مضامین
امام خمینی رح کی صدائے حق پسندی
بحرین کی پارلمینٹ میں جمعیت اسلامی وفاق کے نمائندے علی الاسود نے العالم کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ بحرین کے مخالف سیاسی گروہ حکومت کے ساتھ سرے سے مذاکرات کے خلاف نہيں ہيں، لیکن یہ مذاکرات موجودہ حکومت کے استعفے کے بعد ہی ممکن ہيں۔ ادھر بحرین کے سینکڑوں ادیبوں، وکیلوں، فنکاروں، مصنفین اور بحرین کی سیاسی و سماجی تنظیموں نے الذالہ اسکوائر سے شروع ہو کر پرل اسکوائر پر پہنچ کر اختتام پذیر ہونے والے مظاہروں میں، قومی اتحاد برقرار رکھنے اور مذہبی فتنے سے بچے رہنے پر تاکید کی، جسے بعض لوگ ہوا دے رہے ہیں۔
احتجاجی مظاہرین نعرے لگا رہےتھے کہ، شیعہ و سنی بھائی ہیں۔ شیعہ اور سنی بحرین کے خدمت گذار ہيں۔ ہم اپنے ملک کو اغیار کے ہاتھوں نہيں بیچیں گے۔ مظاہرین تمام بحرینیوں کے درمیان اتحاد پر زور دے رہے تھے۔
واضح رہے کہ بحرین کے عوام منگل کو بھی لولو اسکوائر پر زبردست احتجاجی مظاہرے کرنے والے ہیں۔
بحرینی تنظیموں اور اداروں نے ان مظاہروں کی حمایت کی ہے۔ در این اثناء بحرین میں الوفاق دھڑے کے پارلمانی ارکان نے استعفٰی دیدیا ہے۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق شیعہ پارلمانی پارٹی نے حکومت کی تشدد آمیز کاروائیوں پر احتجاج کرتے ہوئے استعفٰی دیا ہے۔ الوفاق دھڑے نے اپنے بیان میں مظاہرین کے خلاف حکومت کی روش کو دہشت گردانہ روش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملت بحرین کے حقوق کا دفاع کرتے ہوئے وہ ایسی پارلمنٹ سے استعفٰی دے رہے ہیں جو ملت کے خلاف انجام دیئے گئے جرائم اور خونریزی پر خاموش ہے۔
بحرین ان عرب ممالک میں شامل ہے کہ جن کے مغرب کے ساتھ انتہائی قریبی تعلقات ہیں۔ تینتیس جزیروں پر مشتمل یہ چھوٹا سا ملک اپنی آزادی کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد عالمی سطح پر امریکہ کے سب سے قریبی غیر نیٹو فوجی اتحادی میں تبدیل ہو گیا۔ بحرین میں اس وقت امریکہ کے پانچویں بحری بیڑے کا اڈہ ہے اور اس کی سرزمین پر پندرہ سو امریکی فوجی موجود ہیں۔ بحرین کی چھوٹی سی فوج اگرچہ امریکی اسلحے سے لیس ہے، لیکن اس ملک کی فی کس آمدنی ستائیس ہزار ڈالر سے زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ یورپی ملکوں کے لیے ہتھیار برآمد کرنے کی ایک اچھی منڈی ہے۔ برطانیہ اور فرانس جیسے یورپی ملکوں کے ساتھ بحرین کی تجارت میں ہتھیاروں کا ایک بڑا حصہ ہے اور یہ ہتھیار اب احتجاج کرنے والے عوام کو کچلنے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اگرچہ بحرین ایک پرامن ترین عرب ملک شمار کیا جاتا ہے لیکن مصر اور تیونس کے تجربے نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ بحرین کے موجودہ حکمرانوں کے اقتدار کے بارے میں بھی زیادہ خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ بحرین کے لؤلؤ اسکوائر میں مظاہرین کو سختی سے کچلنے کے بعد بھی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
بحرین کے حکام نے گفتگو سمیت پرامن طریقے اپنا کر مخالفین کو مظاہرے ختم کرنے کی ترغیب دلانے کی کوشش کی لیکن مخالفین نے ان کی اس تجویز کا خیرمقدم نہیں کیا۔ اس بنا پر یہ کہا جا رہا ہے کہ بحرین میں مظاہروں کا دائرہ مزید پھیلے گا اور اس ملک میں موجودہ حکومت کے گرنے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
پورے خطہ عرب میں عوام کی اکثریت جمہوریت کے لئے سڑکوں پرنکل آئی ہے اور سالہا سال سے مسند اقتدار پر براجمان آمروں اور ڈکٹیٹروں کا تخت و تاج چھین لینا چاہتی ہے۔ اس کےاصلی اسباب و علل ان حکومتوں کا غاصب و جابر اور آمر ہونے کے ساتھ ہی کٹھ پتلی اور مغربی بازيگروں کا بازیچہ اطفال ہونا بھی ہے، جنھوں نے مختلف ناموں سے ہمیشہ قوموں کے حقوق کو پامال کیا، ان ممالک پر غاصبانہ قبضہ کیا اور ان کے قومی ذخائر لوٹے اور پھر اپنے مفاد کے تحفظ کے لئے آمروں کو کٹھ پتلی بنا کر چھوڑ گئے۔ یہ تو کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہيں ہے کہ مغربی ممالک نے باری باری سے قدرتی ذخائر سے مالامال مشرق وسطی کو لوٹا۔ یہ بات مسلم ہے کہ ایک نیا مشرق وسطی وجود میں آ رہا ہے، مشرق وسطٰی کے بعض ملکوں میں ان ملکوں کے مغربی طاقتوں سے وابستہ آمروں کےخلاف عوامی تحریکوں نے کہ جن کے نتیجے میں اب تک تیونس اور مصر میں دو استبدادی حکومتوں کا تختہ الٹ چکا ہے، علاقے میں تسلط پسند طاقتوں کے مفادات کو خطرےمیں ڈال دیا ہے۔
شمالی افریقہ کے ایک اور ملک میں ایک اور ڈکٹیٹر کی حکومت اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔ اس ملک کا نام ہے لیبیا اور ڈکٹیٹر کا نام ہے قذافی۔ قذافی نے چار عشروں پر محیط اپنے اقتدار کو بچانے لۓ اپنے ہی عوام کے خون کی ہولی کھیلی، لیکن جب دیکھا کہ عوام کے خون کا سیلاب اس ڈکٹیٹر حکومت کو تنکے کی طرح بہا کر لے جاۓ گا تو قذافی نے عوام سے کوئي معقول بات کرنے کے بجاۓ اور خون بہانے کی بات کی۔ اور عوام کو ڈرایا دھمکایا کہ اگر انہوں نے اپنے احتجاجات کا سلسلہ ختم نہیں کیا تو وہ بھی خون کی ندیاں بہا دیں گے۔ لیکن قذافی کی یہ دھمکی بھی لگتا ہے کہ عوام کے حوصلے پست نہیں کر سکی ہے۔ بلکہ عوام اب ایک نئے جذبے اور ولولے کے ساتھ میدان میں آئے ہیں۔ اور قرائن یہ بتا رہے ہیں کہ قذافی کی ڈکٹیٹر حکومت عوامی طاقت کا مقابلہ نہیں کرپائے گی اور اس کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے۔ مشرق وسطٰی میں شروع ہونے والی اسلامی تحریکووں کی لہر اسلامی اور انسانی اقدار سے اٹھی ہے۔ یہ اقدار گذشتہ تین عشروں سے اس
لامی جمہوریہ ایران کی پائیداری اور پیشرفت کے ضامن رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں اسلامی انقلاب، مشرق وسطٰی کی قوموں کی حریت پسندانہ تحریکوں کے لئے آئيڈیل میں تبدیل ہو چکا ہے۔
لامی جمہوریہ ایران کی پائیداری اور پیشرفت کے ضامن رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں اسلامی انقلاب، مشرق وسطٰی کی قوموں کی حریت پسندانہ تحریکوں کے لئے آئيڈیل میں تبدیل ہو چکا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایران کےاسلامی انقلاب کی اہم ترین خصوصیت، اس کا قوموں کے لئے آيیڈیل ہونا ہی قرار دیا ہے۔ کیونکہ گذشتہ بتیس برسوں میں دشمنوں کے دباؤ کے سامنے ملت ایران کی استقامت و پائیداری اپنی مثال آپ رہی ہے اور اس نے اسے ناقابل تسخیر قلع بنا دیا آج علاقے کی قومیں بھی ایرانی قوم کی طرح بیدار ہو چکی ہیں اور اپنے برحق مطالبات کو منوانے کے لئے انہوں نے تحریک شروع کر دی ہے۔
علاقائی قوموں نے بھی اسی راہ پر چلنا شروع کر دیا جسے ملت ایران نے اسلام کی تعلیمات کے سہارے فخر اور سربلندی سے طے کیا ہے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کو تین دھائياں گذرنے کے بعد امام خمینی رح کی صدائے حق پسندی نے علاقے میں اسلامی بیداری کو ظہور بخشا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی کے ارشاد کے مطابق آج مشرق وسطٰی اور عالم اسلام میں قومیں بیدار ہو چکی ہیں اور اب جابر حکام اور ان کی حکومتوں کے زوال کا وقت آن پہنچا ہے۔
تحریر:محمد علی نقوی
اسلام ٹائمز