مضامین

12 تا 17 ربیع الاول ہفتہ وحدت، حضرت امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کا عظيم کارنامہ

شیعہ نیوز ( پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ ) کسي بھي قوم، معاشرہ، دين يا افراد کي ترقي و عروج و کمال اس کے اتحاد، وحدت، اخوت اور برادرانہ تعلقات ميں پنہاں ہوتا ہے جب کہ اس کے مقابل زوال، سرنگوني اور پستي باہمي اختلاف، تفرقہ اور تقسيم کا مرہون منت کہا جاسکتا ہے- ازل سے يہ اصول واضح و روشن ہے کہ اتحاد و وحدت رشد و ترقي اور کاميابي کي ضمانت ہيں، تاريخ ميں جن قوموں اور گروہوں ميں اتحاد و وحدت پائي جاتي تھي، انہوں نے ہي کاميابي کے جھنڈے گاڑے، اس بات کو اس انداز ميں بھي ديکھا جاسکتا ہے کہ جن قوموں نے ترقي و عروج پايا اور اپنے نام کا سکہ چلايا، ان کي کاميابيوں کے پس پردہ راز اتحاد و وحدت کي قوت ہي تھي-

اسلام جو دين فطرت ہے، اس کي تعليمات و احکام خداوندي خالق و مالک کي حکمت و تدبير کے عکاس ہيں، قرآن مجيد جسے آفاقي و جاويداني کتاب کا درجہ حاصل ہے، اس ميں بھي اس موضوع کو بڑي صراحت کے ساتھ بيان کيا گيا ہے، اتحاد کي طاقت اور تفرقہ کے نقصانات بيان کئے گئے ہيں، اسلام کے پيروکاروں کو اتحاد کي تاکيد کي گئي ہے اور تفرقہ سے بچنے کا کہا گيا ہے، سورہ آل عمران ميں ارشاد خداوندي ہے : اور تم سب مل کر اللہ کي رسي کو مضبوطي سے تھام لو اور تفرقہ ميں نہ پڑو، اور تم اللہ کي اس نعمت کو ياد کرو کہ جب تم ايک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں ميں الفت ڈالي اور اس کي نعمت سے تم آپس ميں بھائي بھائي بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ گئے تھے کہ اللہ نے تمہيں اس سے بچا ليا، اس طرح اللہ اپني آيات کھول کر تمہارے لئے بيان کرتا ہے، تاکہ تم ہدايت حاصل کرو- قرآن مجيد ميں اس پہلو پر سورہ حجرات ميں بيان کيا گيا ہے؛ بے شک مومنين آپس ميں بھائي بھائي ہيں، پس اپنے بھائيوں کے درميان صلح کراو اور تقويٰ اختيار کرو، شائد خدا کي محبت تمہارے شامل حال ہوجائے-

اگر ہم گذشتہ صدي کے حالات کا جائزہ ليں تو ہميں ايک شخصيت ايسي نظر آتي ہے، جس نے امت کو اتحاد و وحدت کي عملي دعوت دي، ان کا کہنا تھا کہ امت کے تمام مسائل کا حل اتحاد و وحدت ميں پنہاں ہے، اگر امت ايک ہوجائے تو اس کي طاقت کا مقابلہ کوئي نہيں کرسکے گا اور مسلمان ايک ايسي قوم کي شکل ميں سامنے آئيں گے جن کا مقابلہ کوئي نہيں کرسکے گا، دنيا اس ہستي کو حضرت امام خميني کے نام سے ياد کرتي ہے، حضرت امام خميني جو انقلاب اسلامي ايران کے باني ہيں، انہوں نے انقلاب سے قبل اور انقلاب کے بعد زيادہ شدت اور تاکيد سے اس حوالے سے کام کيا اور امت کو ايک لڑي ميں پرونے کي عملي کوششيں کيں- امام خميني اگرچہ ممالک اور اسلامي رياستوں کي سرحدوں کا احترام کرتے تھے، مگر وہ اس کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کو ايک قوت اور ايک وحدت ميں ديکھنے کے خواہشمند بھي تھے وہ ايک ايک فرد قوم کو اتحاد کي لڑي ميں پرويا ديکھنا چاہتے تھے، کسي شاعر نے کيا خوب کہا ہے۔

کسي بھي قوم، معاشرہ، دين يا افراد کي ترقي و عروج و کمال اس کے اتحاد، وحدت، اخوت اور برادرانہ تعلقات ميں پنہاں ہوتا ہے جب کہ اس کے مقابل زوال، سرنگوني اور پستي باہمي اختلاف، تفرقہ اور تقسيم کا مرہون منت کہا جاسکتا ہے- ازل سے يہ اصول واضح و روشن ہے کہ اتحاد و وحدت رشد و ترقي اور کاميابي کي ضمانت ہيں، تاريخ ميں جن قوموں اور گروہوں ميں اتحاد و وحدت پائي جاتي تھي، انہوں نے ہي کاميابي کے جھنڈے گاڑے، اس بات کو اس انداز ميں بھي ديکھا جاسکتا ہے کہ جن قوموں نے ترقي و عروج پايا اور اپنے نام کا سکہ چلايا، ان کي کاميابيوں کے پس پردہ راز اتحاد و وحدت کي قوت ہي تھي-

اسلام جو دين فطرت ہے، اس کي تعليمات و احکام خداوندي خالق و مالک کي حکمت و تدبير کے عکاس ہيں، قرآن مجيد جسے آفاقي و جاويداني کتاب کا درجہ حاصل ہے، اس ميں بھي اس موضوع کو بڑي صراحت کے ساتھ بيان کيا گيا ہے، اتحاد کي طاقت اور تفرقہ کے نقصانات بيان کئے گئے ہيں، اسلام کے پيروکاروں کو اتحاد کي تاکيد کي گئي ہے اور تفرقہ سے بچنے کا کہا گيا ہے، سورہ آل عمران ميں ارشاد خداوندي ہے : اور تم سب مل کر اللہ کي رسي کو مضبوطي سے تھام لو اور تفرقہ ميں نہ پڑو، اور تم اللہ کي اس نعمت کو ياد کرو کہ جب تم ايک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں ميں الفت ڈالي اور اس کي نعمت سے تم آپس ميں بھائي بھائي بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ گئے تھے کہ اللہ نے تمہيں اس سے بچا ليا، اس طرح اللہ اپني آيات کھول کر تمہارے لئے بيان کرتا ہے، تاکہ تم ہدايت حاصل کرو- قرآن مجيد ميں اس پہلو پر سورہ حجرات ميں بيان کيا گيا ہے؛ بے شک مومنين آپس ميں بھائي بھائي ہيں، پس اپنے بھائيوں کے درميان صلح کراو اور تقويٰ اختيار کرو، شائد خدا کي محبت تمہارے شامل حال ہوجائے-

اگر ہم گذشتہ صدي کے حالات کا جائزہ ليں تو ہميں ايک شخصيت ايسي نظر آتي ہے، جس نے امت کو اتحاد و وحدت کي عملي دعوت دي، ان کا کہنا تھا کہ امت کے تمام مسائل کا حل اتحاد و وحدت ميں پنہاں ہے، اگر امت ايک ہوجائے تو اس کي طاقت کا مقابلہ کوئي نہيں کرسکے گا اور مسلمان ايک ايسي قوم کي شکل ميں سامنے آئيں گے جن کا مقابلہ کوئي نہيں کرسکے گا، دنيا اس ہستي کو حضرت امام خميني کے نام سے ياد کرتي ہے، حضرت امام خميني جو انقلاب اسلامي ايران کے باني ہيں، انہوں نے انقلاب سے قبل اور انقلاب کے بعد زيادہ شدت اور تاکيد سے اس حوالے سے کام کيا اور امت کو ايک لڑي ميں پرونے کي عملي کوششيں کيں- امام خميني اگرچہ ممالک اور اسلامي رياستوں کي سرحدو
ں کا احترام کرتے تھے، مگر وہ اس کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کو ايک قوت اور ايک وحدت ميں ديکھنے کے خواہشمند بھي تھے وہ ايک ايک فرد قوم کو اتحاد کي لڑي ميں پرويا ديکھنا چاہتے تھے، کسي شاعر نے کيا خوب کہا ہے۔

حضرت امام خميني نے انقلاب اسلامي کے بعد امت اسلامي کو ولادت باسعادت خاتم الانبياء، معلم انسانيت، رحمۃاللعالمين حضرت محمد مصطفٰي کے عظيم موقع کو باہمي اختلاف سے نجات کا ذريعہ قرار ديتے ہوئے ايک ايسا پيغام ديا، جس کو امت کے مخلص و سنجيدہ طبقات نے ايک نعمت سے تعبير کيا- امام خميني نے بارہ تا سترہ ربيع الاول کو پورا ہفتہ بطور ہفتہ وحدت منانے کا حکم ديا اور اس پيغام کو دنيا بھر ميں پہنچايا، امام خميني کے اس پيغام کو عالمي سطح پر نہ صرف سراہا گيا بلکہ مختلف ممالک ميں آپ کے نمائندگان نے اس کو عملي شکل دي اور استعمار کي جانب سے امت کو فرقوں ميں تقسيم کرنے اور باہم لڑانے کي سازش کو ناکام بنا ديا اور ہر طرف اخوت، بھائي چارے، يکجہتي و اتحاد کے عملي مظاہر کے لئے يہ موقع فراہم کيا- ماہ ربيع الاول جو رسول خدا خاتم الانبياء سے منسوب مہينہ ہے، اس ميں امت کے سرکردہ علماء و دانشوران کو قرآني پيغام وحدت کو عام کرنا چاہيئے، تاکہ باہمي لڑائيوں اور جھگڑوں سے امت کمزور نہ ہو اور دشمن اس سے فائدہ نہ اٹھاسکے-

قرآن مجيد ہميں دعوت ديتا ہے کہ؛ خدا و اس کے رسول کے حکم پر چلو اور آپس ميں جھگڑا نہ کرو، اگر ايسا کرو گے تو تم بزدل ہوجاو گے اور تمہاري ہوا اکھڑ جائے گي-

اس ميں کوئي شک نہيں کہ دنيا بھر ميں امت اسلاميہ کو ايک ہونے کي ہميشہ ہي ضرورت رہي ہے، مگر اس کي اہميت اور افاديت اس وقت بہت زيادہ محسوس ہوئي، جب استعمار اور اسلام دشمن طاقتوں نے کئي ايک مواقع پر تعصب و تنگ نظري نيز اپنے مفادات کو ہر حالت ميں ترجيح دي، بالخصوص اقوام متحدہ ميں جب بھي کوئي ايسا مسئلہ پيش ہوا، جس کا تعلق امت مسلمہ سے تھا تو غير مسلم طاقتوں نے اسے رد کر ديا اور مسلمانوں کا کبھي بھي ساتھ نہيں ديا، اس حوالے سے مسئلہ فلسطين، مسئلہ کشمير اور ايران کے ايٹمي پروگرام کے حوالے سے رکھے جانے والے متعصبانہ رويہ سے لگايا جاسکتا ہے- آج بھي عالمي سامراج بالخصوص غير مسلم طاقتيں ايران کے جائز حق کو تسليم کرنے سے انکارکرتي ہيں اور اس کے مقابل اسرائيل جو ايک ناجائز رياست ہے، اس کے پاس ايٹمي ہتھيار کسي کو نظر بھي نہيں آتے-

اسي طرح فلسطين، لبنان، شام، عراق اور ديگر اسلامي رياستوں کے ساتھ اسرائيل کي زيادتيوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ کسي کو نظر نہيں آتا، جب کہ امت اسلاميہ سے تعلق رکھنے والے ممالک کو بہت ہي معمولي مسائل پر آگ و بارود کي بارش سے تہس نہس کرنے سے بھي گريزاں نہيں ہوتے، اس کي وجہ صرف اور صرف امت کا متفرق و نامنظم ہونا ہے- آج امت مسلمہ ميں وحدت کا فقدان اسلام دشمن قوتوں کو مضبوط اور طاقت کے گھمنڈ ميں مبتلا کرچکا ہے، جس کے باعث وہ ہر روز مسلمانوں پر ظلم کي نئي داستان رقم کرتے ہيں اور انہيں اپنا زير نگيں بناتے ہيں، فلسطين کے مسلمانوں کي حالت زار کسي کو نظر نہيں آرہي، غزہ کے مظلوم اور ستم رسيدہ مسلمان مجبور و لاچار امت مسلمہ سے فرياد کناں ہيں کہ اتحاد و وحدت کي طاقت سے انہيں ظالمين و غاصبين کے چنگل سے نجات دلوائيں- حضرت امام خميني نے اسي لئے امت کو اتحاد کا قرآني پيغام عام کرنے اور امت کے تمام طبقات کو اس کے لئے سر دھڑ کي بازي لگانے کي دعوت دي تھي- اے کاش آج بھي امت امام خميني کے اس پيغام وحدت کي اہميت، افاديت اور ضرورت سے بخوبي آگاہ ہو جائے اور قرآن و رسول اعظم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے اسوہ ميں پنہاں پيغام وحدت امت کو سمجھ جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button