مضامین

کیا ایران اور 1+5 کے مذاکرات ناکامی کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ (خصوصی مضمون)

تحریر: ثاقب اکبر

گذشتہ جمعہ 16 مئی 2014ء کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ایران اور 1+5 کے مذاکرات کا چوتھا دور اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ اس میں طرفین کی امیدیں پوری نہیں ہوسکیں اور طرفین اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ مغربی میڈیا نے زیادہ تر اس کے بارے میں یہ تاثر دیا ہے کہ یہ مذاکرات شکست سے دوچار ہوگئے ہیں اور آئندہ اگرچہ جون میں مذاکرات کا ایک اور دور ہونا قرار پایا ہے لیکن اس سے زیادہ امیدیں نہیں رکھی جاسکتیں۔ تقریباً 5 ماہ قبل ایران اور 1+5 کے اتحاد کے مابین جو عبوری معاہدہ طے پایا تھا، اس کے مطابق چھ ماہ کی مدت میں یعنی 20جون 2014ء تک طرفین کو کسی حتمی معاہدے تک پہنچنا ہے۔ یاد رہے کہ 1+5 میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین کے علاوہ جرمنی شامل ہیں۔

اگرچہ معاہدے میں یہ شق موجود ہے کہ طرفین اس مدت میں باہمی رضامندی سے اضافہ کرسکتے ہیں، تاہم پانچ ماہ قبل جس دستاویز پر دستخط ہوئے اس کے مطابق ایران کو جن شرائط کو پورا کرنے کے لیے کہا گیا تھا، اس نے اس پر مو بہ مو یعنی 100 فیصد عمل کرکے معاہدے کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ (Commitment) اور سنجیدگی ثابت کر دی تھی، لیکن اس کے مقابلے میں مغربی ممالک کو ایک بینک چینل کی سہولت فراہم کرنا تھی، تاکہ ایران اس کے ذریعے سے اپنی غذائی ضروریات فراہم کرسکے، لیکن ایران سے کئے گئے معاہدے کو مغربی طاقتوں نے پورا نہیں کیا۔ اس کے بعد یہ بات واضح تھی کہ امریکہ اور اس کی حواری طاقتیں مذاکرات میں ایسا طرز عمل اختیار کریں گی، جس کے نتیجے میں ایران پر عائد کی گئی اقتصادی پابندیاں برقرار رکھی جاسکیں۔ مئی کے دوسرے ہفتے میں ویانا میں ہونے والے مذاکرات میں جو موضوعات اٹھائے گئے، ان سے مغربی طاقتوں کی نیتیں ایک مرتبہ پھر آشکار ہوجاتی ہیں۔

امریکی روزنامہ اکانومسٹ نے امریکی صدر باراک اوباما کے سابق مشیر گرے سیمور کے حوالے سے لکھا ہے کہ مغرب اور ایران کے مابین تین موضوعات پر اختلاف رائے باقی ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایران کی خواہش یہ ہے کہ طرفین کے مابین جو خصوصی معاہدہ طے پائیں، اس کی مدت زیادہ سے زیادہ 5 برس ہو، جبکہ مغرب کی خواہش ہے کہ اس کی مدت 10 تا 20 سال کے درمیان ہو۔ اس کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ اصولی طور پر NPT پر دستخط کرنے کے بعد ایران اپنی اقتصادی، سائنسی، طبی اور زرعی ضروریات کے لئے یورینیم کے افزودگی اور جوہری تجربات اور پیش رفت کا حق رکھتا ہے، البتہ NPT پر دستخط کرنے کے بعد کوئی ملک بھی جوہری ہتھیار نہیں بنا سکتا۔ جہاں تک جوہری ہتھیار بنانے کا تعلق ہے، امریکی اور دیگر انٹیلی جنس ادارے بار بار یہ امر واضح کرچکے ہیں کہ ایران نے جوہری ہتھیار بنانے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا۔ لہٰذا اصولی طور پر اس مقصد کے لئے خصوصی مذاکرات کی ضرورت نہیں اور ایران جوہری حوالے سے پرامن مقاصد کے لئے فعالیت کا حق رکھتا ہے۔

لیکن امریکہ نے ایران کے خلاف جو جنجال کھڑا کیا ہے اور جس کے مطابق ایران کے بارے میں شکوک پیدا کرکے اور اس امکان پر زور دے کر کہ ایران کہیں آئندہ جوہری اسلحہ نہ بنا لے، اُس پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ انہی پابندیوں کے خاتمے کے لیے ایران دنیا کی ان طاقتوں کے سامنے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ اس کا جوہری ہتھیار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں، خصوصی مذاکرات کے لیے تیار ہوا ہے اور اس مقصد کے لیے اس نے غیر روایتی طور پر بعض پابندیوں کو قبول کرنے کے لئے اپنی آمادگی کو ظاہر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ یہ چاہتا ہے کہ ایران پر خصوصی پابندیاں زیادہ مدت کے لئے کارگر نہ ہوں، بلکہ جب دنیا کے سامنے یہ امر مزید واضح ہوجائے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کے درپے نہیں تو پھر اس کے ساتھ معمول کے مطابق سلوک کیا جائے اور اسے NPT پر دستخط کرنے والے دیگر ممالک کی طرح سمجھا جائے، جب کہ امریکہ اور اس کے حواری یہ چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی بہانے سے ایران پر خصوصی پابندیوں کا سلسلہ طویل سے طویل تر ہوتا جائے۔

دوسرا اختلاف جس کی طرف گرے سیمور نے اشارہ کیا ہے، وہ یورینیم کی افزودگی کی سطح اور اس سے متعلقہ دیگر پہلوؤں سے ہے۔ مثلاً امریکہ یہ چاہتا ہے کہ ایران کے پاس 3 سے 4 ہزار تک سینٹری فیوجز فعال ہوں، جبکہ ایران کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی اقتصادی ضروریات کے لیے 19 ہزار سینٹری فیوجز ہونا چاہئیں۔ یہ امر واضح ہے کہ 3 سے 4 ہزار تک کی شرط قبول کرنے کے بعد گویا ایران کو اپنی جوہری سرگرمیاں کاملاً بند کرنا پڑیں گی اور اس کے اقتصادی منصوبوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

تیسرا اہم اختلاف جس کی طرف گرے سیمور نے اشارہ کیا ہے وہ ایران پر عائد کی گئی پابندیاں اٹھانے کے طریقہ کار سے متعلق ہے۔ اس کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ ایران یہ چاہتا ہے کہ جب حتمی معاہدے کی دستاویز پر دستخط ہوجائیں تو پھر فوری طور پر طرفین اس پر عمل درآمد کے پابند ہوں اور ایران پر عائد کی گئی تمام پابندیوں کا فوری طور پر خاتمہ ہو جائے، لیکن امریکہ چاہتا ہے کہ پابندیوں کی تلوار کسی نہ کسی طریقے پر ایران پر لٹکتی رہے۔ اس اثناء میں امریکہ مختلف مطالبات کرتا رہے اور ایران پر دباؤ بڑھاتا رہے، یہاں تک کہ ایران تمام امور میں امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دے۔ باخبر ذرائع نے اس مسئلے کی طرف بھی متوجہ کیا ہے کہ یورپی یونین کے بعض ممالک اور روس کا طرز عمل نسبتاً مختلف ہے، لیکن امریکہ کی طرف سے جو رویہ اختیار کیا جا رہا ہے، وہ مذاکرات کی کامیابی کے راستے میں حائل ہے۔

یہ امر قابل
ذکر ہے کہ امریکہ ان مذاکرات میں ایسے نئے سے نئے امور اور شرائط کا ذکر لے کر آجاتا ہے کہ جن کا اصل موضوع سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مثلاً امریکہ کو ایران کی میزائل صلاحیت پر بھی اعتراض ہے، جبکہ میزائل ٹیکنالوجی کا جوہری ہتھیاروں کے بنانے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ امریکہ کی طرف سے ایسے مطالبات کئے جاتے ہیں کہ جن کے قبول کئے جانے کے نتیجے میں اس کے جاسوسوں کو ایرانی فوجی تنصیبات کے علاوہ ایٹمی سائنس دانوں تک رسائی حاصل ہوجائے۔

یہ امر واضح ہے کہ 35 برس سے امریکہ اور اس کے حواریوں کی طرف سے عائد کی جانے والی طرح طرح کی پابندیوں کے باوجود ایرانی حکومت اور اس کے عوام صبر اور حوصلے کے ساتھ ہر امتحان سے کامیابی سے گزرے ہیں۔ اس دوران میں ایران نے زندگی کے تمام پہلوؤں میں حیران کن پیش رفت کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایران خطے کے اور دیگر ممالک کے لئے جرأت اور استقلال کی مثال اور نمونے کی حیثیت رکھتا ہے۔ انقلاب اسلامی کے اثرات دنیا بھر میں عموماً اور ایران کے گردوپیش میں خصوصاً محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ جن آنکھوں نے دو تین دہائیوں پہلے اور آج کا ایران دیکھا ہے، وہ گواہی دیں گی کہ ایران نے پابندیوں کے دوران نہ فقط جینا سیکھا ہے بلکہ ترقی و کمال کی منزلوں کو بھی چھو کر دکھا دیا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ مذاکرات میں حصہ لے کر ایران نے دنیا پر پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ بات چیت کے ذریعے عالمی مسائل حل کرنے پر یقین رکھتا ہے اور اس کی قیادت اور نظام دنیا کے لئے امن و خیر خواہی کا جذبہ رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں مذاکرات میں حصہ لے کر ایران نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ وہ جوہری اسلحہ بنانے کے درپے نہیں ہے اور اس سلسلے میں اس کے خلاف تمام تر پراپیگنڈا جھوٹ اور بدنیتی پر مبنی ہے۔ مذاکرات میں ایران کی شرکت نے امریکہ اور اس کے حواریوں کی ماہیت کو بھی مزید آشکار کر دیا ہے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ کسی بڑی عالمی یا داخلی تبدیلی کے بغیر امریکی قیادت اپنا طرز عمل تبدیل کرے گی، کیونکہ سرمایہ داری نظام نے اس کے حکمرانوں کو بے رحم بنا دیا ہے۔ وہ اپنے عوام پر بھی رحم کھانے کے لیے تیار نہیں، چہ جائے کہ دوسروں کے لئے ان سے یہ توقع کی جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button