پاکستانی شیعہ خبریں

خون اتنا سستا کیوں ہے پاکستان میں؟ ملک اسحق کی کہانی//اسپیشل رپورٹ

shiitenews ssp killersلشکر جھنگوی ، القائدہ اور امریکی حمایت سے سرشار، دیوبند فرقہ سے تعلق رکھنے والا یہ دہشت گرد گروپ شیعہ مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہے۔ لشکر جھنگوی کی تازہ ترین کاروائیوں میں کوئٹہ میں بس میں سفر کرنے والے نہتے  ۱۳ مسافروں کا قتل ہےجنہیں سفاکی کے ساتھ قتل کردیا گیا۔ دہشت گردوں نے پہلے مسافروں کو بس سے اتارہ اور ایک قطار میں کھڑا کر کے گولیوں سے بھون ڈالا۔ تسلسل کے ساتھ یکے بعد دیگرے دہشت گردی کے ان واقعات کو حال ہی میں 14 جولائی کو ملک اسحق کی رہائی سے جوڑا جاتاہے، ملک اسحق لشکر جھنگوی کے بانی ممبران میں سے ہےاور پہلے ہی ۲۰ ستمبر کو  کوئٹہ مستونگ میں ہونے

والے ۲۹ شیعہ مسلمانوں کے قتل عام کی ذمہ داری قبول کرچکا ہے۔ شہید ہونے والے تمام افراد کوئٹہ سے ایران جا رہے تھے کہ بھاری ہتھیاروں سے لیس دہشت گردوں نے بس کو روک کر تمام زائرین کو بس سے اتار لیا اور عورتوں اور بچوں کے سامنے ان کے پیاروں کو بے رحمی سے قتل کردیا گیا۔

 ستمبر ۲۰۱۰ کے بعد کوئٹہ میں ہونے والا شیعہ مسلمانوں کا یہ قتل عام  سب سے بڑا تھا، واضح رہے کہ 4 ستمبر۲۰۱۰ کو خود کش حملہ آو ر نے عاشورہ کے جلوس میں ۵۷ مومنین کو شہید کردیا تھا۔ مستونگ میں ہونے والا دہشت گردی کا یہ واقعہ اتفاقیہ نہیں تھا  بلکہ شیعہ مسلمانوں کے خلاف جاری دہشت گردی کے وقعات کا تسلسل تھا جس میں ملک اسحق کی رہائی کے بعد سے تیزی آئی ہے۔ کوئٹہ میں ۱۹۹۹ کے بعد سے صرف ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں شیعہ افراد کو شہید کیا جاچکا ہے۔

ہزارہ برادری بنیادی طور پر افغانستان کے وسط میں آباد ہیں اور شیعہ مسلمان ہیں اور افغانستان میںمذہبی اعتبار سے بسنے والے تیسری بڑی قوم ہیں، پاکستان میں محتاط اندازے کے مطابق ۵ لاکھ سے زائد ہزارہ شیعہ آباد ہیں جن میں سے زیادہ تر کوئٹہ میں رہائش پذیر ہیں۔

مستونگ میں ۲۹ شیعہ مسلمانوں کے قتل عام کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے لشکر جھنگوی کے ترجمان نے کہا کہ: ہمارے کارکن شیعہ فرقہ کو  نشانہ بناتے رہیں گے۔

لشکر جھنگوی کے طرف سے ہونے والے پروپیگنڈے ، وال چاکنگ اور شر انگیز اور اشتعال انگیز پمفلیٹ میں شیعوں کو کافر اور واجب القتل قرار دیا جاتا رہا ہے اور  مستقونگ کے واقعے سے چند ہفتوں قبل بھی لشکر جھنگوی کی طرف سے شیعہ مسلمانوں کے خلاف اردو زبان میں ایک پرچہ تقسیم کیا گیاتھا جس میں ہمیشہ کی طرح شیعہ مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کی گئی تھی، اس میں لکھا تھا؛
تمام شیعہ واجب القتل ہیں اور ہم پاکستان کو شیعوں سے پاک کر کے رہیں گے۔ پاکستان ہمارا ہے اور شیعوں کا پاکستان پر کوئی حق نہیں، ہمارے پاس بہت سارے مفتیوں کے ان کے دستخط کے ساتھ فتوے موجود ہیں جس میں شیعوں کو کافر قرار دیا گیا ہے، جیسے کے ہمارے کارکن افغانستان میں ہزارہ شیعوں کے خلاف کاروئیاں کرتے رہے ہیں اب ہم ان کار وائیوں کا دائرہ وسیع کر رہے ہیں اور اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ پاکستان کے ہر شہر، گائوں اور قصبہ کو شیعوں سے پاک کردیا جائے گا  اور پاکستان پر حقیقی اسلام کا پرچم لہرا دیا جائے گا

  تحقیقی اداروں کو اس بات پر یقین ہے کہ  شیعہ مسلمانوں کے خلاف حالیہ دہشت گردی کے واقعات کا ملک اسحق کی رہائی سے تعلق ضرور ہے، لشکر جھنگوی کا ملک اسحق جس پر ۱۰۰ سے زائد قتل کا الزام ہے۔ ملک اسحق کی رہائی نے فرقہ ورانہ تنائو میں نا قابل یقین حد تک اضافہ کیا ہےجس کی وجہ اس کی وہ تقاریر ہیں جو اس نے اپنی رہائی کے بعد مختلف مواقع پر کی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ۲۱ ستمبر کو سانحہ مستونگ کے ٹھیک ۲۴ گھنٹوں کے بعد ملک اسحق کو رحیم یار خان میں عارضی طور پر اس کے گھر میں نظر بند کردیا گیا، ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سہیل چٹھہ  کے مطابق ملک اسحق کی رہائی نے فرقہ ورانہ ہم آہنگی کو خطرات سے دوچار کردیا ہے اور ملک میں اچانک فرقہ ورانہ کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔

محکمہ داخلہ پنجاب کے ایک سرکاری دستاویز کے مطابق، ملک اسحق نےاپنی رہائی کہ فوراً بعدملتان میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ صحابہ کے دشمنوں کا قتل جاری رکھے گا۔  اس نے کہا کہ وہ لوگ جو صحابہ کے مخالف ہیں وہ ہمارے نہیں بلکہ اسلام کے دشمن ہیں، ہم ان کے خلاف جہا د جاری رکھیں گے اور کسی قیمت پر ان کو براشت نہیں کریں گے۔سرکاری دستاویز جس کا عنوان ملک اسحق کی مجرمانہ سرگرمیاں تھا کیمطابق ۶ ستمبر  ۲۰۱۱ کو ملک اسحق نے بدنام زمانہ دہشت گرد عبدل وہاب عرف عینک والا جن سے ملاقات کی جس کا نام انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہے۔
دو ہفتے قبل ۱۹ ستمبر کو ملک اسحق کے گن مین کا مظفر گڑھ میں ایک ریلی کی قیادت کرتے ہوئے مخالف گروپ سے تصادم ہوا جس کے نتیجے میں دو افراد ہلاک ہوئے۔ ملک اسحق نے  حکومتی احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جلوس کی قیادت سنبھالی ، جبکہ ملک اسحق کو قوانین کی رو سے اس بات کا پابند تھا کہ مقامی پولیس کو مطلع کیے بغیر بلکہ اجازت لیے بغیر مقامی تھانے کی حدود سے باہر نہیں جا سکتا ہے، اس خلاف ورزی اور دو افراد کے قتل کے بعد ملک اسحق کو نظر بند کردیا گیا لیکن صرف ایک ماہ کے لیے، اور ایک ماہ کے بعد ملک اسحق پھر سے اسلام کے نام پر تشدد اور نفرت کو فروغ دینے کیلئے آزاد ہوگا۔
پنجاب پولیس ک
ے ریکارڈ کے مطابق ۱۰۲ افراد کے قتل کے الزام میں ۱۹۹۷ کو جب ملک اسحق کو گرفتار کیا گیا تو اس نے ۱۱ افراد کے قتل کا اعتراف کیا اور ۵۷ دیگر قتل کی وارداتوں کی منصوبہ بندی کا بھی اعتراف کیا۔  ملک اسحق کے وکیل مصباح الحق  نے سپریم کورٹ میں ضمانت کی درخواست میں کہا کہ ثبوت کی عدم دستیابی کی وجہ سے ۳۵ کیسوں میں ملک اسحق  پر جرم ثابت نہیں ہوسکا، ۸ کیسوں میں ضمانت  اور ایک کیس میں بری کردیا گیا ہے۔

ملک اسحق پر آخری لگنے والا الزام ، سری لنکن ٹیم پر حملہ کی منصوبہ بندی کا تھا جو اس نے جیل میں رہ کر کی۔ ابتدائی تفتیش میں یہ واضح ہوا کے لشکر جھنگوی کے دہشت گردوں کا مقصد سری لنکن ٹیم کو یر غمال بنا کر ملک اسحق کی رہائی تھا۔ بحر کیف ملک اسحق کو سپریم کورٹ سے جو لائی میں  ۱۰ لاکھ روپے کی ضمانت پر رہا کردیا گیا اوراس کی وجہ ثبوت کی عدم دستیابی اور وکیل استغاثہ کی طرف سے کمزور دلائل کو قرار دیا گیا۔ اپنا  فیصلہ سناتے وقت جسٹس شاہد صدیقی اور جسٹس عارف کھوسہ پر مشتمل بینچ نے استغاثہ کی طرف سے کمزور کیس تیار کرنے پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ کورٹ میں صرف دو گووہوں کو پیش کیا گیا جنہوں نے کورٹ میں بتایا کہ انہوں نے کچھ لوگوں کی بات چیت سنی جس میں وہ سر لنکن کرکٹ ٹیم کو یر غمال بنا کر ملک اسحق کی رہائی کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔  دوسری طرف ملک اسحق نے اپنی رہائی کے بعد میڈیا سے تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا: نہ تو ہم دہشت گرد ہیں اور نہ ہی قاتل اور عدالت نے بھی یہ ثا بت کردیا ہے۔رہائی کے بعدجیل کے باہراُس کا استقبال اس کے مسلح دہشت گرد ساتھیوں نے کیا۔

کلنک کا ٹیکہ

ملک اسحق ولد علی محمد اعوان ۱۹۵۹ میں جنوبی پنجاب کے رحیم یار خان ڈسٹرکٹ میں پیدا ہوا، چھٹی جماعت کے بعد ہی پڑہائی سے رغبت نہ ہونے کے سبب ملک اسحق نے اسکول کو خیر باد کہ دیا۔   ۱۹۸۹میں کالعدم دیو بند تنظیم سپاہ صحابہ میں شمولیت سے قبل ملک اسحق سیگریٹ بیچا کرتا تھا ، تنظیم میں شمولیت کے بعد اس کی ملاقات سپاہ صحابہ کے بانی حق نواز جھنگوی سے ہوئی، ملک اسحق نے اپنی فرقہ ورانہ کا روائیوں کا آغاز فوراً ہی کردیا تھا اور ۱۹۹۶ میں اپنے دوستوں ریاض بصرہ اور اکرم لاہوری کے ساتھ ملکر لسکر جھنگوی کی بنیاد رکھی تھی۔ اسحق لشکر جھنگوی کی تاسیس کے پہلے سال یہ گرفتار ہوا لیکن چند مہینوں میں حوالات سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا اور پھر ۱۹۹۷ میں دوبارہ گرفتار ہوا۔

اسحق کی رہائی کی پیشن گوئی سپریم کورٹ سے رہائی ملنے سے تقریباً دو سال قبل بین الااقوامی میڈیا کر چکا تھا۔ 17 اگست ۲۰۰۹ کو نیو یارک ٹائمز نے  فدا حسین گھلوی کے بارے میں لکھا جس نے  ۱۲ سال قبل  اپنے خاندان کے ۱۲ افراد کے اسحق کے ہاتھوں قتل ہونےکی، اسحق کیخلاف گواہی دی تھی، فدا حسین گھلوی ملتان میں اس ڈر کے ساتھ اپنی اداس زندگی گھر کی چار دیواری میں قید ہو کر گذار رہا تھا کہ سفاک ملک اسحق کسی بھی وقت جیل سے باہر آسکتا ہے۔نیو یارک ٹائمز کیمطابق فدا حسین گھلوی کو آج بھی ملک اسحق کے ساتھیوں کی طرف سے دھمکیاں موصول ہوتی ہیں۔نیو یارک ٹائمز مذید لکھتا ہے کہ ۱۹۹۷ میں ملک اسحق نے گرفتاری کے بعد اپنے منظم گروہ کو اپنے مخالفین ، گواہوں کے قتل ، ججوں اور پولیس کو ڈرانے دھمکانے کیلئے استعمال کیا، جس کا نتیجہ اسحق پر لگنے والے تمام الزامات کا ثابت نہ ہونا ہے۔ نیو یارک ٹائمز ملک اسحق کیخلاف قائم قائم کیسیز کے بارے میں لکھتا ہے کہ : اس وقت ملک اسحق کیخلاف تقریباً تمام کیس یا تو ختم ہوچکے ہیں یا پھر بہت کمزور،  اخبار مزید لکھتا ہے کہ ملک اسحق ، جہادی ہیرو کسی بھی وقت جیل سے باہر آسکتا ہے اور یہی خیال فدا حسین کو پریشان کردیتا ہے، فدا حسین کے بقول اس کی زندگی ایک قید کی شکل اختیار کرچکی ہے میں کہیں بھی نہیں جا سکتا حتیٰ کے کسی کے دفن میں بھی نہیں، میری ۱۳ سالہ جدوجہد کا صلہ سوائے غم کے کچھ نہیں۔

دراصل جب فدا حسین اور تین دوسرے افراد نے کورٹ میں ملک اسحق کو شناخت کیا، تو ملک اسحق نے جج کے سامنے ان کو مخاطب کر کے کہا کہ ــ’’ مرے ہوئے لوگ باتیں نہیں کیا کرتے‘‘ ، اس کے علاوہ پانچ گواہوں اور ان کے تین رشتہ داروں کو کیس چلنے کے دوران ہی شہید کر دیا گیا، ملک اسحق پر ملتان میں ایرانی ثقافتی سینٹر پر بم دھماکوں کا بھی الزام ہے، جس میں ۸ افراد شہید ہو گئے تھے، جب  انوسٹیگیشن آفیسر اعجاز شفیع دو گواہوں کو عدالت میں اسحق کیخلاف گواہی کیلئے پیش کیا تو اس کی کار  نا معلوم مسلح افراد نے دن دہاڑےگولیوںسے چھلنی کردی۔

انسداد دہشت گردی کورٹ کے جج بشیر احمد بھٹی نے ایرانی ثقافتی سینٹر دھماکہ کیس میں ملزم قرار دیا لیکن سپریم کورٹ نے ۲۰۰۶میں اس فیصلے کو عدم ثبوت کی بنا پر رد کردیا۔مارچ ۲۰۰۷ میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کے یہی جج ملک اسحق کیخلاف ایک اور کیس کی سماعت کیلئے عدالت کی طرف آرہے تھے کہ راستے میں سائکل میں نصب ریموٹ کنٹرول بم  دھماکے کے نتیجے میں ان کی کار کا ڈرئیور اور دو پولیس اہلکار جاں بحق ہو گئے۔ اسحق پر اس دھماکے کی منصوبہ بندی کا مقدمہ بھی قائم ہوا لیکن ہمیشہ کی طرح ثبوت کی عدم دستیابی کی بنا پر ۲۰۰۹ میں ختم ہو گیا۔

اسحق کی حالیہ رہائی کے بارے میں ایکمقدمہ میں اسحق کیخلاف گواہی کیلئے پیش ہونے والےسکندرنےکہاکہ: ــ’’مجھ پر کسی بھی وقت حملہ ہو سکتا ہے ، مجھے نہیں معلوم کہ میں کل زندہ بھی رہوں گا یا نہیں کیونکہ زیادہ تر گواہوں کو قتل کردیا گیا ہے ا
ور ان کے رشتہ داروں کو بھی‘‘۔

ڈینئیل پرل قتل کیس کے مرکزی کردار شیخ احمد عمر سعید کو ۲۰۰۲ میں ڈینئیل پرل کے قتل کے جرم میں سزائے موت دے دی گئی جبکہ ملک اسحق پر جیل کے کسی بھی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا ہے، وہ سلاخوں کے پیچھے ہونے کے باوجود دہشت گردی کی مختلف وارداتوں کی منصوبہ بندی کرتا ہے اور ان کو کنٹرول بھی کرتا ہے۔ اس میں کسی اچھنبے کی بات نہیں ہے کہ پاکستان آرمی ملک اسحق کو اسپیشل چارٹرڈ جہاز میں لاہور جیل سے گیریسن روڈ راولپنڈی  لے کر آتی ہے تاکہ جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کے سر غنہ محمد عقیل عرف ڈاکٹر عثمان سے مذاکرات کرے، واضح رہے کہ جی ایچ کیو راولپنڈی پر ۱۰ اکتوبر ۲۰۰۹ میں حملہ کیا گیا تھا اور ۴۲ افراد کو یر غمال بنا لیا گیا تھا جن میں فوجی بھی شامل تھے۔

دہشت گردوں کی طرف سے مطالبات کی ایک طویل فہرست حکومت کو دی گئی اور اس خواہش کا اظہار بھی کیا گیا کہ وہ آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی سے براہ راست مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، دہشت گردوں کے مطالبات میں سے ایک مطالبہ مختلف مقدمات میں گرفتار دیو بند جنگجووں کی رہائی بھی تھی جسے اگر پورا نہ کیا گیا تو یر غمالیوں کو ایک ایک کرکے مارنا شروع کر دیا جائے گا۔ وقت حاصل کرنے کیلئے حکومت نے جہادی تنظیموں کے قائدین کو مذاکرات میں شامل کیا، اسپیشل جہازوںمیں لاہور، بہاولپور اور رحیم یار خان سے ملک اسحق، مولانا احمد لدھیانوی،امیر حرکت المجاہدین مولانا فضل الرحمٰن خلیل ، مولانا مسعود اظہر کے بھائی مفتی عبد الروف جو جیش محمد کے امیر بھی ہیں کو راولپنڈی پہنچایا گیا ہے۔ دہشت گردوں کو تو کامیاب آپریشن میں ختم کردیا گیا سوائے ان کے سرغنہ محمد عقیل عرف ڈاکٹر عثمان جسے بعد میں سزائے موت سنا دی گئی۔

مزے کی بات یہ ہے کہ انہی چار قائدین کو  پرویز مشرف نے جولائی ۲۰۰۷ میں مشہور زمانہ لال مسجد کے مولوی برادران سے مذاکرات کیلئے بھی استعمال کیا تھا، ان دو مثالوں سے دہشت گردوں میں ملک  اسحق کےاثر ورسوخ کا اندازہ ہوتا ہے، ملک اسحق جیل میں بھی زندگی کی تمام سہولیات سے بہرہ مند ہوتا رہتا تھا، اس کے پاس نہ صرف یہ کہ موبائل فون تھا بلکہ وہ اس فون پر کال ریسیو بھی کرتا تھا اور دہشت گرد گروپوں کی جانب سے کی جانیوالی کاروائیوں کی غائبانہ قیادت بھی کیا کرتا تھا۔، اس کے علاوہ ملک اسحق کو جیل پنجاب حکومت کی طرف سے وزیر اعلی شہباز شریف کی ہدایات پر ۲۰۰۸ سے ماہانہ الا ونس بھی ملتا تھا۔
کا لعدم جماعت کے موجودہ سربراہ مولانا احمد لدھیانوی  نے میڈیا پر تقریباً ایک سال پہلے اس بات کا اقرار کیا تھا کہ وہ شریف برادران کی درخواست پر جیل میں ملک اسحق سے ملے تھے اور ملک اسحق کو مشروط رہائی کی پیشکش کی تھی، اپنی انہی کوششوں کو جاری رکھتے ہوئے شہباز شریف اور مولانا احمد لدھیانوی نے سعودی عرب میں ملاقات کی اور اپنے درمیان تھوڑے بہت رہ جانیوالے فاصلوں کو بھی دور کردیا۔
لبرل خیالات اور سوچ رکھنے والے سلمان تاثیر جن کو ایک شدت پسند باڈی گارڈ نے ہلاک کردیا تھا،اپنی موت سے قبل وزیر اعلیٰ پنجاب کو۵ مارچ ۲۰۱۰ کو ایک خط لکھا تھا جس میں وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ  کی جانب سے کالعدم جماعت کی ریلیوں میں نامی گرامی دہشت گردوں کے ساتھ شرکت اور تقریروں کیخلاف ایکشن لینے کی درخواست کی گئی تھی۔

لشکر جھنگوی کی بنیاد 1996 میں کالعدم سپاہ صحابہ کے دیو بندی شدت پسندوں اسحق ، ریاض بسرہ اور اکرم لاہوری نے رکھی تھی، سپاہ صحابہ کو لشکر جھنگوی کی سرپرست جماعت کہا جاتا ہے اور یہ سچ بھی ہے، لشکر جھنگوی کا کام اسلام کے نام پر معصوم لوگوں کا قتل عام اور امریکی ایما پر پاکستان کیخلاف دہشت گردی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button