مشرق وسطیہفتہ کی اہم خبریں

عزاداری سیدالشہداء کے بارے میں آیت اللہ خامنہ ای کے 20 جملے

رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی کی کاوشوں کی نشر و اشاعت کے دفتر کی ویب گاہ KHAMENEI[.]IR نے محرم الحرام اور حضرت سیدالشہداء (علیہ السلام) کی شہادت و عزاداری کے ایام کی مناسبت سے، سیدالشہداء (علیہ السلام) کی عزاداری کے سلسلے میں آپ کے 20 منتخب فرمودات شائع کئے ہیں

  رہبر انقلاب اسلامی اور مرجع تقلید شیعیان عالم حضرت آیت اللہ العظمیٰ امام سید علی خامنہ ای (دام ظلہ العالی) کے منتخب عاشورائی جملے حسب ذیل ہیں:

1۔ حسین بن علی (علیہ السلام) کی زندگی میں ایک نمایاں نقطہ، ـ جو [پہاڑ کی] اس چوٹی کی طرح جو ارد گرد کے تمام دامنوں کو متاثر کر دیتی ہے ـ پایا جاتا ہے اور یہ چوٹی "عاشورا” ہے۔ 26 جنوری 1993ع‍)

2۔ یقیناً دوسرے اسلامی معاشروں کی نسبت شیعیان اہل بیت(ع) کی سب سے بڑی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ عاشورا کی یاد حافظے میں محفوظ ہے۔ (7 جون 1994ع‍)

3۔ سب بڑی نعمتوں میں سے ایک، حسین بن علی (علیہ السلام) کی یاد کی نعمت ہے، یعنی مجالس عزا کی نعمت، محرم کی نعمت اور عاشورا کی نعمت، ہمارے شیعہ معاشروں کے لئے مختص ہے”۔ (7 جون 1994ع‍)

4۔ [شیعہ] مجالس عزاداری کی قدر و قیمت کو جان لیں، ان مجالس سے فیض یاب ہوجائیں، اور روحاً اور قلباً ان مجالس کو امام حسین (علیہ السلام)، خاندان رسالت اور اسلام و قرآن کی روح کے ساتھ مضبوط رابطہ اور اتصال و تعلق قائم کرنے کا ذریعہ بنا دیں۔ (7 جون 1994ع‍)

5۔ [مبلغین، خطباء اور ذاکرین] محرم کے مہینے میں حسینی معارف اور علوی تعلیمات ـ جو در حقیقت بنیادی اور صحیح قرآنی اور اسلامی تعلیمات ہیں ـ لوگوں کے لئے بیان کریں۔ (16 جون 1993ع‍)

6۔ اگر آپ مصائب پڑھنے کے لئے مرحوم محدث شیخ عباس قمی کی کتاب "نفَسُ المہموم” کو کھول کر زبانی پڑھ کر سنایا جائے تو یہ سننے والے کے لئے گریہ و بکاء کا سبب بنتا ہے، اور وہی ابلتے جذبات کو معرض وجود میں لاتا ہے؛ تو کیا ضرورت ہے کہ ہم اپنے بزعم مجلس آرائی کے لئے ایسے اقدامات کریں جو مجلس عزا اپنے حقیقی فلسفے سے دور رہ جائے۔ (7 جون 1994ع‍)

7۔ جب ہم [مجلس میں] اشعار پڑھتے ہیں تو اطمینان حاصل کریں کہ یہ اشعار ہمارے سننے اور دیکھنے والوں کے ایمان میں اضافے کا باعث بنیں گے۔ چنانچہ ہم ہر قسم کے اشعار نہيں پڑھتے، ہر قسم کے اشعار اور ہر طرز کا انتخاب نہیں کرتے؛ بلکہ اس طرح سے پڑھتے ہیں کہ لفظ، معنی اور سُر [مل کر] اثر گذار ہوں، کس چیز پر؟ ہمارے سننے والے کے ایمان پر۔ (5 جولائی 2007ع‍)

8۔ بعض چیزیں ایسی ہیں جن کا اہتمام لوگوں کو خدا اور دین خدا سے قریب کر دیتی ہیں۔ ان چیزوں یمں سے ایک یہی روایتی عزاداریاں ہیں، جو دین سے لوگوں کی زیادہ قربت کا باعث بنتی ہیں، یہ جو امام خمینی (رضوان اللہ تعالی((())) علیہ) نے فرمایا کہ روایتی عزاداریوں کی پابندی کرو، اسی قربت بڑھانے کی خاطر تھا۔ مجلس عزا میں بیٹھنا، روضہ خوانی کرنا اور مجلس پڑھنا، گریہ و بکاء کرنا، سر و سینہ پیٹنا اور عزا کے جلوسوں اور موکبوں کا اہتمام کرنا، ان امور میں سے ہیں جو عمومی جذبات کو خاندان رسالت کی نسبت پر جوش بنا دیتے ہیں، اور یہ بہت اچھی بات ہے۔  (7 جون 1994ع‍)

9۔ میں نے جتنا بھی سوچا، دیکھا کہ ممکن نہیں ہے کہ قمہ زنی [اور خونی ماتم] ـ جو حتمی طور پر ایک غیر شرعی عمل اور ایک بدعت ہے ـ کے بارے میں عزيز عوام [اور مؤمنین] کو آگاہ نہ کروں۔ مؤمنین یہ عمل نہ کریں، اگر کوئی دکھاوا کرے کہ گویا قمہ زنی کرنا چاہتا ہے، تو میں دلی طور پر اس ناراض ہوں”۔ (7 جون 1994ع‍)

10۔ ضروری ہے کہ تمام بھائیوں اور بہنوں کا شکریہ ادا کروں جنہوں نے ۔۔۔ عزاداری کے ایام میں مجالس عزا اور عزاداری کے مراسمات ـ بالخصوص ظہر عاشورا کو نماز با جماعت کا اہتمام کیا اور خاندان رسالت سے عقیدت کا اظہار کیا اور ان ایام کی تکریم و تعظیم کا اہتمام کیا۔ (8 مئی 1998ع‍)

11۔ امت اسلامیہ اور مسلمانان عالم کبھی بھی یہ بات نظر سے دور نہ رکھیں کہ عاشورا کا واقعہ ایک درس، ایک سبق، ایک عبرت اور ایک پرچم ہدایت ہے۔ یقینی امر ہے کہ اسلام عاشورا اور حسین بن علی (علیہ السلام) کی وجہ سے زندہ ہے۔ (21 نومبر 2012ع‍)

12۔ اگر کچھ لوگ اپنی جان کے تحفظ کے لئے راہ خدا (سبیل اللہ) کو تر کریں، اور جہاں انہیں حق کہنا چاہئے لیکن حق بولنے سے گریز کریں، اس لئے کہ ممکن ہے ان کی جانوں کو خطرہ لاحق ہو، یا اپنے منصب اور عہدے یا روزگار اور مال و دولت کی خاطر یا اولاد، اعزہ و اقارب اور دوستوں کی محبت میں اللہ کے راستے کو چھوڑ جائیں، تو یہ وہی زمانہ ہے کہ حسین بن علی جیسے قربان گاہ میں جاتے ہیں، اور قتل گاہوں کی طرف کھینچے جائیں گے۔ (31 اگست 2017ع‍)

13۔ اگر حسین بن علی (علیہ السلام) کی عظیم قربانی نہ ہوتی، ـ جس قربانی نے تاریخ نے تاریخ کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر مکمل طور پر بیدار کیا ـ تو اسی پہلی صدی ہجری میں یا پھر دوسری صدی ہجری کے نصف اول میں، اسلام کی بساط لپیٹ لی جاتی۔ (16 جون 1993ع‍)

14۔ کربلا میں امام حسین (علیہ الصلاۃ والسلام) کا کام بعثت کے وقت، آپ کے جد مطہر حضرت محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے کام سے قابل تشبیہ و قیاس ہے؛ بات یہ ہے۔ جس طرح کہ وہاں [بعثت کے وقت] پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو تنِ نتہا، ایک دنیا کا سامنا تھا، امام حسین (علیہ السلام) کو بھی کربلا کے واقعے میں، تنِ تنہا ایک دنیا کا سامنا تھا۔ (14 دسمبر 1996ع‍)

15۔ عبرت یہ ہے کہ انسان نظر دوڑائے اور دیکھ لے کہ کیا ہؤا کہ حسین بن علی (علیہ السلام) ـ وہی چھوٹا سا بچہ جس کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) لوگوں کی آنکھوں کے سامنے تجلیل و تکریم کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ "سیّد شباب أهلِ الجَنَّةِ” (جنتیوں کے سردار) ہے؛ ـ صرف نصف صدی گذرنے کے بعد اس المناک انداز سے قتل کیا گیا؟! (5 جنوری 1995ع‍) [کیا سکھایا تھا جانشینان رسول(ص) کہلوانے والوں نے امت کو اس عرصے میں؟]۔

16۔ امام حسین کو صرف روزا عاشورا کی جنگ کے واسطے سے ہی نہیں پہچاننا چاہئے؛ یہ حسینی جہاد کا صرف ایک حصہ ہے۔ آپ کی شخصیت و کردار کی تشریح، آپ کے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تشریح، مِنٰی اور عرفات میں ہی آپ سے متعلق مختلف مسائل کی تشریح ـ علمائے اسلام سے خطاب، دنشوروں سے خطاب وغیرہ؛ آنجناب سے ان مقامات پر بہت عمدہ بیانات منقول ہیں، جو کتابوں میں ضبط و ثبت ہوئے ہیں ـ بعدازاں مکہ سے کربلا کی سمت سفر کے دوران، کربلا میں اور میدان کربلا میں، ان تمام کو جاننا اور پہچاننا چاہئے [امام حسین علیہ السلام کی پہچان کے لئے]۔ (27 جولائی 2009ع‍)

17۔ عاشورا ایسے پیغامات اور اسباق و دروس پر مشتمل ہے۔ عشورا ہمیں درس دیتا ہے کہ دین کے تحفظ کے لئے قربانی دینا چاہئے؛ درس دیتا ہے کہ قرآن کی راہ میں اپنی ہر چیز سے گذرنا چاہئے؛ درس دیتا ہے کہ حق و باطل کے معرکے کے میدان میں بڑے چھوٹے، عورتیں اور مرد، بوڑھے اور جوان، اعلیٰ و ادنیٰ اور امام و رعایا سب کو ایک صف میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ (13 جولائی، 1992ع‍)

18۔ عاشورا کا درس، فداکاری، ایثار اور دین داری، شجاعت، مواسات و اللہ کے لئے قیام (قوموا للہ ۔۔۔) اور محبت و عشق کا درس ہے۔ عاشورا کا ایک عظیم اور بڑا درس یہی اسلامی انقلاب ہے جو ملت ایران نے حسینِ زمانہ اور ابی عبداللہ الحسین (علیہ السلام) کے فرزند (حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ) کی قیادت میں  بپا کیا۔ یہ عاشورا کا ایک بڑا درس ہے۔ (8 مئی 1998ع‍)

19۔ ہمارے امام بزرگوار (امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ) نے فرمایا تھا کہ محرم وہ مہینہ ہے جس میں خون تلوار پر فتح پاتا؛ اور آنجناب نے محرم کی برکت سے، اسی تجزیئے اور اسی منطق کے تحت، خون کو تلوار پر فتح دلائی؛ ماہ محرم اور امام حسین (علیہ السلام) کے ذکر و یاد کے لئے بپا ہونے والی مجالس کی نعمت کا ایک جلوہ یہی ہے، جو آپ نے دیکھا۔ (7 جون 1994ع‍)

20۔ حسین بن علی (علیہ الصلاۃ و السلام) کا امت مسلمہ کو دیا ہؤا درس یہ ہے کہ حق کے لئے، عدل کے لئے، عدل کے قیام کے لئے، ظلم کا مقابلہ کرنے کے لئے، ہمیشہ ہمیشہ تیار اور کمربستہ رہیں، اور اپنا پورا سرمایہ میدان میں لائیں، اس سطح پر یہ سب کرنا میرا اور آپ کا کام نہيں ہے لیکن ہماری اپنی صورت حال، ہماری عادات و اخلاق کے تناسب سے، یہ سب ہونا چاہئے؛ ہاں مگر ہمیں اس سطح پر بھی یہ سب کرنا سیکھنا چاہئے۔ (12 جون 2013ع‍)

امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) کے کچھ دعائیہ-عاشورائی جملے:

* پروردگارا! تجھے حسین و زینب علیہما السلام کی قسم دلاتے ہیں، ہمیں ان کے حب داروں، مددگاروں اور پیروکاروں کے زمرے میں قرار دے۔

* پروردگارا! ہماری حیات اور زندگی کو حسینی حیات اور ہماری موت کو حسینی موت قرار دے۔

* پروردگارا! ہمارے امام بزرگوار (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ) کو ـ جنہوں نے ہمیں اس راہ پر گامزن کیا ـ شہدائے کربلا کے ساتھ محشور فرما۔ ہمارے شہداء کو شہدائے کربلا کے ساتھ محشور فرما۔ (22 مئی 1995ع‍)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button