پاکستانی شیعہ خبریں

سانحہ مستونگ:بلوچستان ہائی کورٹ نے وزارت داخلہ کی رپورٹ کو مسترد کر دیا

shiitenews Balochistan HighCourt criticisesبلوچستا ن ہائی کورٹ نے وزارت داخلہ کی جانب سے سانحہ مستونگ پر جمع کروائی گئی تحقیقات کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔شیعت نیوز کے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق بلوچستا ن ہائی کورٹ نے وزارت داخلہ کی جانب سے سانحہ مستونگ پر جمع کروائی گئی تحقیقات کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ ١٩ ستمبر کوایران جانے والے چھبیس زائرین امام رضا علیہ السلام کو کالعدم دہشت گرد گروہوں سپاہ صحابہ ،لشکر جھنگوی اور طالبان دہشت گردوںنے بلوچستان کے علاقے مستونگ میں زائرین کو بس سے اتار کر فائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا جس کے بعد شیعہ عمائدین نے ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا تھا تاہم بلوچستان ہائی کورٹ نے سانحہ مستونگ کیس کی شنوائی شروع کی تھی جس کے نتیجہ میں سوبائئی وزارت داخلہ کو سانحہ کے حقائق سے پردہ اٹھانے کے لئے تحقیقات کا حکم دیا تھا تاہم وزارت داخلہ بلوچستان نے جو رپورٹ جمع کی ہے اس پر عدالت عالیہ نے زبر دست تنقید کرتے ہوئے یکسر مسترد کر دی ہے اور واضح اور شفاف تحقیقات طلب کر لیں ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سانحہ مستونگ کیس کی سماعت ہائی کورٹ کے جج جسٹس قاضی فیض عیسیٰ اور جسٹس ہاشم خان کھر نے کی۔جبکہ بلوچستان حکومت کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل امان اللہ کنرانی عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور وزارت داخلہ کی رپورٹ پیش کی۔
وزارت داخلہ کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہائی ویز کی سیکورٹی میں اضافہ کیا گیا ہے جبکہ زائرین کے لئے ضروری ہے کہ وہ این او سی حاصل کریں اور پھر ان کو ایران سفر کی اجازت دی جائے گی ۔
کیس کی سماعت کے دوران کمیٹی نے تین افراد بشمول ڈرائیور اور کلینر کے بیانات بھی قلم بند کئے تاہم سانحہ کے کسی بچ جانے والے ذخمی کے بیان کو ریکارڈ نہیں کیا گیا تھا،جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ آخر کیوں کسی ذخمی کا بیان کمیٹی نے ریکارڈ نہیں کیا ،جس پر وکیل نے بتایا کہ کسی سی آئی ڈی پولیس کو تحقیقات کے لئے دیا جائے جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ لیویز کیوں سیکورٹی فراہم نہیں کر سکیں اور آخر لیویز کیوں اس کیس کی تحقیقات نہیں کر رہی؟
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ انوسٹی گیشن کا مسئلہ نہین بلکہ بلوچستان حکومت کی نااہلی ہے جو بلوچستان کو تباہ و برباد کرنے کے در پے ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button