1939 – 2012 آیت اللہ العظمی خامنہ ای بے مثال رہبر
ہر انقلاب عوامی مفادات کی خاطر بہت سی طاقتوں کو لامحالہ ناراض کرتا ہے اور ان طاقتوں کے ناجائز مفادات کو خطرے میں ڈال دیتا ہے چنانچہ ہر انقلاب کے متعدد دشمن بھی ہوتے ہیں اور ان دشمنوں کی روز اول سے یہی کوشش ہوتی ہے کہ اس انقلاب کو نیست و نابود کردیں یا اس کو ہائی جیک کرکے اس کے اہداف و مقاصد کو انحراف سے دوچار کردیں اور ان کی یہ کوششیں انقلاب کے بانی کے ایام حیات میں بھی شدت و حدت کے ساتھ جاری رہتی ہیں تاہم ان کی امیدیں بانی انقلاب کے انتقال سے کچھ زیادہ ہی وابستہ ہوتی ہیں۔
ان کا عام طور پر خیال ہوتا ہے کہ بانی انقلاب کے انتقال کے بعد وہ انقلاب کو منحرف کرنے کی زیادہ اہم مواقع حاصل کرسکتے ہیں اور یہ بات ان کی صحیح بھی ہے اور تجربے سے بھی ثابت ہے کیونکہ دنیا کے کئے انقلابات اسی صورت حال سے دوچار ہوئے ہیں چنانچہ انقلاب اسلامی کے سلسلے میں بھی ان کا یہ خیال سابقہ تجربات پر مبنی تھا چنانچہ انقلاب اسلامی کے قائد اور اسلامی جمہوری نظام کے بانی حضرت آیت اللہ العظمی امام خمینی رحمۃاللہ علیہ کے وصال سے دنیا کی استکباری طاقتوں نے اپنی امیدیں وابستہ کررکھی تھیں۔
انقلاب اسلامی کے خاتمے کے لئے دشمنان اسلام نے طبس کے متروکہ ہوائی اڈے سے فوجی کاروائی سے لے کر فوجی بغاوت، ملک میں علیحدگی پسند تحریکیں شروع کرانے، انقلاب کے اہم قائدین اور بزرگوں کو قتل کرنے سے لے کر آٹھ سالہ جنگ تک جیسے مسائل کھڑے کئے گئے اور آٹھ سالہ جنگ کے فوراً بعد ـ جب ایران مختلف قسم کے معاشی اور سماجی مسائل میں گھرا ہوا تھا اور استکباری طاقتوں کی معاشی پابندیاں بدستور جاری تھیں نہایت حساس حالات میں 4 جون 1989 کو معمار انقلاب و اسلامی جمہوریہ حضرت امام خمینی رحمۃاللہ علیہ کا وصال ہوگیا۔
دشمنان اسلام جو انقلاب کے فوراً بعد کچھ ہی دنوں اور پھر کچھ ہی مہینوں میں اسلامی نظام کے خاتمے کی پیشین گوئی کررہے تھے اب سوچ رہے تھے کہ گویا امام کی عمر کا خاتمہ انقلاب اسلامی کے خاتمے کے مترادف ہے۔
ایسوشیٹڈ پریس نے امام رحمۃاللہ علیہ کی رحلت کے فوراً بعد لکھا: "امام خمینی کے جانے کے ساتھ ہی انقلاب اسلامی بھی اختتام کو پہنچا ہے”۔
لیکن یہ انقلاب امام رحمۃاللہ علیہ کے انفاس قدسیہ کے سائے میں کامیاب ہوا تھا اور امام (رح) جو اتنا بڑا انقلاب انسانوں کو تحفے کے طور پر دے گئے تھے، بخوبی جانتے تھے کہ اس انقلاب کی حفاظت کیونکر ہوسکتی ہے چنانچہ آپ نے دوراندیشانہ اقدام کرکے ولایت فقیہ کے نظریئے کا احیاء کیا اور اس کو آئین کا حصہ بنا کر دشمن کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر ہونے سے بالکل دور رکھا۔ چنانچہ ان کے بنائے ہوئے نظام نے انقلاب کا پرچم گرنے نہیں دیا اور گرنے نہیں دے گا۔
مجلس خبرگان نے امام خمینی کی رحلت کے چند ہی گھنٹوں بعد آیت اللہ العظمی خامنہ ای کو رہبر انقلاب اسلامی کے عنوان سے متعارف کرایا۔ کروڑوں انسان امام خمینی رحمۃاللہ علیہ کے جنازے میں شریک ہوئی اور نہ صرف ایرانی عوام بلکہ دنیا جہان کے مسلمانوں نے امام رحمۃاللہ علیہ کے وصال کی مناسبت سے مختلف قسم کی مجالس میں شرکت کی۔
ایران میں کروڑوں عوام نے امام رحمۃاللہ علیہ کے جنازے میں یک صدا ہو کر نعرہ لگایا کہ "اطاعت از خامنہ ای ، اطاعت از امام است” (خامنہ ای کی اطاعت امام (رح) کی اطاعت ہے) اور یوں نہ صرف مجلس خبرگان میں عوامی نمائندوں نے مطلق اکثریت سے آیت اللہ العظمی خامنہ ای کو منتخب کیا تھا بلکہ عوام نے براہ راست بھی مجلس خبرگان کی بجا اور مناسب و شائستہ انتخاب کو سراہا۔
کسی بھی نظام میں قیادت کا کردار بنیادی ہوتا ہے چنانچہ اسلامی جمہوریہ ایران بھی اس قاعدے سے مستثنی نہیں ہوسکتا۔
اسلامی جمہوری نظام میں قیادت کا کردار کلیدی اور اصولی ہے۔ اس نظام میں قائد یا رہبر کی شخصیت دین شناس، زمان شناس، فیصلہ کن اور متقی و پرہیزگار ہے۔ عدل و تقوی اس کی بنیادی خصوصیات ہیں اور عام زندگی میں زہد و معاشرے کے عام آدمی کی مانند زندگی بسر کرنا بھی اس کی صفات میں سے ہے۔
اسلامی نظام میں ملک کی عام پالیسیوں کا تعین رہبر انقلاب کے ذمے ہے اور آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے بقول "قیادت کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کے نہ حل ہونے والے مسائل اس کے ہاتھوں حل ہوجائیں؛ وہ لوگوں کے لئے حقائق واضح کرتا ہے اور دشمن کی سازشوں کو طشت از بام کردیتا ہے؛ لوگوں کو امید بخشتا ہے اور سازشیوں کے مقابلے میں انقلاب کی حیثیت، سالمیت اور کُلیَّت کا تحفظ کرتا ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے دینی حوزات علمیہ میں نشوونما پائی اور زبردست خطیب و مصنف کے عنوان سے حوزہ علمیہ کی اساس سے اٹھے۔ اسلامی تحریک کے آغاز سے ہی امام خمینی رحمۃاللہ علیہ کے قریبی ساتھی اور سچے پیروکار تھے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای مختلف علمی شعبوں جیسے فقہ، تاریخ، کلام اور فارسی و عربی ادبیات، میں استاد کامل ہیں اور "امین” تخلص کرکے شاعری بھی کرتے ہیں۔
امام خمینی رحمۃاللہ علیہ نے آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے بارے میں فرمایا: "خامنہ ای را من بزرگش کردہ ام” (خامنہ ای کو میں نے ہی پروان چڑھایا ہے)۔
اور ایک پیغام میں آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے مخاطب ہوکر فرمایا: میں جناب عالی کو اسلامی جمہوریہ کا طاقتور بازو سمجھتا ہوں اور آپ کو اس بھائی کی مانند سمجھتا ہوں جو کہ فقہی مسائل سے واقفیت رکھتے
ہیں اور ان کے پابند ہیں اور ولایت فقیہ کی فقہی بنیادوں کی سنجیدگی سے حمایت و وکالت کرتے ہیں۔ دوستوں اور اسلام اور اصول اسلام کے پابند شخصیات کی درمیان نادر شخصیات مین سی هین اور سورج کی مانند چمک رهی هین”.
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آٹھ سالہ جنگ کے دوران دفاعی حوالے سے زبردست کردار ادا کیا اور شہید ڈاکٹر چمران کے ساتھ مل کر عراقی جارحیت کے خلاف مزاحمت کی بنیاد رکھی اور ابتدائی کاروائیوں میں براہ راست شرکت کرتے رہے اور انقلاب اسلامی کے بعد تشکیل پانے والی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کو باقاعدہ فوجی خد و خال دینے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہوئے آبادان کا محاصرہ توڑنے سے قبل سپاہ کی پہلی بریگیڈ تشکیل دی اور آئین کی تدوین کے لئے تشکیل یافتہ "مجلس خبرگان قانون اساسی” اور مجلس شورائے اسلامی کی رکنیت کے علاوہ مختلف اعلی سرکاری عہدوں پر فائز رہے اور تہران کے پہلی امام جمعہ، مرحوم آیت اللہ محمود طالقانی کے انتقال کے بعد امام خمینی رحمۃاللہ علیہ نے آپ کو تہران کے امام جمعہ کے عنوان سے متعین فرمایا۔
28 جون 1981 کو دشمنان اسلام کے کارندوں نے انقلابی شخصیات کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کے سلسلے کے ابتدائی مرحلے میں ہی آپ کو تہران کی "مسجد ابوذر” میں خطاب کے دوران بم دھماکے کا نشانہ بنایا جس میں آپ شدید زخمی ہوئے اور آپ کا ہاتھ بھی ناکارہ ہوگیا۔ اطباء نے کہا کہ ان کا واپس آنا معجزے سے کم نہ تھا؛ دوسرے روز یعنی 29 جون کو اس وقت کی جماعت "حزب جمہوری اسلامی” کے مرکزی دفتر میں دھماکہ ہوا اور آیت اللہ سید محمد حسینی بہشتی اور ان کے اکھتر دوسرے ساتھی شہید ہوئے اور 30 اگست 1981 کو صدر محمد علی رجائی اور وزیراعظم محمد جواد باہنر شہید ہوگئے اور اس دوران آیت اللہ العظمی خامنہ ای ہسپتال میں تھے اور امام خمینی رحمۃاللہ علیہ اور دیگر راہنماؤں کے اصرار پر آپ اگلے صدارتی انتخابات کے لئے نامزد ہوئے اور انتخابات میں بھاری اکثریت سے جیت کر اسلامی جمہوریہ ایران کے تیسرے صدر کے عنوان سے حلف اٹھایا اور آٹھ سال تک صدارت کے عہدے پر فائز رہے، اس دوران صدر کی حیثیت سپریم ڈیفنس کونسل کے سربراہ بھی رہے اور تسلسل کے ساتھ محاذ جنگ پر حاضری دے کر مجاہدین کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔
مختلف عہدوں پر فائز رہنے کی بنا پر اندرونی اور بین الاقوامی مسائل سے بخوبی واقف اور عوام کے ساتھ آپ کا بہت قریبی تعلق رہا۔
آیت اللہ خامنہ ای کہنہ مشق منتظم ہیں اور ان ہی تجربات اور علم و عمل کی اعلی سطح پر فائز تھے کہ مجلس خبرگان کے فقہاء نے قیادت کے لئے آپ کی اہلیت کشف کرلی اور آپ کی قیادت کا اعلان کیا اور آپ کے انتظامی کردار کا مختصر سا جائزہ بتاتا ہے کہ سفینہ انقلاب کے اس ناخدا نے گذشتہ 21 برسوں کے دوران اس کشتی کو ساحل مقصود تک بڑھانے میں زبردست کردار ادا کیا ہے اور اس دوران آپ نے اندرونی فتنوں اور بیرونی سازشوں کا مؤثر انداز سے مقابلہ کیا اور انقلاب اور انقلاب و اسلامی ملک ایران کو عظیم ترین اندرونی اور بیرونی طوفانوں سے گذار کر سرمنزل مقصود کی طرف رواں دواں رکھا۔
بہر صورت دشمنان اسلام کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا کہ امام رحمۃاللہ علیہ کے بعد سفینۂ انقلاب فتنوں اور سازشوں کے بھنور میں ڈوب جائے گا اور آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے قیادت کا حق ادا کرتے ہوئے نہ صرف امام رحمۃاللہ علیہ کے مشن کی حفاظت کی بلکہ اس مشن کو آگے بڑھایا اور دنیا میں اسلامی جمہوری نظام کا مقام اور اس کی منزلت کو زبردست ترقی دی اور ایران کو کسی بھی عالمی سازش میں نہیں پھنسنے دیا جبکہ دنیا جانتی ہے کہ امریکہ نے اس علاقے میں انقلاب اسلامی کا راستہ روکنے اور ایران کو نرغے میں لینے اور اس پر حملہ کرنے کی نیت سے افغانستان اور عراق پر قبضہ کیا اور ایران کے ارد گرد کئی ممالک میں فوجی اڈے قائم کئے مگر رہبر معظم نے انقلاب کا سفر کانٹے دار راستوں کے درمیان اس طرح جاری رکھا کہ نہ صرف انقلاب کو کوئی نقصان نہ پہنچا بلکہ اس نے ترقی کی منازل یکے بعد دیگرے طے کیں اور آج علم و سائنس، ٹیکنالوجی اور طب و تعلیم کے میدان میں ترقی یافتہ ممالک کے زمرے میں آتا ہے اور یہ ملک جو آٹھ سالہ دفاع کے دوران راڈار کے ایک بلب کے لئے دوسرے ملکوں سے درخواست کرنی پڑ رہی تھی آج فوجی سازوسامان اور غذائی مواد اور ادویات کے شعبوں میں خودکفیل ہے اور دنیا کے اکثر ایٹمی قوتوں کے برعکس ایران کسی بھی ملک کی مدد و حمایت کے بغیر پرامن ایٹمی توانائی کے حصول میں کامیاب ہوچکا ہے اور غلات کی پیداوار میں تقریباً خودکفیل ہوچکا ہے۔
آج یہ بات کسی سے بھی مخفی نہیں ہے کہ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امام خمینی (رح) کی کمی محسوس نہیں ہونے دی ہے اور ان کی کیاست اور دور اندیشی نے ایران کو ممتاز عالمی حیثیت دی ہے۔
ویسے تو مکتب تشیع کلی طور پر ظلم کے خلاف دائمی و ابدی احتجاج کرنے والا مکتب اور دشمن شناسی میں منفرد ہے مگر دشمن شناسی کے سلسلے میں امام خمینی رحمۃاللہ علیہ کے بعد آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کردار قابل تحسین ہے۔
گذشتہ اکیس برسوں کے دوران ـ خاص طور پر دسویں صدارتی انتخابات کے بعد رونما ہونے والی مغربی فتنہ انگیزیوں کے بعد ـ دشمن اور دشمن کی سازشوں اور منصوبوں کا صحیح اندازہ کرنا، اجنبی قوتوں سے وابستہ اندرونی گروپوں کو صحیح طور پر پہچاننا اور بیرونی اور اندرونی سازشوں کا صحیح اندازہ لگانا رہبر انقلاب اسلامی کی ممتاز خصوصیت ہے۔ آپ دشمن کی سازش کا بروقت اندازہ لگا کر اس کا سد باب کرتے ہیں۔
ایک باخبر شخصیت کا کہنا تھا کہ رہب
ر انقلاب اسلامی نے اپنی اکیس سالہ قیادت کے دوران ایران کو دس سے بھی زائد مرتبہ اسلامی جمہوریہ ایران کو عالمی سازشوں سے نجات دلائی ہے جن کا قطعی نتیجہ بڑی طاقتوں کے مد مقابل براہ راست لڑائی میں کود جانا تھا مگر رہبر انقلاب کی تدبیر نے خطرات کو مواقع میں تبدیل کیا ہے۔
رہبر انقلاب عالم دین اور مرجع تقلید ہیں اور انہیں اپنے ملک کی ضروریات کی شناخت میں بھی ملکہ حاصل ہے۔ آپ نے گذشتہ دس برسوں کے دوران ایران میں "سافٹ ویئر موومنٹ” اور "سائنسی تحریک” کی بھی قیادت کی ہے جس کے نتیجے میں ایران نے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں زبردست ترقی ہے جس کے مصادیق بیان کرنا ہمارے اس مضمون کا مقصد نہیں ہے چنانچہ سائنس اور ٹیکنالوجی، فضائی اور خلائی میدانوں میں پیشرفت، طب و اور نانو ٹیکنالوجی اور بائیو ٹیکنالوجی، کلوننگ وغیرہ کے شعبوں میں ایران کی پیشرفت کے سلسلے میں جداگانہ مطالعہ و تحقیق کی ضرورت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایسے حالات میں قیادت سنبھالی جب آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ ابھی ابھی ختم ہوئی تھی اور قائد انقلاب اور اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی دنیا سے رخصت ہوگئے تھے؛ ایران کے لئے منصوبہ بندی، محنت، مہارت اور سرمایہ کاری کی اشد ضرورت تھی۔ اسی دور میں مختلف گروہ مختلف آراء و نظریات و افکار لے کر میدان سیاست میں حاضر ہوئے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے مخالفت کئے بغیر ان تمام گروپوں کا خیر مقدم کیا اور مختلف سیاسی افکار و نظریات کو ایک اصولی اور حقیقی انقلاب کا لازمہ قرار دیا اور فرمایا کہ یہ انقلاب اسلامی کی طرف سے عوام اور سیاسی قوتوں کی دیئے گئے مواقع کا نتیجہ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے عوام کی صحیح سمت میں راہنمائی کی اور امریکہ اور یورپ کی طرف سے ڈکٹیٹ ہونے والی اصلاحات کو انقلابی اصلاحات سے الگ کرکے ـ اصلاحات کے دور میں فکری عدم استحکام کے اندیشوں کو رفع دفع کرکے ـ معاشرے کو فکری استحکام عطا کیا۔ اس دوران آپ کی قیادت کے آٹھ سال بعد ایسی حکومت بنی جس نے سیاسی اصلاحات کا نعرہ لگایا اور نتیجہ یہ ہوا کہ بعض دیگر جماعتوں نے تشویش کا عملی اظہار کیا اور سیاسی جماعتوں میں چپقلش کی سی صورت حال سامنے آئی مگر رہبر معظم کی تدبیر کی بدولت یہ چپقلش انقلاب اسلامی کو نقصان نہ پہنچا سکی۔
رہبر انقلاب اسلامی کی قیادت سے لے کر اب تک چھ حکومتیں بنی ہیں مگر انہوں نے قانوں کے عین مطابق حکومتوں کی حمایت اپنا فریضہ سمجھا ہے اور ساتھ ہے قانون کو پہلی ترجیح قرار دیتے ہوئے حکام کو ملک اور انقلاب کو درپیش مسائل اور ممکنہ خطرات کے حوالے سے خبردار کرتے رہے ہیں اور سماجی انصاف کو یقینی بنانے، معاشی بدعنوانیوں کا مقابلہ کرنے، قومی سرمایوں کا تحفظ کرنے، بنیادی اور حقیقی ثقافت و روایات کا تحفظ کرنے، سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی و پیشرفت یقینی بنانے، وغیرہ کے سلسلے میں تسلسل کے ساتھ سرکاری عہدیداروں کو ہدایات دیتے رہے ہیں۔
آپ کی قیادت کے دور میں ایران کے ارد گرد کے ممالک اور دنیا کے حالات ہمیشہ دگرگونیوں، حساسیتوں اور پیچیدگیوں کا شکار رہے ہیں۔
آپ کی قیادت کی سب سے پہلی بین الاقوامی آزمائش اس وقت تھی جب صدام نے کویت پر قبضہ کیا۔ جبکہ ایران پر صدام کی آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ اس سے صرف دوسال قبل ختم ہوئی تھی۔ اس جنگ میں صدام امریکہ اور یورپ اور حتی سوویت یونین ـ غرض تمام بڑی قوتوں کا نمائندہ بن کر ـ اسلامی انقلاب اور ایرانی قوم و ملک کا دشمن بن کر لڑتا رہا اور کویت سمیت تمام عرب ممالک بھی اس جنگ میں صدام کے ساتھی تھے مگر جب کویت پر صدام نے حملہ کیا تو ایک طرف سے صدام نے ایران کے تمام مطالبات تسلیم کرتے ہوئے جنگ کے حوالے سے ایران کی تمام شرائط قبول کرلیں اور اپنا ایلچی ایران روانہ کرکے در حقیقت خلیج فارس کے کنارے کی ریاستوں پر قبضے کے لئے ایران کی منظوری طلب کی تو دوسری طرف سے آٹھ سالہ جنگ کے دوران عراق کے فوجی اڈے کا کردار ادا کرنے والے ملک کویت کا وزیر خارجہ ایران آیا اور ایرانی وزیر خارجہ سے ملتے ہی تہران کے ہوائی اڈے پر ندامت کے مارے روپڑے۔ مغربی ممالک بھی ایران کو عربوں سے بدلہ لینے کی ترغیب دلانے لگے تھے مگر رہبر انقلاب نے کویت پر صدام کی جارحیت اور دوسرے عرب ممالک پر بعثیوں کے قبضے کی خواہش مسترد کرتے ہوئی کویت کی حمایت کردی مگر مغرب کی یہ خواہش بھی پوری نہ ہونے دی کہ ایران اس جنگ میں کسی بھی عنوان سے فریق بنے۔
جارج بش (باپ) ـ جس نے بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق صدام کو کویت پر قبضہ کرنے کی ترغیب دلائی تھی یا کم از کم علاقائی معاملات میں عدم مداخلت کا جھوٹا نعرہ لگا کر صدام کے منصوبے کو گرین سگنل دکھایا تھا ـ نے دوسری قوتوں اور تمام عرب ممالک کو اپنے ساتھ ملایا اور لاکھوں فوجی علاقے میں آگئے۔ مغربیوں نے ایران سے کہا کہ صدام کے خلاف عالمی اتحاد سے مل کر بغداد سے آٹھ سالہ جارحیت کا بدلہ لیں مگر انقلاب اسلامی کے قائد نے اپنے جد امجد امیرالمؤمنین اور سید الشہداء امام حسین علیہما السلام کی راہ پر گامزن ہوکر مقدس ہدف کے حصول کے لئے نامقدس وسائل سے استفادہ ناجائز قرار دیا اور عراق کے خلاف اس جنگ میں شامل نہیں ہوئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کیاست کی مثال قائم کرکے ایک طرف سے عراق کے مظلوم عوام کی ہمہ جہت حمایت کا اعلان کیا تو دوسری طرف سے آپ نے اسلامی جمہوریہ ایران کو مغربی طاغوتی طاقتوں کے جال اور تیل کی جنگ کے ضمن میں ایک نئی جنگ میں نہیں پھنسنے دیا۔
روایات سے ثابت ہے کہ حضرت رسول اللہ (ص) اور حضرت امام علی علیہ الس
لام کی ذاتی اور خاندانی زندگی بہت سادہ اور بے تکلف تھی تو آج کی دنیا میں جب دنیا کی حکمرانوں نے جماران کا دورہ کیا تو کرائے کے کچے مکان میں رہنے والے حضرت امام خمینی رحمةاللہ علیہ کو دیکھ کر حیرت زدہ ہوئے۔ بعض حکام نے کہا: ہم حیرت زدہ ہیں کہ ایک مسلم عالم دین اس چھوٹے سے کچے مکان میں رہ کر دنیا کی سمت کے تعین میں کردار ادا کررہے ہے! اور آج
آج امام (رح) کے ہی خلف صالح اور حقیقی جانشین حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای مد ظلہ العالی اسی راہ پر گامزن ہیں۔ مرحوم سید احمد خمینی (رح) نے فرمایا تھا: میں رہبر معظم کے گھر گیا تو جس پرانے قالین پر میں بیٹھا تھا وہ اتنا پرانا اور کھردرا تھا کہ مجھے ساتھ پڑی سستی قسم کی کارپٹ (موکت) کی پناہ لینی پڑی۔
بعض سرکاری حکام کا کہنا تھا کہ ہم نے رہبر معظم کے گھر کے لئے کچھ قالینیں خرید لیں اور پرانی قالینیں اور دریاں اٹھوادیں مگر انہیں معلوم ہوا تو ہمیں قالینیں واپس اٹھا کر پرانی دریاں واپس بچھانی پڑیں۔
سابق سربراہ پارلیمان ڈاکٹر غلام علی حداد عادل کہتے ہیں: رہبر معظم نے اپنے بیٹے کے لئے میری بیٹی کا رشتہ مانگا اور فرمایا: ہمارے گھر میں دو کمرے ہیں؛ ایک کمرہ اپنے بیٹے کے حوالے کروں گا مگر علیحدہ گھر انہیں نہیں دے سکوں گا اور یہ کہ میرے گھر میں وہ سب کچھ نہیں ہے جو آپ کے گھر میں ہوسکتا ہے۔ رہبر معظم نے فرمایا کہ اس صورت حال کو مد نظر رکھ کر رشتہ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کریں۔۔۔
رہبر معظم کا شیوہ زندگی بہت سادہ ہے، عوامی شخصیت کے مالک اور منکسرالمزاج ہیں۔ تقوی اور خدا خوفی نے انہیں دنیا کے سامنی ایک فیصلہ کن شخصیت عطا کی ہے۔ وہ غیر خدا سے خائف نہیں ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ زاہد و پارسا شخصیات کو خدا کے سوا کسی بھی غیر خدائی قوت سے کبھی خوف محسوس نہیں ہوتا۔
رہبر معظم شاید دنیا کے واحد شجاع اور دلیر قائد ہیں جو بڑی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا موقف بیان فرماتے ہیں اور اسی بنا پر آپ اپنے استاد اور قائد حضرت امام خمینی رحمةاللہ علیہ کی مانند بڑی آسانی سے انقلاب اسلامی کی ماہیت اور اسلامی جمہوریہ ایران کے استقلال و خودمختاری کا تحفظ کرتے ہے اور اجنبی قوتوں کا دلیرانہ مقابلہ کرتے ہیں۔ وہ ایک لمحہ بھر بھی دنیا کی تسلط پسند اور سازشی قوتوں کے خلاف جدوجہد سے غافل نہیں ہوتے اور دنیا میں بھی حق و عدل اور محروم و مستضعف قوتوں کی حمایت کا اہتمام کرتے ہیں کیونکہ انقلاب اسلامی صرف اسی وقت تک برقرار رہتا ہے جب تک یہ دنیا کی سطح پر عدل پسندی کا پرچم اونچا رکھے گا اور دنیا کی ستمزدہ اقوام جیسے لبنان، فلسطین، عراق اور افغانستان کے مظلوم عوام کی حمایت کرتا رہے گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی امام خمینی کے اہداف سے پوری وفاداری کے ساتھ ساتھ اس وقت دنیا کی سطح پر ایک پرعزم اور فیصلہ کن و مصمم راہنما کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں جنہوں نے بھوسے پر قائم بڑی طاقتوں کا جھوتا بھرم توڑ کر رکھ دیا ہے اسلامی امہ کو اتحاد و یکجہتی اور عالم اسلام کے مفادات کا تحفظ کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔
غزہ پر صہیونی جارحیت اور غزہ میں صہیونیوں کے ہاتھوں 1400 عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے قتل عام، اسکولوں، مسجدوں، سرکاری عمارتوں اور گھروں و مکانات کے انہدام اور دنیا جہان کے تمام غیر قانونی ہتھیاروں کے استعمال پر رہبر معظم انقلاب اسلامی نے جو پیغام دیا اس کی وجہ سے عالم اسلام میں صہیونیوں کے خلاف مسلمانوں کے جذبات ابل پڑے۔ آپ نے اس پیغام میں اسلامی مزاحمت تنظیم "حماس” کو استقامت، خدا پر توکل اور خدا ہی سے مدد مانگنے کی دعوت دی اور انسانیت دشمن و درندہ صفت صہیونی ریاست کے ساتھ بش کی جرائم پیشہ انتظامیہ کی ساز باز کی مذمت کرتے ہوئے بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں اور عرب حکمرانوں کی خاموشی کو غزہ کے مظلوم عوام کے خلاف صہیونی جارحیت کی تمہید قرار دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے دنیا کی مسلم اقوام سے اپیل کی کہ وہ کسی بھی ممکنہ روش سے استفادہ کرکے غزہ کے عوام کی مدد کریں۔
حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل، سید حسن نصر اللہ کہتے ہیں: آیت اللہ العظمی خامنہ ای ایک عظیم راہنما ہیں جو خطے کی اقوام کی قوت، عزم اور ارادے پر پورا اعتماد کرتے ہیں اور آپ نے لبنان کی 33 روزہ جنگ میں غاصب ریاست کی شکست اور اسلامی تحریک مزاحمت کی فتحمندی کی پیشین گوئی فرمائی تھی۔
موجودہ روسی وزیر اعظم، ولادیمیر پیوٹن، جب صدر تھے تو دسیوں برس بعد کسی روسی صدر کی حیثیت سے دورہ ایران پر آئے تھے۔ انھوں نے ایران کے سرکاری حکام سے ملاقاتیں کیں اور آخرکار رہبر معظم حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ کے دفتر میں بھی حاضر ہوئے۔
ولادیمیر پیوٹن رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کرنے کے بعد، آپ کی شخصیت سے بہت متأثر ہوئے اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے کہا:
"ایران میں ایک بہت بڑے حکیم (صاحب حکمت) بیٹھے ہوئے ہیں؛ میرے نزدیک قابل تصور ہی نہیں تھا کہ آپ اتنے ہمہ جہت ہونگے اور مسائل کے تمام پہلوؤں کی نگرانی کررہے ہونگے۔ وہ ایک فلسفی اور دانشمند ہیں جو ایران کی پالیسی سازیوں اور فیصلہ سازیوں کی نگرانی کرتے ہیں۔ ان کی درایت و ذکاوت اور زبردست ذہانت کے ہوتے ہوئے ایران کو کسی بھی خطرے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
حال ہی میں امریکی ادارے کارنیگی فاؤنڈیش (Carnegie Foundation) نے ایک رپورٹ میں ایران کی قوت و استحکام میں حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے: "شاید دنیا میں کوئی بھی دوسرا راہنما نہ ہو جو آیت اللہ خامنہ ای کی طرح دنیا کے جاری مسائل کے لئے اہمیت ک
ا قائل ہو اور اتنی عظیم شخصیت اسی حال میں دنیا والوں کے نزدیک انجانی بھی ہو۔ آیت اللہ خامنہ ای اس لئے رہبر کے عنوان سے چن لئے گئے کہ آپ آیت اللہ (العظمی امام) خمینی کے انقلابی اہداف اور تعلیمات کے وفادار اور پابند تھے۔ اسی لئے امریکیوں کی طرف سے ایران کے خلاف کسی بھی منصوبے کا مقدر ناکامی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای ایسی کسی بھی مفاہمت سے اتفاق نہیں کریں گے جس میں پسپائی یا شکست کی پذیرائی کا عنصر پایا جاتا ہو۔ انہیں پہلے قائل کرنا پڑے گا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اسلامی جمہوریہ ایران کی قانونی حیثیت تسلیم کرنے کے لئے تیار ہے اور اس نظام کے لئے احترام کا قائل ہے۔ امریکہ کو ایسا رویہ اپنانا پڑے گا جس کو دیکھ کر آیت اللہ خامنہ کو یقین ہوجائے کہ وہائٹ ہاؤس اپنے رویئے میں تبدیلی کے لئے پرعزم ہے اور ایران میں حکومت کی تبدیلی کے لئے کوشش نہیں کررہا”۔
کئی راہنما مخالف ہوائیں اڑنے کی وجہ سے کمزور پڑجاتے ہیں مگر زہد و تقوی، دنیا اور اس کی زینتوں سے عدم وابستگی، علم با عمل اور عمل با اخلاص نے آپ کو ایسی خصوصیات سے سرشار کردیا ہے کہ مخالفتیں جتنی شدید ہونگی آپ کی قوت و نفوذ اور عظمت و تأثیر میں اتنا ہے اضافہ ہوگا اور دنیا والے آپ کو اتنا ہی زیادہ پہچان سکیں گے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرج الشریف دنیا کی تمام طاغوتی طاقتوں کی مختلف النوع اور پیچیدہ سازشوں اور انقلاب اسلامی کے دشمنوں کی شیطانی ریشہ دوانیوں کے باوجود بدستور امام خمینی رحمةاللہ علیہ کے اہداف کے پابند اور آپ کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن ہیں، اسلامی جمہوری نظام ماضی کی نسبت کئی گنا زیادہ طاقتور، مستحکم اور کامیاب و کامران ہے اور ان حقائق کو مد نظر رکھ کر بخوبی واضح و روشن ہوجاتا ہے کہ آپ ایک وزین، متین، زیرک اور مقتدر رہبر، اسلامی نظام کی تکیہ گاہ اور مسلمانان عالم کے لئے امید کی کرن اور امین و صادق راہنما ہیں۔