1 شعبان، ولادت عقیلہ بنی ہاشم حضرت زینب ؑ مبارک ہو
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) حضرت زینب (س) کی ولادت با سعادت کے اس موقع پر مسرت پر شیعہ نیوز نیٹ ورک اپنے تمام سامعین ناظرین اور چاہنے والوں کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتا ہے۔
کربلا کی شیر دل خاتون حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا 5 جمادی الاول 1438 هجری قمری کو اس دنیا میں تشریف لائیں۔
آپ کا نام بھی آپ کے جد نامدار حضرت محمدؐ نے “زینب” رکھا؛ یعنی باپ کی زینت۔ آپ کے مختلف القابات میں سے “عقیلہ” سب سے مشہور ہے۔ آپ ماں باپ دونوں طرف سے ہاشمی ہیں۔
حضرت فاطمۃ الزہراء کی بیٹی حضرت زینب (س) وہ عظیم ہستی ہیں کہ چودہ سو سال گزر جانے کے باوجود آج تک آپ کا کوئی ثانی نہیں۔ اس میں جہاں آپ کے نسب کا اثر ہے تو ساتھ ہی حسب بھی بے مثل ہے۔ وراثت، نسب، حافظہ، معاشرہ اور ارادے سے مربوط تمام عوامل جو ایک انسان کی تقدیر ساز حیثیت کی حامل ہیں، بطور اتم آپ میں موجود تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ حیا میں حضرت خدیجہ (س) کی مانند، عفت میں اپنی مادر گرامی حضرت فاطمہ (س) جیسی اور فصاحت و بلاغت میں اپنے والد گرامی کی شبیہ تھیں، حلم اور غیر معمولی صبر میں آپ اپنے بھائی حضرت حسنؑ سے مشابہت رکھتی تھیں اور بہادری و قوت قلبی میں آپ حضرت حسینؑ کی مانند تھیں۔
آپ کی نشو و نما مدینے میں حضرت علیؑ، حضرت فاطمہ (س)، حضرت حسنؑ اور حضرت حسینؑ کے ہاں انجام پائی۔ ابتدا میں آپ نے رسول خدا (ص) کے نور کے سائے میں پھر حضرت فاطمہ (س) و حضرت علیؑ کے زیر سایہ پرورش پائی۔ بنابرایں آپ نے رسالت و امامت کے گھرانے میں آنکھ کھولی اور آپ نبوی، علوی اور فاطمی خصائص و کمالات کی وارث قرار پائیں۔
آپؑ نے کوفہ میں اسیری کی حالت میں جو خطبے دیئے، ان سے بنو امیہ کے ہاتھوں کربلا میں سیدالشہداء کی شہادت اور دوسرے تمام جرائم کا پردہ چاک ہوا۔ آپؑ نے بنو امیہ کے فریب، دھوکے اور ان کے ظلم و ستم کی حقیقت کو فاش کیا۔ ظالم، غاصب اور فریب کار حاکموں کی طاقت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔
حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا راتوں کو عبادت کرتی تھیں اور اپنی زندگی میں کبھی بھی تہجد کو ترک نہیں کیا۔ اس قدر عبادت پروردگار کا اہتمام کرتی تھیں کہ عابدہ آل علیؑ کہلائیں۔
حضرت زینب سلام اللہ علیہا بچپن سے ہی حضرت امام حسین علیہ السلام سے خاص محبت رکھتی تھیں اور آخری دم تک آپ نے اس محبت میں کمی آنے نہیں دی ۔
حضرت علی علیہ السلام کی بہادر بیٹی زینب کبرٰی علیہا السلام کا اگر کربلا میں کردار نہ ہوتا تو عشق حقیقی کا ایک باب تکمیل تک نہیں پہنچ پاتا اور کربلا کربلا ہی میں دفن ہو جاتی۔