Uncategorized

ثمر عباس: 17 برس میں زندگی کھڑی کی تھی، ایک برس میں سب ختم ہو گیا

شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) میری اہلیہ نے میری گمشدگی کا عرصہ ایک بیوہ کی طرح گزارا ہے۔ مجھے تو یہ کہہ کر رہا کر دیا گیا کہ آپ بےقصور ہیں جائیں، اپنی زندگی جیئیں مگر وہ زندگی جو میں چھوڑ کر گیا تھا وہ میرے لاپتہ ہونے کے ساتھ ہی لاپتہ ہو گئی۔یہ خیالات ہیں کراچی سے تعلق رکھنے والے ثمر عباس کے جو 14 ماہ تک لاپتہ رہنے کے بعد تقریباً تین ماہ قبل ہی اپنے گھر واپس آئے ہیں۔ثمر عباس کو آٹھ جنوری 2017 کو اسلام آباد کے علاقے ایف الیون سے لاپتہ کیا گیا تھا اور ایک برس سے زیادہ عرصے تک قید میں رہنے کے بعد انھیں چار مارچ کو کراچی میں چھوڑا گیا۔بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ثمر کا کہنا تھا کہ ’مجھے کہا گیا یو آر وائٹ۔ تم آزاد ہو۔ جاؤ اپنے خاندان کے ساتھ مرضی سے زندگی بسر کرو۔ بس اس قسم کے ایکٹو ازم سے گریز کرنا جو تمہارے لیے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔‘کراچی کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اس سماجی کارکن کی زندگی ان 14 ماہ میں کچھ یوں بدل گئی ہے کہ انھیں خود بھی ابھی تک اس کا یقین نہیں آ رہا۔ان کا کہنا تھا کہ قید میں گزرے ’14 ماہ کی کہانی یہ ہے کہ شاید آدمی 14 برس میں اتنا سفر نہیں کرتا جتنا میری زندگی نے ان چند ماہ میں کر لیا ہے۔ گرتے گرتے بھی وقت لگتا ہے اسے لیکن میرا تو سب کچھ چلا گیا۔‘’میرا سارا کاروبار ختم ہو گیا۔ دفتر ختم ہو گیا۔ گھر والے دربدر ہو گئے۔ قرضدار ہو گئے۔ 17 برس میں ایک زندگی کھڑی کی تھی اس ایک برس میں سب کچھ ختم ہو گیا۔ میری عزتِ نفس، معاشرے میں میرا مقام سب کچھ تو چلا گیا اور وہ کہتے ہیں کہ جاؤ تم ایک معزز شہری ہو، جہاں چاہے رہو، جیسے چاہے جیو۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’مجھ سے ایک مجرم سا سلوک کیا گیا اور سلوک بھی ایسا کہ کچھ میں بتا پاتا ہوں اور کچھ بتا بھی نہیں سکتا۔‘ثمر عباس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی گمشدگی نے ان کے خاندان اور خصوصاً بچوں پر جو اثر ڈالا ہے اس کا مداوا ممکن نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ ’میری زندگی تو اس قید خانے میں گزر رہی تھی لیکن میرے خاندان کی زندگی بالکل بدل گئی۔ میری اہلیہ نے یہ 14 ماہ ایک بیوہ کی طرح گزارے۔ اسی سوچ کے ساتھ کہ میرا شوہر اب ساتھ نہیں۔ مجھے اب اس دنیا کا اکیلے مقابلہ کرنا ہے۔‘میرے بچے خصوصاً میری بیٹی جو چار برس کی ہے اور بیٹا جو آٹھ برس کا ہے ان کا بچپن چھن گیا ہے۔ وہ ننھی سی عمر میں بہت بڑے ہو گئے ہیں۔ اب بھی جب میں گھر سے باہر جاتا ہوں کام کے لیے اور مجھے دیر ہو جائے تو میری بیٹی اپنی ماں سے کہتی ہے ماما بابا کہیں پھر اسلام آباد تو نہیں چلے گئے۔ اسلام آباد اچھی جگہ نہیں ہے۔‘ثمر عباس کا کہنا تھا کہ وہ اس تکلیف کے ساتھ ساتھ انھیں اس بات کی خوشی بھی ہے کہ انھیں کسی غلط مقدمے میں ملوث نہیں کیا گیا اور اس کے لیے وہ شکرگزار ہیں اور خوش ہیں کہ ان کے ساتھ اس سلسلے میں انصاف ہوا۔ثمر کو اغوا کرنے والوں نے دورانِ تفتیش ان سے مختلف النوع سوالات کیے جو ان کے ایکٹوازم سے لے کر شام کی جنگ میں پاکستانی شیعوں کی شرکت تک پھیلے ہوئے تھے۔’انھوں نے مجھ سے کہا کہ تم لوگوں کو لڑائی کے لیے شام بھیجنے میں ملوث ہو، ہمیں ان کے نام بتاؤ۔ ان کا خیال تھا کہ یہاں سے بڑی تعداد میں لوگ شام جا رہے ہیں مگر میں نے انھیں کہا کہ میں تو خود کبھی شام گیا ہی نہیں۔ آپ کوئی ایک شخص بھی ایسا سامنے لے آئیں جو یہ کہہ دے کہ میں نے اسے شام بھیجا یا اس عمل میں اس کی مدد کی ہو۔‘
میں نے انھیں کہہ دیا ’میں تو اب آپ کے پاس ہوں اور آپ میرے ساتھ جو چاہیں کر سکتے ہیں، سو میرے پاس چھپانے کو کچھ نہیں ہے۔‘
’انھوں نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا آپ شام میں جاری جنگ کی حمایت کرتے ہو تو میں نے کہا کہ میں دہشت گردی کی حمایت نہیں کرتا اور دہشت گردوں کے خلاف لڑنے والوں کا حامی ہوں جن میں شام میں لڑنے والے بھی شامل ہیں۔ثمر عباس کا کہنا تھا کہ کہ ان کی اس حمایت کا تعلق نظریاتی طور پر ہے اور انھوں نے اپنے اغواکاروں کو بتایا کہ ’یہ نہیں کہ میں وہاں لوگوں کو لڑائی کے لیے بھجوانے میں ملوث ہوں۔ میرے پاس لوگ آتے تھے اور سوال کرتے تھے کہ آیا ہمیں بی بی زینب کے مزار کے تحفظ کے لیے جانا چاہیے تو میرا جواب یہی ہوتا تھا کہ ضرور لیکن میں کسی کو بھیجتا نہیں تھا۔‘’میں سمجھتا تھا کہ شاید میری موت آ گئی ہے‘۔حراست میں گزرے وقت کے بارے میں بات کرتے ہوئے ثمر کی آواز بھّرا گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ چیزیں آپ کی آنکھیں بولتی ہیں، میرے جسم کے کھڑے ہوتے بال، میری بدلتی آواز بہت کچھ بتا سکتی ہے آپ کو۔ میرے دل کی بےترتیب دھڑکن۔ میرا خدا جانتا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ قید کے دوران ان کا 15 کلو وزن کم ہوا اور انھیں مسلسل ذہنی دباؤ کا سامنا رہا۔’جب مجھے اغوا کیا تو میری سب سے چھوٹی بیٹی جس کی عمر اس وقت 12 دن تھی وہ شدید بیمار تھی اور اہلیہ سے آخری بات جو ہوئی تھی وہ یہی تھی کہ تم اسے ہسپتال لے جاؤ میں کل آ جاؤں گا۔ میں ان سے پوچھتا رہا کہ بتا دیں کہ میری بیٹی کیسی ہے۔ زندہ ہے کہ نہیں، آپ تو جانتے ہوں گے مگر جواب یہی ملتا تھا چپ رہو، زیادہ فالتو بات نہیں کرو۔‘ثمر کے مطابق انھیں دورانِ قید یہ احساس ہوتا رہا کہ رہائی شاید ان کے مقدر میں نہیں۔ ’میں سمجھتا تھا کہ شاید میری موت آ گئی ہے۔ دو تین مرتبہ مجھے لگا ایسے کہ میں یہاں سے واپس نہیں جا پاؤں گا۔ ایک اندھیرے کمرے میں قید بیٹھا یہی کہا کرتا تھا کہ خدا تو ہی مجھے انصاف دلا سکتا ہے یہاں پر۔ میرا یہاں کوئی نہیں، می
ں بہت اکیلا ہوں۔‘انھوں نے کہا کہ ’کبھی کھڑکی سے پرندے دکھائی دے جاتے تو سوچتا تھا کہ انھیں کوئی نہیں روکتا سوائے اللہ کے۔ یہ کتنے آزاد ہیں، ہم کتنے پابند ہیں۔ ہم اپنی مرضی سے حرکت بھی نہیں کر سکتے اگرچہ ہم نے کچھ بھی نہیں کیا۔‘
’میں آج بھی نامکمل ہوں‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اب جبکہ میں واپس آ گیا ہوں تو مجھے ان لوگوں کا خیال ہے جو اب بھی لاپتہ ہیں۔ لوگوں کو ایسے ہی لاپتہ نہیں کر دینا چاہیے۔ اگر کسی پر کوئی شک ہے بھی تو کوئی نظام ہونا چاہیے۔ تفتیش کا تحقیق کا۔ کم از کم اس کے اہلخانہ کو تو بتا دینا چاہیے کہ وہ کہاں ہے کس حال میں ہے۔‘انھوں نے کہا اگرچہ وہ خود تو واپس آ چکے ہیں لیکن ان کے خاندان کی مصیبتیں ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں کیونکہ ان کے ایک برادرِ نسبتی آج بھی لاپتہ ہیں۔’میں آج بھی اس مصیبت کا سامنا کر رہا ہوں۔ میرے گھر سے میرا برادرِ نسبتی آج بھی لاپتہ ہے۔ پہلے دکھ تھا کہ میں لاپتہ ہوں۔ اب ہم سب لاپتہ ہیں۔ میری بیوی کا بھائی نہیں ہے۔ میرا کزن نہیں ہے۔ میں آج بھی نامکمل ہوں۔‘خیال رہے کہ انسانی حقوق کے کارکن راشد رضوی نے حال ہی میں بی بی سی اردو کو بتایا تھا اب تک پاکستان بھر سے 140 سے زیادہ شیعہ نوجوان جبری طور پر لاپتہ کیے جا چکے ہیں جن میں سے 28 کا تعلق کراچی سے ہے۔حقوقِ انسانی کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں پاکستان میں لوگوں کی جبری گمشدگیوں کے لیے ریاست کو ذمہ دار ٹھہراتی رہی رہی ہیں تاہم ریاست اور ملک کے خفیہ ادارے ایسے تمام الزامات سے انکار کرتے آئے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button