پاراچنار میں ایک ہی فریق فسادات کا ذمہ دار ہے، عابد حسینی
شیعہ نیوز : سابق سینیٹر کا ایک انٹرویو کے دوران کہنا تھا کہ یہ وہ مسجد ہے جسے 1917ء میں طوری قبیلے کے اس وقت کے عمائدین نے اہل سنت قبیلے جاجی کو خیر سگالی کے طور پر وقف کیا تھا۔ تاہم آگے جاکر اس معتدل قبیلے کی گرفت اس مسجد پر ڈھیلی پڑگئی اور اس پر بنیاد پرست اور سخت گیر قبائل منگل وغیرہ کی گرفت مضبوط ہوگئی۔ انہوں نے 1970ء میں مینار کی تعمیر کو بہانہ بنا کر اسی مسجد سے پاراچنار میں شیعہ سنی فسادات کا آغاز کر دیا۔ اسکے بعد 1987ء، 1996ء اور 2007ء میں بھی اسی مسجد سے فسادات پھوٹ پڑے۔
علامہ سید عابد حسین الحسینی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور اسکے بعد تحریک جعفریہ میں صوبائی صدر اور سینیئر نائب صدر کے عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ ایک طویل مدت تک تحریک کی سپریم کونسل اور آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن بھی رہے ہیں۔ 1997ء میں پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن منتخب ہوئے، جبکہ آج کل علاقائی سطح پر تین مدارس دینیہ کی نظارت کے علاوہ تحریک حسینی کے سرپرست اعلیٰ کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔
سوال : حال ہی میں فاٹا کو کے پی میں ضم کرکے ان علاقوں کو اضلاع میں تبدیل کیا گیا ہے، اس نئے نظام کے تحت ان علاقوں میں کونسی بنیادی تبدیلی آگئی ہے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی: بسم اللہ الرحمن الرحیم، فاٹا میں رائج بعض ظالمانہ قوانین سے تھک کر قبائلی عوام یہاں نظام میں تبدیلی کے خواہاں تھے، خصوصاً 40 ایف سی آر جیسے کالے اور ظالمانہ قانون کی وجہ سے قبائل فقط اور فقط قانون کی تبدیلی چاہتے تھے اور اس حوالے سے وہ کسی سوچ اور فکر کی تکلیف میں پڑنے کو تیار نہ تھے۔ چنانچہ نئے ڈھانچے اور قانون کو سٹڈی کئے بغیر اسے گلے لگا لیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ عوام و خواص سب کو احساس ہوچکا ہے کہ ایسے مہنگے نظام سے تو وہی پرانا نظام بہتر تھا۔
سوال : اس نئے نظام میں کونسی نئی بات آگئی جسے پاکر عوام کو اسی پرانے کالے قانون کا ارمان ہو رہا ہے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی: کافی ایسی باتین ہیں، جن کی وجہ سے عوام میں اسی نظام کی جانب میلان و رجحان بڑھ گیا ہے۔ ایک تو یہ کہ اضلاع میں انصاف کافی مہنگا ہوتا ہے۔ بالخصوص اپنے ایک معمولی مسئلے کیلئے سینکڑوں کلومیٹر دور ٹل یا پشاور جانا۔ اس کے علاوہ قبائل ایک خاص ثقافت و رواج کا نام ہے۔ جس میں بہت ساری خامیوں اور منفی پہلووں کے ساتھ کافی اچھی، اسلامی اور مثبت روایات بھی رائج ہیں۔ یہاں پردے کا سسٹم ہوتا ہے۔ عوام کی اکثریت کے اسلامی قوانین پر سختی سے کاربند ہونے کی بنا پر ایک چھوٹی اقلیت میں بھی اسلامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ مثلاً نشہ، فحاشی وغیرہ کا ارتکاب کھلم کھلا نہیں کرسکتے، جبکہ ضلع کی صورت میں باہر سے ہر طرح کے لچے لفنگے، نشئی اور فحاش لوگ آکر یہاں کے لوگوں پر ڈائریکٹ اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ ترقی کا جھانسہ دیکر عوام کی فکر تبدیل کی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے معاشرہ کے ایک بری سائڈ پر جانے کا شدید خدشہ موجود ہے۔
سوال : گذشتہ دنوں ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک رپورٹ میں یہ ظاہر کیا گیا کہ پاراچنار میں ایک مسجد کو دہشت گردوں نے شہید کر دیا تھا اور فوج نے 80 لاکھ روپے خرچ کرکے اسے از سر نو تعمیر کرکے نمازیوں کیلئے کھول دیا ہے، یہ کونسی مسجد ہے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی: یہ وہ مسجد ہے جسے 1917ء میں طوری قبیلے کے اس وقت کے عمائدین نے اہل سنت قبیلے جاجی کو خیر سگالی کے طور پر وقف کیا تھا، جبکہ خود اپنے لئے اس کے مغرب میں موجودہ مرکزی امام بارگاہ کے مقام پر نسبتاً ایک بڑی مسجد کی بنیاد ڈالی۔ تاہم آگے جاکر اس معتدل سنی قبیلے جاجیوں کی گرفت اس مسجد پر ڈھیلی پڑ گئی اور اس پر بنیاد پرست اور سخت گیر قبائل منگل وغیرہ کی گرفت مضبوط ہوگئی۔ یوں انہوں نے 1970ء میں مینار کی تعمیر کو بہانہ بناکر اسی مسجد سے پاراچنار میں شیعہ سنی فسادات کا آغاز کر دیا۔ اس کے بعد بھی وقتاً فوقتاً اسی مسجد کو استعمال کرکے فرقہ وارانہ فسادات کا آغاز ہوتا رہا۔ 1987ء، 1996ء میں اسی مسجد سے فسادات پھوٹ پڑے۔ بات یہاں تک پہنچ گئی کہ 12 ربیع الاول بمطابق یکم اپریل 2007ء کو عید میلاد النبی کے نام پر عید نظر منگل کی قیادت میں اسی مسجد سے جلوس برآمد ہوا، جنہوں نے تمام مسلمانوں بالخصوص پاراچنار کی 99 فیصد شیعہ آبادی کے جذبات کا لحاظ رکھے بغیر (نعوذ باللہ من ذالک) حسینیت مردہ باد، یزیدیت زندہ باد کے نعرے لگائے۔
جس کے ردعمل میں 6 اپریل کو جب ہمارے کچھ جوانوں نے جلوس نکالا تو اس مسجد کے موجودہ مینار سے ان پر فائرنگ کرکے جنگ کا آغاز کر دیا گیا۔ اس کے کچھ مہینے بعد 16 نومبر 2007ء کو اسی مسجد سے طالبان نے کارروائیاں شروع کیں اور حکومت کے ہوتے ہوئے پاراچنار کے مقامی طوری قبائل پر حملے شروع کئے۔ جس کے نتیجے میں یہاں ایک خونریز جنگ چھڑ گئی۔ مگر مقامی باشندوں نے طالبان اور ان کے سہولتکاروں کو شکست دیکر انہیں یہاں سے نکال دیا اور مسجد سمیت پورے پاراچنار کو ان کے نرغے سے واگزار کرایا۔ چنانچہ ٹی وی چینل کی یہ خبر اور خبر دینے والے کا بیان بالکل منافقت پر مبنی ہے۔ مسجد پر دہشت گردوں نے کوئی حملہ نہیں کیا ہے بلکہ انہی خبر دینے والے شرپسندوں نے دہشت گرد طالبان کو سہولت فراہم کرکے اس مسجد میں ٹھہرایا تھا اور اس مسجد سے بے گناہ اور مظلوم عوام پر حملے ہو رہے تھے۔
سوال : لڑائی میں صرف اسی مسجد کو نقصان پہنچا یا طوریوں کو بھی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔؟
علامہ سید عابد الحسینی: اس وقت انہیں (دہشتگردوں کو) مقامی انتظامیہ، خصوصاً اس وقت کے تحصیلدار محال ریحان وغیرہ کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ انہوں نے کئی دن تک چاروں طرف موجود طوری قبائل کو خوب نشانہ بنایا۔ مارٹر کے گولے پھینک کر سینکڑوں افراد کو قتل اور زخمی کر دیا اور ساتھ واقع مسجد اور امام بارگاہ کو بھی شدید نقصان پہنچایا گیا۔ امام بارگاہ کی دیواریں اور مسجد کے دو مینار آج بھی ان کی جارحیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں، جن پر گولیوں کے نشانات ابھی تک واضح ہیں اور یہ کہ اس مسجد کے مینار سے چونکہ فائرنگ ہو رہی تھی، چنانچہ جہاں سے فائرنگ ہوتی ہے، یعنی جہاں مورچہ ہو، اس مقام پر مقابل فریق جوابی فائرنگ کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ چنانچہ اس مسجد کا مینار بھی متاثر ہوا اور اس پر گولیوں کے نشانات پڑ گئے۔ فوج نے اسی متاثرہ مینار اور دیواروں پر موجود گولیوں کے نشانات مٹانے کیلئے رنگ روغن کرکے مرمت کی ہے۔ اکثریتی طوری قبائل کی مسجد و امام بارگاہ کو اسی حالت میں چھوڑ کر طالبان کے ان سہولتکاروں کی مسجد کو مرمت کرنے کو دہشتگرد عناصر ایک بار پھر غلط رنگ دیکر علاقے میں بدامنی پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں، جو کہ نہایت قابل مذمت ہے۔
سوال : مذکورہ ٹی وی چینل کا دعویٰ ہے کہ پاک فوج نے اس مسجد پر 80 لاکھ خرچہ کیا ہے۔ بتائیں آپکی مسجد اور امام بارگاہ کی تعمیر میں فوج نے کتنی کمک کی ہے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی: مجھے تو نہیں معلوم کہ انہوں نے کوئی کمک کی ہے یا نہیں۔ تاہم میں نے ایک بڑے پروگرام میں بریگیڈیئر پاک فوج کی موجودگی میں ان سے رو برو یہ شکایت کی تھی کہ مسجد جس کی بھی ہے، ہمارے لئے قابل احترام ہے۔ تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ فوج کو مسجد پر موجود گولیوں کے معمولی نشانات تو نظر آرہے ہیں، مگر صدہ، سیدانو کلی اور خیواص میں صفحہ ہستی سے مٹنے والی ہماری مساجد اور امام بارگاہیں انہیں نظر نہیں آ رہیں۔ ان پر انہیں رحم نہیں آرہا بلکہ یہاں تک کہ صدہ میں ہماری مسجد و امام بارگاہ میں لوگ غلاظت ڈال کر طوریوں کے جذبات سے کھیل رہے ہیںَ، فوج ان کی تعمیر تو کیا اس کے گرد 10 فٹ کی دیوار تعمیر کرکے گندگی سے بچانے کی بھی کوشش نہیں کرتی تو عرض یہ ہے کہ حکومت معمولی سی عدالت اور انصاف سے کام لے تو یہاں شیعہ اور سنیوں کے مابین کوئی تنازعہ نہیں رہے گا۔
سوال : امام بارگاہ کی تعمیر تو آپ لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے۔ اس حوالے سے سرکار کی جانب دیکھنا شاید قرین انصاف نہ ہو، کیا خیال ہے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی: بالکل ہماری ذمہ داری ہے، تاہم تحفظ فراہم کرنا اور تعمیر کا موقع فراہم کرانا انتظامیہ کا فرض بنتا ہے۔ یہی آپ ہی کی بات کو لیتے ہیں کہ ہمارا فرض ہے تو کیا یہ قرین انصاف ہے کہ ایک فریق کی صحیح سالم مسجد کا رنگ روغن کرانے پر حکومت اسی لاکھ خرچہ کرے، جبکہ اسی علاقے کے دوسری فریق کی صفحہ ہستی سے مٹنے والی مسجد و امام بارگاہ کی کوئی فکر نہ ہو، یہ کونسا انصاف ہے۔ آج ہمیں اجازت دیں، ہم اپنے ہی وسائل اور چندے سے کام شروع کرتے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس حوالے سے سرکار کی طرف سے کوئی سپورٹ نہیں ہے۔