہی كے ذریعہ وہ علویوں كو خلع سلاح بھی كر سكتا تھا، ان كی محبوبیت بھی ختم كر سكتا تھا۔ ان سے اور ایرانیوں سے جو اہل بیت كی مشروعیت اور جواز كا مدرک لے سكتا تھا، عباسیوں اور عربوں میں یہ آشكار كیا كہ اگر اپنے بھائی كو قتل كیا ہے لیكن حكومت كو اس كے اہل اور سزاوار شخص تک بھی پہنچایا ہے۔

امام رضا (ع) كے ولایت عہدی قبول كرنے كی دلیلیں:

1- اگر امام رضا علیہ السلام ولایت عہدی قبول نہ كرتے تو انكی ذات كے علاوہ تمام علویوں، شیعوں اور دوستداران اہل بیت کی جان كو خطرہ تھا، لہذا لازم تھا كہ امام اپنی اور اپنے چاہنے والوں كو بچائیں، خاص طور پر امام كا وجود ہر زمانے كے لیے لازم اور ضروری ہوتا ہے تا كہ لوگوں كی ہدایت كریں، انہیں فكری و فرہنگی مشكلات سے نجات دیں، كفر و الحاد كی دیواروں كو توڑ كر لوگوں كو خدا شناسی كی طرف لے جائیں، امامت كا فریضہ انجام دیتے ہوئے لوگوں كو ان كے ہدف اور مقصد سے آگاہ كریں، اس بناء پر امام نے اپنے شرعی فریضے كو انجام دیتے ہوئے اس منصب كو قبول كیا۔

2- عباسیوں سے جو كہ اہل بیت كے سر سخت دشمن تھے، قبول كروایا كہ خلافت آل محمد كا حق ہے۔

3- ولایت عہدی كو قبول كیا ت اكہ لوگ آل محمد كو سیاست كے میدان میں حاضر پائیں اور كوئی یہ نہ كہے كہ یہ لوگ جو علماء اور فقہاء تھے، سیاست اور دینوی امور سے بے خبر تھے۔

4- دشمن و دوست سے اعتراف كروائیں كہ خلافت ہمارا حق ہے جس طرح حضرت علی علیہ السلام نے شوری میں شركت كر كے اس كو اپنا حق ثابت كیا۔

5- مامون كے مكروہ چہرے سے نقاب ہٹا كر اس كی مكروہ پالیسی اور سازش كو آشكار كر دیا تا كہ لوگ اس كے بارے میں شک و شبہ میں مبتلا نہ ہوں۔

6- اگر امام رضا علیہ السلام اس منصب ولایت عہدی كو قبول نہ كرتے تو اس صورت میں جان بھی جاتی، شیعہ اور دوست بھی مشكلات میں مبتلا ہو جاتے اور امام اپنے اہداف تک بھی نہ پہنچ پاتے لیكن ولایت عہدی كے منصب كو قبول كر كے دشمن سے انہوں نے اپنے خلافت كے حقدار ہونے اور مامون اور عباسیوں كے غاصب ہونے كو سب پر آشكار اور عیاں كر دیا۔

7- مامون كی تمام سازشوں كو سب پر بے نقاب كر دیا مختلف ادیان اور مكاتب مثلا جاثلیق، راس الجالوت، عمران صائبی جو كہ اپنے زمانے كے بہت بڑے عالم تھے، كے ساتھ مناظرے كر كے، انہیں شكست دے كر مكتب اہل بیت كو حق ثابت كر دیا، اس خلافت كا حقدار صرف اپنے آپ كو ثابت كر دیا۔ حقیقت میں مامون چاہتا تھا كہ امام كو ان كے مرتبہ اور مقام سے نیچے لائے لیكن یہاں پر بھی امام نے اس كی بدنیتی كو فاش كر دیا۔

خلاصہ یہ كہ عہد مامون میں اگرچہ مامون كی نیت خراب تھی لیكن امام نے ولایت عہدی كا فائدہ اٹھایا اور دنیا والوں پر مكتب اہل بیت كی حقانیت كو ثابت كر دیا اور اس كے علاوہ شیعہ بلكہ اسلام و مسلمین كو عزت و عظمت اور سربلند كر كے ہمیشہ كے لیے سرفراز اور جاودان كر دیا۔

حضرت امام رضا (ع) کی زندگی کے اہم واقعات:

آپ (ع) کی ولی عہدی:

عباسی دور میں سب سے اہم واقعہ یہ رونما ہوا کہ مامون نے امام رضا (ع) کو اپنا ولی عہد بنا دیا یعنی وہ عباسی خلافت جو علوی سادات سے دشمنی رکھتی تھی، اس میں تبدیلی واقع ہو گئی اور اس بڑے واقعہ کا خاص و عام دونوں میں گفتگو و چرچا ہوا اور سب مبہوت ہو کر رہ گئے، وہ سیاسی روش جس میں عباسیوں نے علویوں کا بالکل خاتمہ کر دیا تھا ، اُن کے جوانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا ، اُن کے بچوں کو دجلہ میں غرق اور شیعوں کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر قتل کر دیا تھا۔

عباسیوں کی علویوں سے دشمنی بہت آشکار تھی ، یہ دشمنی محبت و مودت میں کیسے بدل گئی ، عباسی اُن کے حق کے معترف ہو گئے اور عباسی حکومت کا اہم مرکز اُن (علویوں ) کو کیسے سونپ دیا، اسی طرح کی تمام باتیں لوگوں کی زبانوں پر تھیں۔

یہ مطلب بھی بیان ہونا چاہیے کہ مامون نے یہ اقدام اس لیے نہیں کیا تھا کہ یہ علویوں کا حق ہے اور وہ خلافت کے زیادہ حقدار ہیں، بلکہ اُس نے کچھ سیاسی اسباب کی بناء پر ولایت کا تاج امام رضا (ع) کے سر پر رکھا ، جس کے کچھ اسباب مندرجہ ذیل تھے :

1- مامون کا عباسیوں کے نزدیک اہم مقام نہیں تھا اور ایسا اس کی ماں مراجل کی وجہ سے تھا کہ جو اسکے محل کے پڑوس اور اس کے نوکروں میں سے تھی، لہٰذا وہ لوگ مامون کے ساتھ عام معاملہ کرتے تھے ، وہ اس کے بھائی امین کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے ، کیونکہ اُن کی والدہ عباسی خاندان سے تعلق رکھتی تھی ، لہٰذا مامون نے امام رضا (ع) کو اپنی ولی عہدی سونپ کر اپنے خاندان کو نیچا دکھانے کی کوشش کی تھی۔

2- مامون نے امام (ع) کی گردن پر ولیعہدی کی ذمہ داری ڈال کر یہ آشکار کرنا چاہا تھا کہ امام (ع) دنیا کے زاہدوں میں سے نہیں ہیں، بلکہ وہ ملک و بادشاہت اور سلطنت کے خواستگار ہیں، اسی بناء پر انھوں نے ولیعہدی قبول کی ہے، امام (ع) پر یہ سیاست مخفی نہیں تھی، لہٰذا آپ (ع) نے مامون سے یہ شرط کی تھی کہ نہ تو میں کسی کو کوئی منصب دوں گا ، نہ ہی کسی کو اس کے منصب سے معزول کروں گا، اور میں ہر طرح کے حکم سے کنارہ کش رہوں گا۔ امام کی اِن شرطوں کی وجہ سے آپ (ع) کا زاہد ہونا واضح ہو جاتا ہے۔

3- مامون کے لشکر کے بڑے بڑے سردار شیعہ تھے لہٰذا اس نے امام (ع) کو اپنا ولیعہد بنا کر اُن سے اپنی محبت و مودت کا اظہار کیا۔

4- عباسی حکومت کے خلاف بڑی بڑی اسلامی حکومتوں میں انقلاب برپا ہو چکے تھے اور عنقریب اُس کا خاتمہ ہی ہونے والا تھا ، اور اُن کا نعرہ الدعوة الی الرضا من آل محمد، تھا۔

جب امام رضا (ع) کی ولیعہدی کے لیے بیعت کی گئی تو انقلابیوں نے اس بیعت پر لبیک کہی اور مامون نے بھی اُن کی بیعت کی، لہٰذا اس طرح سے اُس کی حکومت کو در پیش خطرہ ٹل گیا۔

اِن ہی بعض اغراض و مقاصد کی وجہ سے مامون نے امام رضا (ع) کو اپنا ولی عہد بنایا تھا۔

فضل کا امام رضا (ع) کو خط لکھنا:

مامون نے اپنے وزیر فضل ابن سہل سے کہا کہ وہ امام (ع) کو ایک خط تحریر کرے کہ میں نے آپ (ع) کو اپنا ولیعہد مقرر کر دیا ہے، خط کا مضمون یہ تھا :

علی ابن موسیٰ الرضا علیہما السلام کے نام جو فرزند رسول خدا (ص) ہیں، رسول خدا (ص) کی ہدایت کے مطابق ہدایت کرتے ہیں، رسول خدا کے فعل کی اقتدا کرتے ہیں، دین الٰہی کے محافظ ہیں، وحی خدا کے ذمہ دار ہیں، اُنکے دوست فضل ابن سہل کی جانب سے جس نے اُن کے حق کو دلانے میں اپنا خون پسینہ ایک کیا اور دن رات اس راہ میں کوشش کی،

اے ہدایت کرنے والے امام (ع) آپ (ع) پر صلوات و سلام اور رحمت الٰہی ہو ، میں آپ (ع) کی خدمت میں اس خدا کی حمد بجا لاتا ہوں کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس سے دعا کرتا ہوں کہ اپنے بندے محمد (ص) پر درود بھیجے۔

اما بعد :

امیدوار ہوں کہ خدا نے آپ (ع) کو آپ (ع) کا حق پہنچا دیا اور اُس شخص سے اپنا حق لینے میں مدد کی جس نے آپ (ع) کو حق سے محروم کر رکھا تھا، میں امیدوار ہوں کہ خدا آپ (ع) پر مسلسل کرم فرمائی کرے، آپ (ع) کو امام اور وارث قرار دے، آپ (ع) کے دشمنوں اور آپ (ع) سے روگردانی کرنے والوں کو سختیوں میں مبتلا کرے،

میرا یہ خط امیر المومنین بندہ خدا مامون کے حکم کی بناء پر پیش خدمت ہے، میں آپ (ع) کو یہ خط لکھ رہا ہوں تا کہ آپ کا حق واپس کر سکوں، آپ کے حقوق آپ (ع) کی خدمت میں پیش کر سکوں، میں چاہتا ہوں کہ اس طرح آپ (ع) مجھ کو تمام عالمین میں سعادتمند ترین قرار دیں اور میں خدا کے نزدیک کامیاب ہو سکوں، رسول خدا (ص) کے حق کو ادا کر سکوں، آپ (ع) کا معاون قرار پاؤں اور آپ کی حکومت میں ہر طرح کی نیکی سے مستفیض ہو سکوں، میری جان آپ پر فدا ہو،

جب میرا خط آپ تک پہنچے اور آپ مکمل طور پر حکومت پر قابض ہو جائیں یہاں تک کہ امیر المومنین مامون کی خدمت میں جا سکیں جو کہ آپ (ع) کو اپنی خلافت میں شریک سمجھتا ہے، اپنے نسب میں شفیع سمجھتا ہے اور اس کو اپنے ماتحت پر مکمل اختیار حاصل ہے تو آپ (ع) ایسی روش اختیار کریں جس کی وجہ سے خیر الٰہی سب کے شامل حال ہو جائے اور ملائکہ ٔ الٰہی سب کی حفاظت کریں اور خدا اس بات کا ضامن ہے کہ آپ (ع) کے ذریعہ امت کی اصلاح کرے اور خدا ہمارے لیے کافی ہے اور وہ بہترین ذمہ دار ہے اور آپ (ع) پر خدا کا سلام اور رحمت و برکتیں ہوں۔

حیاة الامام علی بن مو سیٰ الرضا (ع)، ج 2 ص 284

مامون کا امام رضا (ع) کا استقبال کرنا:

مامون نے امام رضا (ع) کا رسمی طور پر استقبال کرنے کا حکم دیا ، اسلحوں سے لیس فوجی دستے اور تمام لوگ امام کے استقبال کے لیے نکلے ، سب سے آگے آگے مامون ، اس کے وزراء اور مشیر تھے ، اُس نے آگے بڑھ کر امام (ع) سے مصافحہ اور معانقہ کیا اور بڑی گرمجوشی کے ساتھ مرحبا کہا ، اسی طرح اس کے وزیروں نے بھی کیا اور مامون نے امام (ع) کو ایک مخصوص گھر میں رکھا جو مختلف قسم کے فرش اور خدم و حشم سے آراستہ کیا گیا تھا۔

مامون کی طرف سے امام رضا (ع) کو خلافت پیش کش:

مامون نے امام (ع) کے سامنے خلافت پیش کی ، اس نے رسمی طور پر یہ کام انجام دیا اور امام (ع) کے سامنے یوں خلافت پیش کر دی:

اے فرزند رسول (ص) مجھے آپ (ع) کے فضل ، علم ، زہد ، ورع اور عبادت کی معرفت ہو گئی ہے ، لہٰذا میں آپ (ع) کو اپنی خلافت کا سب سے زیادہ حقدار سمجھتا ہوں۔

امام (ع) نے جواب میں فرمایا:

میں دنیا کے زہد کے ذریعہ آخرت کے شر سے چھٹکارے کی امید کرتا ہوں اور حرام چیزوں سے پرہیز گاری کے ذریعہ اخروی مفادات کا امید وار ہوں ، اور دنیا میں تواضع کے ذریعہ خداوند سے رفعت و بلندی کی امید رکھتا ہوں ۔۔۔۔

مامون نے جلدی سے کہا:

میں خود کو خلافت سے معزول کر کے خلافت آپ (ع) کے حوالے کرنا چاہتا ہوں۔

امام (ع) پر مامون کی باتیں مخفی نہیں تھیں ، اس نے امام (ع) کو اپنے سیاسی اغراض و مقاصد کی وجہ سے خلافت کی پیشکش کی تھی ، وہ کیسے امام (ع) کے لیے خود کو خلافت سے معزول کر رہا تھا ، جبکہ اُس نے کچھ دنوں پہلے خلافت کے لیے اپنے بھائی امین کو قتل کیا تھا ؟

امام (ع) نے مامون کو یوں صاف جواب دیا:

اگر خلافت تیرے لیے ہے تو تیرے لیے اس لباس کو اُتار کر کسی دو سرے کو پہنانا جائز نہیں ہے کہ جس لباس کو اللہ نے تجھے پہنایا ہے ، اور اگر خلافت تیرے لیے نہیں ہے تو تیرے لیے اس خلافت کو میرے لیے قرار دینا جائز نہیں ہے۔

مامون برہم ہو گیا اور غصہ میں بھر گیا اور اس نے امام (ع) کو اس طرح دھمکی دی:

آپ (ع) کو خلافت ضرور قبول کرنا ہو گی۔

امام (ع) نے جواب میں فرمایا:

میں ایسا اپنی خوشی سے نہیں کروں گا ۔۔۔

امام (ع) کو یقین تھا کہ یہ اُس (مامون) کے دل کی بات نہیں ہے، اور نہ ہی اس میں وہ جدیت سے کام لے رہا ہے کیونکہ مامون عباسی خاندان سے تھا کہ جو اہل بیت (ع) سے بہت سخت کینہ رکھتے اور انھوں نے اہل بیت علیہم السلام کا اس قدر خون بہایا تھا کہ اتنا خون کسی نے بھی نہیں بہایا تھا تو امام اُس پر کیسے اعتماد کرتے ؟

ولیعہدی کی پیشکش:

جب مامون امام (ع) سے خلافت قبول کروانے میں مایوس ہو گیا تو اس نے دوبارہ امام (ع) سے ولیعہدی کی پیشکش کی تو امام (ع) نے سختی کے ساتھ ولیعہدی قبول نہ کرنے کا جواب دیا ، اس بات کو ہوئے تقریباً دو مہینے سے زیادہ گزر چکے تھے اور اس کا کوئی نتیجہ نظر نہیں آ رہا تھا اور امام (ع) حکومت کا کوئی بھی عہدہ و منصب قبول نہ کرنے پر مصر رہے۔

امام (ع) کو ولیعہدی قبول کرنے پر مجبور کرنا:

جب مامون کے تمام سیاسی حربے ختم ہو گئے کہ جن سے وہ امام (ع) کو ولیعہدی قبول کرنے کے لیے قانع کرنا چاہتا تھا تو اُس نے زبردستی کا طریقہ اختیار کیا اور اس نے امام (ع) کو بلا بھیجا تو آپ (ع) نے اُس سے فرمایا:

خدا کی قسم جب سے پروردگار عالم نے مجھے خلق کیا میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور مجھے نہیں معلوم کہ تیرا کیا ارادہ ہے ؟

مامون نے جلدی سے کہا: میرا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

امام نے فرمایا: میرے لئے امان ہے ؟

مامون نے کہا: ہاں آپ (ع) کے لیے امان ہے۔

تیرا ارادہ یہ ہے کہ لوگ یہ کہیں کہ علی ابن موسیٰ (ع) نے دنیا میں زہد اختیار نہیں کیا، بلکہ دنیا نے ان کے بارے میں زہد اختیار کیا، کیا تم نے یہ نہیں دیکھا کہ انھوں نے خلافت کی طمع میں کس طرح ولیعہدی قبول کر لی؟

مامون غضبناک ہو گیا اور اُس نے امام (ع) سے چیخ کر کہا:

آپ (ع) ہمیشہ مجھ سے اس طرح ملاقات کرتے ہیں کہ جسے میں ناپسند کرتا ہوں اور آپ (ع) میری سطوت جانتے ہیں، خدا کی قسم یا تو ولیعہدی قبول کر لیجئے ورنہ میں زبردستی کروں گا، قبول کر لیجئے ورنہ میں آپ (ع) کی گردن اڑا دوں گا۔

امام (ع) نے خدا کی بارگاہ میں تضرّع کیا:

خدایا تو نے مجھے خود کشی کرنے سے منع فرمایا ہے جبکہ میں اس وقت مجبور و لاچار ہو چکا ہوں ، کیونکہ عبد اللہ مامون نے ولیعہدی قبول نہ کرنے کی صورت میں مجھے قتل کرنے کی دھمکی دی ہے، میں اس طرح مجبور ہو گیا ہوں کہ جس طرح جناب یوسف (ع) اور جناب دانیال (ع) مجبور ہوئے تھے، کہ اُن کو اپنے زمانے کے جابر حاکم کی ولایت عہدی قبول کرنی پڑی تھی۔

امام (ع) نے نہایت مجبوری کی بناء پر ولی عہدی قبول کر لی حالانکہ آپ (ع) بڑے ہی مغموم و محزون تھے۔

امام رضا (ع) کی شرطیں:

امام نے مامون سے ایسی شرطیں کیں کہ جن سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ آپ (ع) کو اس منصب کے قبول کرنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔ وہ شرطیں مندرجہ ذیل ہیں :

1- آپ (ع) کسی کو ولی نہیں بنائیں گے۔

2- کسی کو معزول نہیں کریں گے۔

3- کسی رسم و رواج کو ختم نہیں کریں گے۔

4- حکومتی امور میں مشورہ دینے سے دور رہیں گے۔

مامون نے اِن شرطوں کے اپنے اغراض و مقاصد کے متصادم ہونے کی وجہ سے تسلیم کر لیا۔

امام رضا (ع) کی بیعت:

مامون نے امام رضا (ع) کو ولی عہد منتخب کرنے کے بعد اُن کی بیعت لینے کی غرض سے ایک جشن منعقد کیا جس میں وزراء، فوج کے کمانڈر، حکومت کے بڑے بڑے عہدیدار اور عام لوگ شریک ہوئے اور سب سے پہلے عباس ابن مامون، اس کے بعد عباسیوں اور ان کے بعد علویوں نے امام (ع) کی بیعت کی۔

لیکن بیعت کا طریقہ منفرد تھا کہ جس سے عباسی بادشاہ مانوس نہیں تھے، امام نے اپنا دست مبارک بلند کیا جس کی پشت امام (ع) کے چہرہ اقدس کی طرف تھی اور ہاتھ کا اندرونی حصہ لوگوں کے چہروں کی طرف تھا ، مامون یہ دیکھ کر مبہوت ہو کر رہ گیا اور امام (ع) سے یوں گویا ہوا:

آپ (ع) بیعت کے لیے اپنا ہاتھ کھولیے۔

امام (ع) نے فرمایا: رسول اللہ (ص) اسی طرح بیعت لیا کرتے تھے۔

مقاتل الطالبین، ص 455

لہٰذا بیعت کرنے والے کا ہاتھ نبی اور امام (ع) کے ہاتھ سے اوپر ہونا صحیح نہیں ہے۔

حیاة الامام علی بن موسیٰ الرضا (ع)،ج 2 ،ص 303

مامون کا امام رضا (ع) سے خوف و رعب:

ابھی امام رضا (ع) کو ولی عہد بنے ہوئے کچھ ہی مدت گزری تھی کہ مامون آپ (ع) کی ولیعہدی کو ناپسند کرنے لگا، چاروں طرف سے افراد آپ (ع) کے گرد اکٹھے ہونے لگے اور ہر جگہ آپ (ع) کے فضل و کرم کے چرچے ہونے لگے ہر جگہ آپ (ع) کی فضیلت اور بلند شخصیت کی باتیں ہونے لگیں اور لوگ کہنے لگے کہ یہ خلافت کے لیے زیادہ شایانِ شان ہیں

بنی عباس چور اور مفسد فی الارض ہیں، مامون کی ناک بھویں چڑھ گئیں اس کو بہت زیادہ غصہ آ گیا، اور مندرجہ ذیل قانون نافذ کر دیئے :

1- اُس نے امام کے لیے سخت پہرے دار معین کر دیئے، کچھ ایسے فوجی تعینات کی کہے جنہوں نے امام (ع) کا جینا دو بھر کر دیا اور نگہبانوں کی قیادت ہشام ابن ابراہیم راشدی کے سپُرد کر دی کہ جو امام (ع) کی ہر بات مامون تک پہنچاتا تھا۔

2- اُس نے شیعوں کو امام (ع) کی مجلس میں حاضر ہو کر آپ (ع) کی گفتگو سننے سے منع کر دیا ، اس نے اِس کام کے لیے محمد ابن عمر و طوسی کو معین کیا جو شیعوں کو بھگاتا اور ان کے ساتھ سختی کے ساتھ پیش آتا تھا۔

3- علماء کو امام (ع) سے رابطہ رکھنے اور اُن کے علوم سے استفادہ کرنے سے بھی منع کر دیا گیا۔

دلائل امامت:

متعدد راویوں جیسے: داود ابن کثیر الرقی، محمد ابن اسحاق ابن عمار، علی ابن یقطین، نعیم قابوسی، حسین ابن مختار، زیاد ابن مروان، أبو لبید یا ابو ایوب مخزومی، داؤد ابن سلیمان، نصر ابن قابوس، داود ابن زربی، یزید ابن سلیط اور محمد ابن سنان وغیرہ نے امام موسی کاظم علیہ السلام سے امام رضا (ع) کی امامت کے بارے میں احادیث نقل کیں ہیں۔

مفید، الارشاد، ص 448

اس سلسلے میں بطور مثال بعض احادیث کا تذکرہ یہاں پر کیا جا رہا ہے:

داود رقی کہتے ہیں: میں نے امام موسی کاظم (ع) سے پوچھا: … آپ کے بعد امام کون ہے ؟

امام کاظم (ع) نے اپنے فرزند علی ابن موسی (ع) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: میرے بعد یہ تمہارے امام ہیں۔

مفید، الارشاد ص 448

اس کے علاوہ رسول اللہ (ص) سے متعدد احادیث نقل ہوئی ہیں جن میں 12 ائمہ معصومین (ع) کے اسماء گرامی ذکر ہوئے ہیں اور یہ احادیث امام علی ابن موسی الرضا (ع) سمیت تمام ائمہ (ع) کی امامت و خلافت و ولایت کی تائید کرتی ہیں۔

مفید، الاختصاص، ص 211

صافی، شیخ لطف اللہ، منتخب الاثر باب ہشتم ص97

طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ج2، ص182-181

عاملی، اثبات الہداة بالنصوص و المعجزات، ج2، ص285

جابر ابن عبد اللہ کہتے ہیں کہ سورہ نساء کی آیت 59 اطیعوا الله واطیعوا الرسول و اولی الامر منکم نازل ہوئی تو رسول اللہ (ص) نے 12 ائمہ کے نام تفصیل سے بتائے جو اس آیت کے مطابق واجب الاطاعت اور اولو الامر ہیں۔

بحار الأنوار ج 23 ص 290

اثبات الہداة ج 3‌ ص 123

مناقب ابن شہر آشوب، ج 1 ، ص 283

امیر المؤمنین علی (ع) سے روایت ہے کہ ام سلمہ کے گھر میں سورہ احزاب کی آیت 33 انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا نازل ہوئی تو پیغمبر نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے کہ وہ اس آیت کے مصداق ہیں۔

مجلسی، بحار الأنوار ج 36 ص 337

خزاز قمى، كفاية الأثر في النص على الأئمة الإثنی عشر، ص157

ابن عباس سے مروی ہے کہ نعثل نامی یہودی نے رسول اللہ (ص) کے جانشینوں کے نام پوچھے تو آپ (ص) نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے۔

سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، ج2، ص387 ، 392، باب 76

متعدد احادیث اور نصوص کے علاوہ امام رضا (ع) اپنے زمانے میں شیعوں کے درمیان مقبولیت عام رکھتے تھے اور علم و اخلاق میں اپنے خاندان کے افراد اور تمام امت کے افراد پر فوقیت اور برتری رکھتے تھے۔

یہ خصوصیات بھی آپ کی امامت پر دلیل بن سکتی ہیں۔ گو کہ امام موسی کاظم علیہ السلام کی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں امامت کا مسئلہ کافی حد تک پیچیدہ ہو چکا تھا لیکن امام کاظم علیہ السلام کے اکثر اصحاب اور پیروکاروں نے امام رضا علیہ السلام کو امام کاظم (ع) کا جانشین اور آپ کے بعد امام تسلیم کر لیا تھا۔

جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ص 427

امام رضا (ع) کے دور میں شیعوں کے اعتقادات:

امام کاظم (ع) کی شہادت کے بعد شیعوں کی اکثریت نے ساتویں امام کی وصیت اور دوسرے قرائن و شواہد کی بناء پر ان کے بیٹے علی ابن موسی الرضا (ع) کو آٹھویں امام کے طور پر قبول کر لیا تھا۔ آپ (ع) کی امامت کو قبول کرنے والے شیعہ جن میں امام کاظم (ع) کے بزرگ اصحاب شامل تھے، قطعیہ کے نام سے مشہور تھے۔

نوبختی، فرق الشیعہ، ص 79

لیکن امام کاظم (ع) کے اصحاب میں سے ایک گروہ نے بعض دلائل کی بنیاد پر علی ابن موسی الرضا (ع) کی امامت کو قبول کرنے سے انکار کیا اور امام موسی کاظم (ع) کی امامت پر توقف کیا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ موسی ابن جعفر (ع) آخری امام ہیں کہ جنہوں نے کسی کو اپنے بعد امام متعین نہیں کیا ہے یا کم از کم ہمیں اس بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ یہ گروہ واقفیہ (یا واقفہ) کے نام سے جانا جاتا تھا۔

مدینہ میں امام رضا (ع) کا مقام:

امام رضا (ع) نے اپنی امامت کے تقریبا 17 سال مدینے میں گزاریں، جہاں پر آپ (ع) لوگوں کے درمیان ایک ممتاز مقام کے حامل تھے۔ مأمون کے ساتھ اپنی ولایتعہدی کے بارے میں ہونے والی گفتگو میں امام (ع) خود اس بارے میں فرماتے ہیں:

میرے نزدیک اس ولایت عہدی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جس وقت میں مدینے میں ہوتا تھا تو میرا حکم مشرق و مغرب میں نافذ تھا اور جب میں اپنی سواری پر مدینے کی گلی کوچوں سے گزرتا تھا تو لوگوں کے یہاں مجھ سے زیاده محبوب شخصیت کوئی نہیں تھی۔

كلينی، الكافى، ج 8، ص 151

مدینے میں آپ (ع) کی علمی مرجعیت کے بارے میں بھی خود امام (ع) فرماتے ہیں:

میں مسجد نبوی کے دروازے پر بیٹھتا تھا اور مدینے میں موجود صاحبان علم جب بھی کسی مسئلے میں پھنس جاتے تھے تو میری طرف رجوع کرتے تھے اور اپنے اپنے مسائل کو میری طرف ارجاع دیتے تھے اور میں ان کا جواب دیتا تھا۔

طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ج 2، ص 64

خراسان کا سفر:

روایت ہے کہ امام رضا (ع) کی مدینہ سے مرو کی طرف ہجرت سن 200 ہجری میں انجام پائی۔

صدوق، عیون اخبار الرضا، ج 2 ، ص 473

مسعودي، اثبات الوصيہ، ص 391

رسول جعفریان لکھتے ہیں کہ: امام رضا (ع) سن 201 ہجری کو مدینہ میں تھے اور اسی سال رمضان کے مہینے میں مرو پہنچ گئے۔

جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ(ع)، ص 426

امام (ع) کی مرو منتقلی کے لیے مامون نے ایک خاص راستہ منتخب کیا تھا تا کہ آپ کو شیعہ اکثریتی علاقوں سے گزرنے نہ دیا جائے، کیونکہ وہ ان علاقوں میں لوگوں کے اجتماعات سے خوفزدہ تھا، جو امام کے ان علاقوں میں پہنچنے پر متوقع تھا۔ اس نے حکم دیا تھا کہ امام (ع) کو کوفہ کے راستے سے نہیں بلکہ بصرہ، خوزستان اور فارس کے راستے سے نیشاپور لایا جائے۔

مطہری، مجموعہ آثار، ج 18، ص 124

کتاب "اطلسِ شیعہ” کے مطابق امام رضا (ع) کو "مرو” لانے کے لیے مقررہ راستہ کچھ یوں تھا:

مدینہ، نقرہ، ہوسجہ، نباج، حفر ابو موسی، بصرہ، اہواز، بہبہان، اصطخر، ابرقوہ، دہ شیر (فراشاہ)، یزد، خرانق، رباط پشت بام، نیشاپور، قدمگاہ، دہ سرخ، طوس، سرخس، مرو۔

جعفریان، جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ(ع) ص 95

شیخ مفید کہتے ہیں: مامون نے خاندان ابو طالب (ع) کے بعض افراد کو مدینہ سے بلوایا جن میں امام رضا (ع) بھی شامل تھے۔

امام رضا (ع) کے علمی مناظرے:

امام رضا (ع) کو مرو منتقل کرنے کے بعد مامون نے مختلف مکاتب فکر اور ادیان و مذاہب کے دانشوروں اور امام (ع) کے درمیان مختلف مناظرات ترتیب دیئے جن میں زیادہ تر اعتقادی اور فقہی مسائل پر بحث و گتفگو ہوتی تھی۔ ان ہی میں سے بعض مناظرات کو امین الاسلام طبرسی نے کتاب الاحتجاج میں نقل کیا ہے۔

جعفریان، حیات فکرى و سیاسى ائمہ، ص 442

مناظرات کا تجزیہ:

مامون، امام رضا (ع) کو مختلف مکاتب فکر کے دانشوروں کے ساتھ بحث اور مناظرات میں الجھا کر لوگوں کے درمیان آئمہ اہل بیت کے بارے میں قائم عمومی سوچ جو انہيں علم لدنی کے مالک سمجھتے تھے کو ختم کرنا چاہتا تھا۔

شیخ صدوق لکھتے ہیں: مامون مختلف مکاتب فکر اور ادیان و مذاہب کے بلند پایہ دانشوروں کو امام (ع) کے سامنے لایا کرتا تھا تا کہ ان کے ذریعے امام (ع) کے دلائل کو ناکارہ بنا دے۔ یہ سارے کام وہ امام (ع) کی علمی اور اجتماعی مقام و منزلت سے حسد کی وجہ سے انجام دیتا تھا لیکن نتیجہ اس کے برخلاف نکل آیا اور جو بھی امام کے سامنے آتا، وہ آپ کے علم و فضل کا اقرار کرتا اور آپ کی طرف سے پیش کردہ دلائل کے سامنے لا جواب اور بے بس ہو کر انہیں تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتا تھا۔

عیون اخبار الرضا، ج1، ص 152

جب مامون کو اس بات کا علم ہوا کہ ان محفلوں اور مناظروں کا جاری رکھنا اس کے لیے خطر ناک ہو سکتا ہے، تو اس نے امام (ع) کو محدود کرنا شروع کر دیا۔

ابا صلت سے روایت ہے کہ جب مامون کو اطلاع دی گئی کہ امام رضا (ع) نے کلامی اور اعتقادی مجالس تشکیل دینا شروع کیں ہیں جس کی وجہ سے لوگ آپ کے شیدائی بن رہے ہیں تو اس نے محمد ابن عمرو طوسی کی ذمہ داری لگائی کہ وہ لوگوں کو امام (ع) کی مجالس سے دور رکھیں۔ اس کے بعد امام (ع) نے مامون کو بد دعا دی تھی۔

جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ (ع) ، ص 442

امام رضا (ع) شہادت کی پیشین گوئیاں اور زیارت کا ثواب:

رسول خدا (ص) نے فرمایا: بہت جلد میرے وجود کا ایک ٹکڑا خراسان میں دفن ہو گا، جس نے اس کی زیارت کی خداوند متعال جنت کو اس پر واجب اور جہنم کی آگ اس کے جسم پر حرام کرے گا۔

بحار الانوار، ج 49، ص 284، ح 3

بحوالہ صدوق، عیون اخبار الرضا، ج 2، ص 255

امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بہت جلد میرا ایک فرزند خراسان میں مسموم کیا جائے گا، جس کا نام میرا نام ہے اور اس کے باپ کا نام موسی (ع) کا نام ہے۔ جس نے غریب الوطنی میں اس کی زیارت کی خداوند اس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دے گا، خواہ وہ ستاروں اور بارش کے قطروں اور درختوں کے پتوں جتنے ہی کیوں نہ ہوں۔

بحار الانوار، ج 49، ص 284، ح 11

بحوالہ عیون اخبار الرضا، ج 2، ص 258- 259

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: خداوند میرے بیٹے موسی کو ایک فرزند عطا کرے گا جو طوس میں مسموم کر کے شہید کیا جائے گا اور غریب الوطنی میں دفن کیا جائے گا۔ جو اس کے حق کو پہچانے اور اس کی زیارت کرے، خداوند متعال اس کو ان لوگوں کا ثواب عطا کرے گا کہ جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے انفاق کیا ہے اور خیرات دی ہے اور جہاد کیا ہے۔

بحار الانوار، ج 49، ص 286، ح 10

بحوالہ عیون اخبار الرضا، ج 2، ص 255

امام رضا (ع) کی شہادت کے علل و اسباب:

مأمون ملعون نے کیوں امام کو قتل کروایا ؟ اس حوالے سے مختلف علل و اسباب ذکر کیے گئے ہیں:

مختلف ادیان و مذاہب کے دانشوروں کے ساتھ ہونے والے مناظروں میں امام (ع) کی برتری اور فوقیت۔

جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ص 443

امام رضا (ع) کی اقتداء میں نماز عید ادا کرنے کیلئے لوگوں کا جوق در جوق شرکت کرنا،

اس واقعے سے مامون بہت خائف ہوا اور سجھ گیا تھا کہ امام رضا (ع) کو ولیعہد بنانا اس کی حکومت کیلئے کس قدر خطر ناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی وجہ سے اس نے امام (ع) کی نگرانی کرنا شروع کر دی تا کہ کہیں اس کے خلاف کوئی اقدام نہ کرے۔

جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ص 444

دوسری طرف سے امام (ع) مامون سے کسی خوف و خطر کا احساس نہیں فرماتے تھے، اسی وجہ سے اکثر اوقات ایسے جوابات دے دیتے تھے کہ جو مامون کیلئے سخت ناگوار گزرتے تھے۔

یہ چیز مامون کو امام کے خلاف مزید بھڑکانے اور امام کے ساتھ مامون کی دشمنی کا باعث بنتی تھی اگرچہ مامون اس کا برملا اظہار نہیں کرتا تھا۔

جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ص 444

چنانچہ منقول ہے کہ مأمون ایک عسکری فتح کے بعد خوشی کا اظہار کر رہا تھا کہ امام (ع) نے فرمایا: اے امیر الممؤمنین! امت محمد اور اس چیز سے متعلق خدا سے ڈرو جسے خدا نے تیرے ذمے لگائی ہے، تم نے مسلمانوں کے امور کو ضائع کر دیا ہے….۔

عطاردی ،مسند الامام الرضا، ص 84 ، 85

امام رضا (ع) کی سیرت حسنہ:

عبادات میں آپ کی سیرت:

امام رضا (ع) کی عملی سیرت میں آیا ہے کہ آپ (ع) مختلف مکاتب فکر اور ادیان و مذاہب کے دانشوروں کے ساتھ ہونے والے گرما گرم مناظرات کے دوران بھی جیسے ہی اذان سنائی دیتی مناظرے کو متوقف فرماتے تھے اور جب مناظرے کو جاری رکھنے سے متعلق لوگ اصرار کرتے تو فرماتے:

نماز پڑھ کر دوبارہ واپس آتا ہوں۔

صدوق، عیون اخبار الرضا، ج 1 ص 172

رات کی تاریکی میں عبادات کی انجام دہی اور آپ (ع) کی شب بیداری سے متعلق متعدد روایات نقل ہوئی ہیں۔

صدوق، عيون أخبار الرضا، ج 2 ص 184

دعبل خزاعی کو اپنا کرتہ ہدیہ کے طور پر دیتے وقت اس سے مخاطب ہو کر فرمایا: اس کرتے کی حفاظت کرو ! میں نے اس کرتے میں ہزار راتوں میں ہزار رکعت نماز اور ہزار ختم قرآن انجام دیئے ہیں۔

طوسی، الامالی، ص 359

آپ کے طولانی سجدوں کے بارے میں بھی روایات نقل ہوئی ہیں۔

صدوق، عيون أخبار الرضا، ج 2 ص 17

اخلاق میں آپ کی سیرت:

لوگوں کے ساتھ آپ (ع) کی حسن معاشرت کے متعدد نمونے تاریخ میں نقل ہوئے ہیں۔ حتی مامون کی ولیعہدی قبول کرنے کے بعد بھی غلاموں اور ماتحتوں کے ساتھ محبت آمیز رویہ اختیار کرنا اور ان کو دسترخوان پر اپنے ساتھ بٹھانا۔

صدوق، عيون أخبار الرضا (ع)، ج 2 ص 159

اس سلسلے کی چند ایک مثالیں ہیں۔

ابن شہر آشوب نقل کرتے ہیں کہ ایک دن امام (ع) حمام تشریف لے گئے اور وہاں پر موجود افراد میں سے ایک جو امام کو نہیں پہچانتا تھا، امام سے مالش کرنے کی درخواست کی جسے آپ نے قبول فرمایا اور مالش کرنا شروع کیا، جب لوگوں نے یہ دیکھا تو اس شخص کیلئے آپ کی معرفی کی، جب وہ شخص اپنے کیے پر شرمندہ ہوا اور معذرت خواہی کی تو امام نے اسے خاموش کرایا اور مالش جاری رکھی۔

ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب ، ج 4 ص 362

تربیتی امور میں آپ کی سیرت:

آپ (ع) کی سیرت میں بچوں کی تربیت کے حوالے سے خاندان کے کلیدی کردار پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ اسی تناظر میں صالح اور نیک بیوی سے شادی کی ضرورت، حمل کے ایام میں خصوصی توجہ، اچھے ناموں کا انتخاب، اور بچوں کے احترام وغیرہ پر تاکید ہوئی ہے۔

کلینی، الکافی ، ج 5 ص 327

کلینی، الکافی ، ج 6 ص 23

کلینی، الکافی، ج 6 ص 19

نوری، مستدرک الوسائل ، ج 15 ص 170

اسی طرح رشتہ داروں کے ساتھ رفت و آمد اور ان کے ساتھ انس پیدا کرنا بھی آپ کی سیرت میں نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

اس حوالے سے منقول ہے کہ جب بھی امام کو فراغت حاصل ہوتی تو آپ اپنے رشتہ داروں؛ چھوٹے بڑے سب کو جمع کرتے اور ان کے ساتھ گفتگو میں مشغول ہوتے تھے۔

شيخ صدوق، عيون أخبار الرضا ، ج 2 ص 159

قال الرضا (ع):

لَا تَدَعُوا الْعَمَلَ الصَّالِحَ وَ الِاجْتِہادَ فِي الْعِبَادَۃ اتِّكَالًا عَلَى حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ (ع‏)؛ لَا تَدَعُوا حُبَّ آلِ مُحَمَّدٍ (ع) وَ التَّسْلِيمَ لِأَمْرِھمْ اتِّكَالًا عَلَى الْعِبَادَۃ فَإِنَّہ لَا يُقْبَلُ أَحَدُھمَا دُونَ الْآخَر،

آل ‌محمد (ص) کی دوستی کے بہانے نیک کاموں کی انجام دہی اور خدا کی عبادت میں سعی و تلاش سے دریغ مت کرو، اسی طرح اپنی عبادت پر مغرور ہو کر آل ‌محمد (ص) کی دوستی اور ان کے اوامر کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے پرہیز مت کرو، کیونکہ ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی دوسرے کے بغیر قابل قبول نہیں ہے۔

بحار الأنوار، ج 75 ص 348

تعلیم و تعلم میں آپ کی سیرت:

مدینے میں قیام کے دوران امام رضا (ع) مسجد نبوی میں تشریف فرما ہوتے اور مختلف سوالات اور مسائل میں جواب دینے سے عاجز آنے والے حضرات آپ سے رجوع کرتے تھے۔

طبرسی، اعلام الوری، ج 2 ص 64

"مرو” پہنچنے کی بعد بھی مناظرات کی شکل میں بہت سارے شبہات اور سوالوں کے جواب مرحمت فرماتے تھے۔ اس کے علاوہ امام (ع) نے اپنی اقامت گاہ اور مرو کی مسجد میں ایک حوزہ علمیہ بھی قائم کیا ہوا تھا لیکن جب آپ کی علمی محفل رونق پیدا کرنے لگا تو مامون نے انقلاب کے خوف سے ان محفلوں پر پابندی لگا دی جس پر آپ نے مامون کو بد دعا بھی دی تھی۔

صدوق، عیون اخبار الرضا ، ج 2 ص 172

طب اسلامی اور حفظان صحت کے اصولوں پر خصوصی توجہ دینا امام رضا (ع) کی احادیث میں نمایاں طور پر دیکھا جاتا سکتا ہے۔ ان احادیث میں اسی موضوع سے مربوط مفاہیم کی تبیین کے ساتھ ساتھ پرہیز، مناسب خوراک، حفظان صحت کی رعایت اور مختلف بیماریوں کے علاج کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے۔

رسالہ ذہبیہ نامی کتاب طب الرضا کے نام سے آپ کی طرف منسوب ہے، جس میں اس حوالے سے مختلف تجاویز پائی جاتی ہیں۔

امام رضا (ع) کا امامت کی بحث میں تقیہ نہ کرنا:

امام رضا (ع) کے دور امامت میں کسی حد تک تقیہ کی خاص ضرورت محسوس نہیں کی جاتی تھی کیونکہ واقفیہ کی پیدائش جیسے واقعے نے شیعوں کو ایک سنگین خطرے سے دوچار کیا تھا۔ اس کے علاوہ فطحیہ فرقے کے بچے کھچے افراد بھی امام رضا (ع) کے دور امامت میں فعال تھے۔

ان شرایط کو مد نظر رکھتے ہوئے امام (ع) نے کسی حد تک تقیہ کی حکمت عملی اپنانے سے پرہیز کرتے ہوئے، امامت کے مختلف ابعاد کو صراحت کے ساتھ بیان فرماتے تھے۔

مثلا امام کی اطاعت کا واجب ہونا، اگرچہ امام صادق (ع) کے دور سے دینی اور کلامی محافل میں بیان ہوتے تھے لیکن اس مسئلے میں ائمہ معصومین تقیہ کرتے تھے لیکن امام رضا (ع) جیسا کہ احادیث میں آیا ہے ظالم و جابر حکمرانوں سے کسی خوف کا احساس کیے بغیر اپنے آپ کو واجب الطاعۃ امام معرفی کرتے تھے۔

کلینی، الکافی ، ج 1 ص 187

جیسا کہ علی ابن ابی حمزہ بطائنی جو کہ واقفیہ مذہب کی بنیاد رکھنے والوں میں سے تھا،‌ نے جب امام سے سوال کیا: آیا کیا آپ واجب الاطاعت امام ہو ؟ تو امام نے فرمایا: ہاں ،

رجال کشی، ص 463

اسی طرح ایک اور شخص جس نے یہی سوال دہراتے ہوئے کہا: آیا علی ابن ابی طالب کی طرح واجب الاطاعت ہو ؟ نیز آپ نے یہی جواب دیا ہاں، میں اسی طرح واجب الاطاعت ہوں۔

کلینی، اصول کافی ، ج 1 ص 187

لیکن ساتھ ساتھ امام (ع) اپنے چاہنے والوں سے فرماتے تھے کہ تقوا اختیار کرو اور ہماری احادیث کو ہر کس و ناکس کے سامنے بیان کرنے سے پرہیز کرو۔

کلینی، الکافی ، ج 2 ص 224

اسی طرح جب مأمون نے امام (ع) سے اسلام ناب محمدی کے بارے میں بتانے کا مطالبہ کیا تو آپ نے توحید اور پیغمبر اسلام کی نبوت کے بعد امام علی (ع) کی جانشینی پھر آپ کے بعد آپ کی نسل سے گیارہ اماموں کی امامت پر تصریح فرماتے ہوئے فرمایا کہ امام القائم بامر المسلمین یعنی امام مسلمانوں کے امور کا اہتمام کرنے والا ہے۔

صدوق، عيون أخبار الرضا، ج‏ 2 ص 122

امام رضا (ع) سے منسوب کتابیں:

امام رضا (ع) سے متعدد حدیثیں نقل ہوئی ہیں اور جن لوگوں نے علوم و معارف کے مسائل سمجھنے کے لیے جو سوالات آپ سے پوچھے تھے، جن کے جوابات کتب حدیث میں نقل ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر شیخ صدوق نے ان حدیثوں اور جوابات کو اپنی کتاب عیون اخبار الرضا میں اکٹھا کیا ہے۔

علاوہ ازیں بعض تالیفات اور کتب بھی آپ سے منسوب کی گئی ہیں گو کہ اس انتساب کے اثبات کے لیے کافی و شافی دلیلوں کی ضرورت ہے چنانچہ ان میں سے بعض تالیفات کا انتساب ثابت کرنا ممکن نہیں ہے جیسے:

فقہ الرضا:

علماء اور محققین نے امام رضا (ع) سے اس کتاب کے انتساب کی صحت تسلیم نہیں کی ہے۔

فضل الله ، تحلیلی از زندگانی امام رضا (ع)، ترجمہ محمد صادق عارف، ص 187

رسالہ الذہبیہ:

امام رضا (ع) سے منسوب ہے جس کا موضوع "علم طبّ” ہے۔ مروی ہے کہ امام (ع) نے یہ رسالہ سن 201 ہجری میں لکھ کر مأمون کے لیے بھجوایااور مأمون نے رسالے کی اہمیت ظاہر کرنے کی غرض سے ہدایت کی کہ اسے سونے کے پانی سے تحریر کیا جائے اور اسے "دار الحکمہ” کے خزانے میں رکھا جائے اور اسی بناء پر اسے رسالہ ذہبیہ کہا جاتا ہے۔ بہت سے علماء نے اس رسالے پر شرحیں لکھی ہیں۔

فضل الله ، تحلیلی از زندگانی امام رضا (ع)، ترجمہ محمدصادق عارف، ص 191 ، 196

صحیفہ الرضا:

امام رضا (ع) سے منسوب دیگر تالیفات میں سے ہے کہ جو فقہ کے موضوع پر لکھی گئی ہیں گو کہ علماء کے نزدیک یہ انتساب ثابت نہيں ہو سکا ہے۔

فضل الله ، تحلیلی از زندگانی امام رضا (ع)، ترجمہ محمدصادق عارف، ص 196

محض الاسلام و شرائع الدین:

جسے امام رضا (ع) سے منسوب کیا گیا ہے ہے لیکن بظاہر امام (ع) سے اس کا انتساب قابل اعتماد نہیں ہے۔

فضل الله ، تحلیلی از زندگانی امام رضا (ع)، ترجمہ محمدصادق عارف، ص 197 ، 198

امام رضا (ع) کے اصحاب:

بعض اہل قلم نے 367 افراد کو آپ کے اصحاب اور راویان حدیث کے زمرے میں قرار دیا ہے۔

قرشی، حیاۃ الامام علی بن موسی الرضا (ع)، ج 2 ص 345

ان میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں:

یونس ابن عبد الرحمن

موفق (خادم امام رضا)

علی ابن مہزیار

صفوان ابن یحیی

محمد ابن سنان

زکریا ابن آدم

ریان ابن صلت

دعبل ابن علی

اہل سنت کے یہاں امام رضا (ع) کا مقام:

اہل ‌سنت کے بعض بزرگوں نے امام رضا (ع) کے نسب اور علم و فضل کی تعریف اور زیارت کیلئے حرم امام رضا (ع) جایا کرتے تھے۔

عسقلانی، تہذیب التہذیب ، ج 7 ص 389

یافعی، مرآۃ الجنان ، ج 2 ص 10

ابن حبان نے کہا ہے کہ وہ کئی دفعہ مشہد میں علی ابن موسی کی زیارت کیلئے گیا اور آپ سے توسل کے نتیجے میں اسکی مشکلات برطرف ہو جاتی تھیں۔

ابن حبان، الثقات ، ج 8 ص 457

اسی طرح ابن حجر عسقلانی نے نقل کیا ہے کہ ابو بکر بن خزیمہ کہ جو اہل حدیث کا امام ہے اور ابو علی ثقفی اہل سنت کے دیگر بزرگان کے ساتھ امام رضا (ع) کی زیارت کو گئے ہیں۔ راوی (جس نے خود اس حکایت کو ابن حجر کیلئے بیان کی) کہتا ہے کہ:

ابو بکر ابن خزیمہ نے اس قدر اس روضے کی تعظیم اور وہاں پر راز و نیاز اور فروتنی کا اظہار کیا کہ ہم سب حیران ہو گئے۔

عسقلانی، تہذیب التہذیب ، ج 7 ص 388

ابن نجار امام رضا (ع) کے علمی کمالات اور دینی بصیرت کے حوالے سے لکھتا ہے کہ:

آپ (ع) علم اور فہم دین میں ایک ایسے مقام پر فائز تھے کہ 20 سال کی عمر میں مسجد نبوی میں بیٹھ کر فتوا دیا کرتے تھے۔

ابن النجار، ذیل تاریخ بغداد ، ج 4 ص 135

عسقلانی، تہذیب التہذیب ، ج 7 ص 387

صلوات خاصہ امام رضا (ع):

اللهّمَ صَلّ عَلي عَلي بنْ موسَي الرّضا المرتَضي الامامِ التّقي النّقي و حُجّتكَ عَلي مَنْ فَوقَ الارْضَ و مَن تَحتَ الثري الصّدّيق الشَّهيد صَلَوةَ كثيرَةً تامَةً زاكيَةً مُتَواصِلةً مُتَواتِرَةً مُتَرادِفَه كافْضَلِ ما صَلّيَتَ عَلي اَحَدٍ مِنْ اوْليائِكَ.

يا أَبَا الْحَسَنِ يا عَلِىَّ بْنَ مُوسى أَيُّهَا الرِّضا يَا بْنَ رَسُولِ اللّهِ يا حُجَّةَ اللّهِ عَلى خَلْقِهِ يا سَيِّدَنا وَمَوْلينا إِنّا تَوَجَّهْنا وَاسْتشْفَعْنا وَتَوَسَّلْنا بِكَ اِلَى اللّهِ وَقَدَّمْناكَ بَيْنَ يَدَىْ حاجاتِنا يا وَجيهاً عِنْدَ اللّهِ اِشْفَعْ لَنا عِنْدَ اللّهِ۔۔۔۔

التماس دعا۔۔۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button