مضامین

11ذیقعدةالحرام: ولادت با سعادت امام رضا علیہ السلام مبارک

imam ali ibn musa raza a s-آپ کا نام گرامی علی کنیت ابو الحسن اور مشہور لقب "رضا” ہے ۔ آپ آٹھویں امام اور دسویں معصوم ہیں آپ کی ولادت کا سال ۱۴۸ یا ۱۵۳ ہے اور تاریخ ولادت ۱۱ ذیقعدہ ہے ۔

چونکہ مولائے کائنات علیہ السلام کی کنیت بھی ابو الحسن تھی اس لئے آپ کو ابوالحسن ثانی کہتے ہیں ۔ آپ کا مشہور لقب رضا ہے جس کے لئے عیون اخبار الرضا میں روایت ہے کہ آپ کے اس لقب سے ملقب ہونے کی وجہ یہ تھی کہ دوست اور دشمن سب آپ کی ولایتعہدی سے راضی تھے جبکہ آپ کے علاوہ آپ کے اجداد میں کسی کے ساتھ ایسا نہیں ہوا تھا ۔ آپ کی والدہ افریقا کی رہنے والی ام ولد تھیں ۔
آپ کی علمی و اخلاقی شخصیت
آپ کا زہد و اخلاق اور علمی و معنوی شخصیت اور شیعوں کا آپ پر اعتقاد باعث ہوا کہ نہ صرف مدینہ میں بلکہ تمام عالم اسلام میں آپ خاندان رسالت کی سب سے محبوب شخصیت قرار پائیں اور مسلمان آپ کو سب سے بڑا دینی پیشوا سمجھیں اور آپ کا نام صلوات و سلام کے ساتھ لیں ۔ پچیس سال سے کم عمر میں آپ مسجد النبی (ص) میں بیٹھ کر فتویٰ دیا کرتے تھے ۔ آپ کا علم بہت زیادہ تھا اور آپ کا چلن پیغمبر کی طرح تھا آپ کا حلم و احسان ہر خاص و عام کے شامل حال تھا ۔ کسی کو بھی اپنی زبان و بیان سے رنجیدہ خاطر نہیں کرتے تھے ، جب تک مخاطب کی بات تمام نہ ہو درمیان میں نہیں بولتے تھے ، کسی ضرورتمند کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے تھے ، مہمانوں کے سامنے تکیہ نہیں کرتے اور پاؤں نہیں پھیلاتے تھے ، کبھی غلاموں اور خدمتگزاروں کو برا بھلا نہیں کہتے اور ان کے ساتھ کھانا کھاتے ، رات کو کم سوتے اور قرآن کی تلاوت بہت زیادہ کیا کرتے تھے ، رات کی تاریکی میں مدینہ کی گلیوں میں نکلتے اور غریب و محتاج لوگوں کی مدد کرتے تھے ، ہمیشہ پاک صاف رہتے اور عطر لگاتے تھے ، معمولاً کم قیمت کے موٹے کپڑے پہنتے تھے لیکن جب کہیں جاتے یا کسی سے ملاقات کرنی ہوتی تو فاخر لباس زیب تن کرتے ، کھانا سادہ اور کم کھاتے تھے اور ہر موقع پر مسلمانوں کو ان کے فرائض و وظائف کی جانب متوجہ کرتے رہتے تھے ۔
حدیث سلسلۃ الذہب
مشہور ہے کہ جب آپ شہر نیشابور پہنچے تو طلاب علم و محدثین نے آپ کے اطراف حلقہ کر لیا جبکہ آپ اونٹ پر سوار تھے اور آپ سے درخواست کی کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی حدیث بیان فرمائیں ۔ آنحضرت نے اپنے آباء و اجداد کے حوالے سے رسول خدا(ص) سے جنہوں نے جبرئیل کے ذریعہ خداوند عالم کا یہ قول نقل فرمایا ” کلمۃ لا الٰہ الا اللہ حصنی و من دخل حصنی امن من عذابی ” یعنی کلمہ لا الٰہ الا اللہ ایک قلعہ ہے جو اس میں داخل ہو جائے گا وہ عذاب الٰہی سے نجات پا جائے گا ۔
چونکہ اس حدیث کے سارے سلسلے معصوم ہیں اس لئے یہ حدیث سلسلۃ الذہب کے نام سے مشہور ہوئی اور اس حدیث کو اس شہر میں نقل کرنے کی وجہ بھی یہ تھی کہ مسلمانوں کو توحید اور وحدت کی جانب دعوت دیں تاکہ اس کلمہ کے ذریعہ تمام مسلمان اختلاف سے بچیں اور ہر طرح کی تشویش و عذاب سے محفوظ رہیں ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button