پاکستانی شیعہ خبریں
عنصر عباس عزم و ہمت کی داستاں، خاندان کے 20 افراد نے جام شہادت نوش کیا لیکن حوصلہ اب بھی جواں ہیں
19 اگست 2008ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک خودکش دھماکہ میں 35افراد شہید ہوئے تھے اور اتنے ہی زخمی ہوئے، اس حادثے میں صحافی عنصر عباس کے خاندان کے 20 افراد نے جام شہادت نوش کیا جبکہ خود عنصرعباس بھی شدید زخمی ہوئے، دھماکے میں اُن کے دونوں بازووں پر زخم آئے اور انہیں کاٹنا پڑا جبکہ اُن کی دونوں ٹانگوں کی ہڈیاں بھی ٹوٹیں اور وہ ڈیڑھ سال تک وہیل چیئر پر رہے۔ اسلام ٹائمز نے عنصر عباس سے ایک انٹرویو کیا ہے جس میں اس چیز کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی کہ اس وقت عنصر عباس کس حال میں زندگی گزار رہا ہے اور اُن کے کیا جذبات ہیں، کیا سوچتے ہیں اور قوم کے بارے میں اُن کا کیا درد ہے۔
ہمارے قارین کو بتائیں کہ انیس اگست دوہزار آٹھ کو کیا واقعہ پیش آیا اور اس کا پس منظر کیا تھا ؟
صحافی عنصر عباس:جی یہ 19اگست 2008ء کا واقعہ ہے کہ جب میرے کزن باسط زیدی کسی کام سے جارہے تھے کہ اُنہیں فرقہ پرست گروپ سے تعلق رکھنے والے افراد نے گولیوں سے نشانہ بنایا، اس واقعہ کی جیسے ہی خبر ملی ہمارے خاندان کے اکثر افراد فوراً اسپتال پہنچے، اس وقت نعش پوسٹ مارٹم کیلئے امرجنسی میں تھی اور ہم تمام لوگ اسپتال کے باہر انتظار کررہے تھے کہ اچانک ایک نوجوان آیا اور اس نے اپنے آپ کو بم سے اُڑا دیا، جس کے باعث 35افراد شہید ہوئے جن میں سے 20افراد کا تعلق ہمارے اپنے خاندان سے تھا جبکہ دیگر وہ مومنین تھے جو اظہار یکجہتی اور خون کے عطیات دینے آئے تھے، اس حادثہ میں میرے اپنے بازو شدید زخمی ہوئے اور ٹانگوں پر چوٹیں بھی آئیں، ڈاکٹروں نے کافی کوششیں کیں لیکن بلآخر ہاتھوں کو کاٹنا پڑا۔
اس واقعہ میں آپ کی فیملی کے بیس افراد نے جام شہادت نوش کیا۔ کیسا محسوس کرتے ہیں او ر کیا تاثرات ہیں؟
عنصر عباس:اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں حق پر اور ہمارے دشمنوں کو باطل پر قائم رکھا ہوا ہے، جو وقت آئے ہم اللہ کی رضا پر راضی ہیں، ہمارا دشمن بڑا مکار ہے، دشمنان اہلبیت(ع) ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کے زریعے سے ثابت کرنا چاہتے تھے کہ ہم لوگ ڈر جائیں گے اور علاقہ چھوڑ جائیں گے، جیسا کہ ان کی طرف سے خطوط بھیجے گئے جن میں کھلی دھمکی دی گئی کہ ہم دیت دیں، مذہب چھوڑ دیں یا قتل ہونے کیلئے تیار ہوجائیں حتیٰ اس خط میں عزت و ناموس کے مباح ہونے کی باتیں بھی لکھی ہوئی تھیں۔ ہم نے شہادت کے راستے کا انتخاب کیا، اور ہم نے ثابت کیا کہ تم کتنے حسینی مارو گے ہر گھر سے حسینی نکلے گا۔ ہم نے 35 اکھٹے جنازے اٹھائے ہیں جن میں بیس افراد صرف میرے اپنے خاندان سے ہیں جن میں چچا زاد اور مامو ں زاد بھائی شامل ہیں، میرے خود اپنے دونوں بازوں ضائع ہوگئے، اس دھماکے میں پینتیس کے قریب افراد زخمی ہوئے،اتنا بڑا سانحہ کا ہونا کسی خاندان کیلئے قیامت سے کم نہیں ہوتا۔ ان لوگوں نے شیعہ نسل کشی کو اپنا نصب العین بنایا ہوا ہے۔ جب تک ہماری رگوں میں خون کا آخری قطرہ موجود ہے ہم اپنے علاقوں کو نہیں چھوڑیں گے، اگر کوئی یہ سوچ زہن میں رکھتا ہے تو وہ غلطی پر ہے اور احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔
وہ کون سے عناصر ہیں جو ڈیرہ اسماعیل کے امن کو غارت کر رہے ہیں بعض لوگ اسے شیعہ سنی کا رنگ دیتے ہیں، یہ بات حقیقت پر مبنی ہے یا محض مفروضہ ہے؟
صحافی عنصر عباس:جی میں اس سے اتفاق نہیں کرتا کہ ڈیرہ میں شیعہ سنی مسئلہ ہے، یہاں شیعہ سنی کئی دہائیوں سے اکھٹے رہ رہے ہیں کبھی کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔ ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ محرم الحرام میں سنی بھائی ہمارے ساتھ سبیل چلانے پیش پیش ہوتے ہیں، جب خودکش دھماکہ ہوا اور اسپتال میں خون کی اشد ضرورت تھی تو ہم انتظار میں تھے کہ کوئی آئے اور خون عطیہ کرے، کہ اسی اثنا میں ہمارے ایک سنی بھائی آئے اور اس نے تین بوتلیں اکھٹے عطیہ کیں، اس چیز کو درک کرنا آسان نہیں ہے، اُن کی کوشش تھی کہ اس کے خون سے جتنے لوگ بچ سکتے ہیں وہ بچ جائیں۔ اگر وہ بروقت خون نہ دیتا تو شائد میں بھی آج آپ کے سامنے موجود نہ ہوتا۔
اس کے علاوہ ایک اور دوست جو کہ وہ بھی سُنی تھا وہ صبح اپنے نوکری پر چلا جاتا تھا کہ اور شام کو میرے پاس اسپتال آجاتا اور میرے بھائیوں کہ کہتا کہ آپ لوگ اپنے گھر کو چلے جائیں اور آرام کریں، میں اپنے بھائی کی تیمارداری کروں گا، اور شب بھر وہ دوست میری تیمارداری کرتا اور صبح ہوتے ہی وہیں سے منہ ہاتھ کہ ٓافس چلا جاتا تھا، وہ بھائی مسلسل چالیس روز میرے پاس اسپتال رہا اور میری دیکھ بھال کرتا رہا، ایثار کے اس جذبے کو دیکھا جائے اور پھر اندازہ لگایا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے درمیان شیعہ سنی معاملات اتنے سنگین نہیں ہیں۔ رہی بات ٹارگٹ کلنگ میں ملوث افراد کی تو دنیا جانتی ہے کہ اس میں کون لوگ ملوث ہیں۔ فرقہ پرست عناصر جو اپنے سوا سب کو کافر سمجھتے ہیں وہی ملوث ہیں، اُن کا سارا ریکارڈ موجود ہے، ملکی ایجسنیاں بخوبی جانتی ہیں۔ انہی عناصر کی جانب سے ہمیں دھمکیاں ملتی ہیں۔ البتہ ایک بات جو اہم ہے وہ یہ کہ اگر حکومتی عناصر اس میں ملوث نہ ہوں تو اُن میں اتنی جرات نہیں کہ یہ لوگ اس طرح اپنے حرکات و سکنات جاری رکھ سکیں۔
حکومتی عناصر سے آپ کی کیا مراد ہے، کیا حکومت فرقہ پرست عناصر کو سپورٹ کرتی ہے؟
صحافی عنصر عباس:جی ہماری بدقسمتی ہے کہ اس میں حکومتی عناصر ملوث ہیں، آپ لوگ تو خود میڈیا والے ہیں اور میری نسبت زیادہ جانتے ہیں، ضلع جھنگ میں محض چند ووٹوں کی خاطر الیکشن کمپین میں کوئی اور نہیں بلکہ پنجاب حکومت کے وزیر قانون رانا ثنا ء اللہ صاحب تھے جنہوں نے کافر کافر کے نعروں کی گونج میں احمد لودھیانوی سے ووٹ مانگے، اور وہ خود میڈیا پر کئی بار کہہ چکا ہے کہ کالعدم تنظیموں کے ووٹ کالعدم نہیں ہوتے، اب جب ایک عام پاکستانی حکمرانوں کا یہ رویہ دیکھتا ہے تو اس کی سوچ کیا بننی چاہیے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ پنجاب حکومت کی سپورٹ کے بغیر سپاہ صحابہ فعالیت نہیں کرسکتی۔ سیکڑوں آفراد کے قاتل دہشگرد ملک اسحاق کو عدالت نے چھوڑ دیا، اور اس پر گل پاشی کی گئی، اور کسی صحافی نے اس سوال کیاکہ اب آپ کام کریں گے تو اس نے بڑے دھڑلے سے کہا کہ وہی کام کروں گا جو پہلے کرتا تھا اور اب آپ دیکھ لیں کہ ملک اسحاق کی کیا سرگرمیاں ہیں،جگہ جگہ جلسے ، علی پور گھلواں کا واقعہ اور اسی طرح کے دیگر واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ پنجاب حکومت کالعدم عناصر کو ووٹ کی خاطر سپورٹ کررہے ہیں۔
اپنے شب رو ز کیسے گزارتے ہیں؟
صحافی عنصر عباس: جی کمپیوٹر کو پاؤں سے چلانا سیکھ لیا ہے اب روزانہ دن میں دس بارہ گھنٹے انٹرنیٹ پر گزرتے ہیں، فیس بک پر لبیک یا حسین(ع) کے نام پر ایک گروپ بنایا ہوا ہے، کوشش ہوتی ہے کہ اچھی چیزیں لکھوں اور دوستوں میں شئیر کروں۔ باقی کہیں پر کوئی مجلس ہو، تنظیمی پروگرام ہو اور دعائیہ پروگرام ہو تو شرکت کرلیتا ہوں۔
اس ساری صورتحال میں قومی حوالے سے کوئی تعاون کیا گیا؟
عنصر عباس:اس ساری صورتحال میں قوم نے بھرپور تعاون کیا ہے، ایک فرد زخمی ہوتا ہے تو لوگ اسپتالوں میں پہنچ جاتے ہیں، قوم سے مایوس نہیں ہیں، بس یہ کہ اپنے آپ کو ہر طرح کی قربانی کیلئے تیار رہنا چاہیے، قوم سے اپیل کرتا ہوں کہ اپنی صفوں کے اندر اتحاد پیدا کریں تاکہ دشمن میلی نگاہ سے نہ دیکھ سکے، دشمن ہماری کمزوریوں پر نگاہ رکھتا ہے۔
:قوم کو کیا پیغام دیں گے؟
صحافی عنصرعباس، جی اُن کے لئے یہی ہے کہ ہمارا تعلق حسینیت سے ہے اور حسینیت کے راستے میں قربانیاں ہیں، مشکلات ہیں، جن سے ہمیں بالکل گھبرانا نہیں چاہیے، اپنے مورال کو بلند رکھیں، اپنے اتحاد کے ذریعے دشمن کو شکست دیں، یہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، شہادتیں ہمارا ورثہ ہیں، اور یہی چیز ہماری بقاء کی ضامن ہے۔ انشاء اللہ ہم امام مہدی عج اللہ تعالی فرج کے روبرو سرخرو ہونگے، نوجوان نسل سے گزار ش ہے کہ اپنے وقت کے امام سے لو لگائے رکھیں، امام زمانہ(عج) کے بارے زیادہ سے زیادہ مطالعہ کریں، دعائے فرج کی تلاوت کریں۔ میں یقین سے کہہ کہتا ہوں کہ یہ فرقہ پرست عناصر ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، وطن عزیز کو ہمارے آباو اجداد نے اپنا خون دیکر حاصل کیا تھا اور انشاء اللہ ہم اِسے بچائیں گے۔ پاکستان ہمارا پیارا وطن ہے، جسے ہمارے آباو اجداد نے بڑی محنتوں سے حاصل کیا تھا، آج واضح ہوگیا ہے کہ جو لوگ کہتے تھے کہ شکر ہے کہ ہم پاکستان بننے کے گناہ میں شامل نہیں تھے، آج وہی لوگ اور اسی فکر کے حامل افراد اس مادر وطن کو کمزور کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔