مضامین
مشرق وسطیٰ میں شورش کی لہر
مصر اور تیونس میں حکومت مخالف مظاہروں کے نتیجے میں دونوں ممالک کے صدور کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد شورش کی اس لہر نے خطے کے دوسرے ممالک کا رخ کر لیا ہے تو کیا یہ لہر دوسرے ممالک کی حکومتوں کو بھی بہا کر لے جا سکتی ہے۔
بحرین کے دارالحکومت مناما کے پرل سکوائر میں ایک بار پھر مظاہرین کی ایک بہت بڑی تعداد جمع ہوئی ہے۔ انہوں نے چوک میں اپنے کیمپ اور ایک عارضی ہسپتال قائم کر لیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہاں کچھ عرصے تک قیام کا ارادہ رکھتے ہیںبحرین میں مظاہرین حکومت سے وسیع پیمانے پر سیاسی اصلاحات اور پرامن سیاسی تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بحرینی فوج نے جمعرات کو طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اس چوک میں موجود مظاہرین کو منتشر کر دیا تھا تاہم سنیچر کو فوج کی جانب سے علاقہ خالی کیے جانے کے بعد مظاہرین پھر سے پرل سکوائر میں داخل ہوگئے تھے۔
اب تک بحرین میں حکومت مخالف مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں چار افراد ہلاک اور دو سو تیس سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
بحرین کی اکثر آبادی کا تعلق شیعہ فرقے سے ہے لیکن یہاں سنی اقلیت برسرِ اقتدار ہے اور حکومت ان مظاہروں کو فرقہ واریت سے جوڑ رہی ہے۔واضح رہے کہ برطانوی سامراج نے ماضی میں بحرین کی آزادی کے وقت وہاں پر اپنا تسلط قاءم رکھنے کے لیے بحرین کی سنی اکثریت کو اپنا آلہ کار بناتے ہویے شیعہ اکثریت کے حقوق کی تلفی کا پروگرام ترتیب دیا جسے بعد میں آبادی کے تناسب کو کم کرنے اور شیعہ اکثریت کے حقوق کو غصب کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔
برطانیہ سے سنہ انیس سو اکہتر میں آزادی حاصل کرنے کے بعد سے بحرین کے سنی مراعاتی طبقے اور کم خوشحال شیعہ اکثریت کے درمیان کشیدگی رہی ہے اور شیعہ اکثریت کا کہنا ہے کہ وہ غیر اہم بن کے رہ رہے ہیں، ان کے لیے غیر منصفانہ قانون ہے اور انھیں طاقت سے دبایا جاتا ہے۔جبکہ شیعہ آبادی کی اکثریت کے باوجود گذشتہ تین دہاءیوں سے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے جس کو مزید برداشت نہیں کیا جایے گا۔
سنہ انیس سو ننانوے میں کشیدگی اس وقت قدرے کم ہوئی جب شیخ حماد بحرین کے امیر بنے۔ انھوں نے سیاسی قیدیوں کو رہا کیا، ملک بدر لوگوں کو وطن واپس آنے کی اجازت دی اور اس قانون کو ختم کر دیا جس کے تحت حکومت افراد کو تین سال تک مقدمہ چلائے بغیر حراست میں رکھ سکتی تھی۔
سنہ دو ہزار دو میں انھوں نے اپنے شاہ ہونے کا اعلان کردیا اور فرمان جاری کیا کہ ملک میں ایک قومی اسمبلی بنائی جائےگی۔ اسی سال ملک میں انتخابات ہوئے لیکن اپوزیشن نے ان کا بائیکاٹ کر دیا۔مبصرین کہتے ہیں کہ شاہ نے عوام سے جو وعدے کیے تھے ان میں سے بہت سے پورے نہیں ہوئے۔