10 رمضان یوم شہادت اُم المومنین عقیلۃ عرب جناب سیدہ خدیجہ الکبریٰ
بعثت نبوی کے دسویں سال،شعب ابی طالب کا محاصرہ ختم ہوا اور خانوادۂ ابوطالب آزاد ہوا۔محبوب خدا کے لئے یہ سال اور بھی ذیادہ تکلیف دہ ثابت ہوااور آپ کے دونوں مضبوط سہارے خدا کو پیارے ہو گئے۔ماہ رجب المرجب دس نبوی میں سردار عرب سیدنا ابو طالب نے وصال فرمایااور آپ کے صرف تین ماہ بعددس رمضان المبارک کو عالمی تاریخ کا دھارا موڑ دینے والی عرب کی یہ نامور خاتون،ام المومنین ،ام الزھرا،سیدہ طاہرہ خدیجہ الکبریٰ ،شعب ابی طالب کی سختیوں کے باعث،شہادت عظمٰی کے منصب جلیلہ پر فائز ہوئیں۔پیغمبر اسلام کے گھر کے دو روشن چراغ، مکہ کے اندھیروں میں روشنی پھیلاتے واصل بحق ہو گئے۔ہادیء اکبر کے آرام کی گود نہ رہی،سکون مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سایۂ محبت و الفت نہ رہا ۔حفاظتی تلوار نہ رہی،دعائیں دینے والی زباں نہ رہی ،حصار محمدی کا مضبوط قلعہ نہ رہا۔وہ رفیقۂ حیات نہ رہیں جن کی چشم محبت فرش راہ ہوا کرتی تھی۔پناہ گاہ ِرسالت نہ رہی۔محبوبۂ رسول نہ رہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہر طرح کا سہارا دیا تھا ۔مونس و غمگسار ،شفیق مربی ،سردار عرب بھی تشریف لے گئے۔ ان دونوں محترم ہستیوں کی یکے بعد دیگرے اموات نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پہ گہرا اثر فرمایا اورآپ رنج والم سے نڈھال ہو گئے۔ اس غم والم اور درد و کرب کے باعث اس سال کو آپ نے ’’عام الحزن‘‘ قرار دیا۔
حضور کی ذات بابرکات پر تمام دولت نچھاور فرمادینے والی خدیجہ نے آخری لمحات میں اپنی لخت جگر سیدہ فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیھا کو بارگاہ نبوی میں بھیجا اور درخواست کی کہ میں نے ساری دولت اسلام کے رستے پر خرچ کر دی ہے،اگر میرے پاس کفن کے پیسے ہوتے تو میں آپ کو قطعاً مجبور نہ کرتی ،آپ اپنے دوش اطہر کی چادر میرے کفن کے لئے عطا کر دیں۔