مضامین
عرب دنیا کا نیا صدام

عراق کے سابق ڈکٹیٹر صدام حسین تکریتی دنیا بھر میں ایک ایسے ظالم کے طور پر پہچانے جاتے ہیں جس نے اپنے ہی ملک کی عوام کو انتہائی بے دردی سے قتل عام کیا ہے البتہ صدام کی شہرت کی ایک وجہ اپنے مخالفین کو ازیت دینے اور قتل کرنے کے وحشی نت نئے انداز کی وجہ سے بھی ہے
صدام حسین کسی دور میں عالمی طاقتوں خاص کر امریکہ کا بہت چہیتا رہا ہے یہاں تک کہ امریکہ کے لئے صدام کا یس سر اس قدر غلامانہ تھا کہ وہ اس سلسلے میں خود سے لمحہ بھر کے لئے بھی سوچتا نہیں تھا بالکل اس فوجی کی طرح جس کو پسند آئے نہ آئے اپنے کمانڈر کی بات مانی پڑتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ صدام نے امریکہ کے کہنے پر ایران اور پھر اپنے دوسرے دوست کویت پر حملہ کردیا ۔
ملک کے اندر ہر اس شخص اور گروہ کو انتہائی بے دردی سے قتل کیا جس کے بارے میں صدام کو زرہ بھر بھی گمان ہوتا تھا کہ اس کی مخالفت کرے گا ۔
صدام کی اس تلخ اور وحشی کہانی میں دلچسپ کردار ان ممالک اور حکمرانوں کا ہے جوصدام کو اپنے لئے ایک رحمت کا فرشتہ سمجھتے تھے ۔اس لئے وہ صدام کے ہر جرم کو نہ صرف کھلے دلوں قبول کرتے تھے بلکہ پس پردہ اسے داد بھی دیتے تھے ۔
صدام جب اپنی عوام پر ظلم کرہا تھا تو انہی صدامی دوستوں نے اس لئے خاموشی اختیار کی کیونکہ عراق کی عوام کی اکثریت شیعہ ہے ،بالکل اسی طرح جس طرح اس وقت بحرین کے اس نئے صدام کے بارے میں ان کی پالیسی ہے بحرین کے نئے صدام حمد آل خلیفہ اس وقت عرب دنیا کے وہ نیا صدام ہے جس کی پشت پر امریکہ اور سعودی عرب سمیت بہت سے ممالک کھڑے ہیں اور اس کے ہر جرم کو عربی مفادات کے طور پر نہ صرف قبول کر رہے ہیں بلکہ برابر کے شریک بھی ہیں لیکن شاید وہ بھول چکے ہیں کہ بالکل ایسی ہی ایک کہانی کے وہ پہلے بھی کردار رہے ہیں اور اس کا انجام بھی ان کے سامنے ہے ۔
اس نئے صدام کی کہانی خواہ کتنی بھی طولانی ہو لیکن انجام وہی ہوگا جو اس سے پہلے کا ہوا ہے اور ممکن ہے کہ نئے بدلتے حالات کی وجہ سے اکیسویں صدی کا یہ نیا صدام اپنے ساتھ بہت سے ا پنے حامیوں کو بھی لے ڈوبے کیونکہ بحرین سمیت عرب دنیا کی عوام جاگ چکی ہے اورتمام تر سازشوں کے باوجود ان کی یہ بیداری دن بدن بڑھتی جارہی ہے ۔
تیونس ،سے لیکر اردن تک ڈکٹیٹروں کے ہاتھوں پسی ہوئی عوام کا ایک ہی نعرہ ہے کہ الشعب یرید اسقاط النظام عوام تبدیلی کی خواہاں ہیں ،کفیٰ سکوت و کفیٰ یا عملاءبس اب بہت ہوگیا اے پٹھو حکمرانوں وہ مشترکہ نعرے ہیں جن کی بازگشت افریقہ سے لیکر ریاض تک سنائی دیتی ہے ،نصف صدی سے جس عوام کو بے ہوشی کے ٹیکوں سے خواب غفلت میں ڈالا ہوا تھا اب اس کا اثر ختم ہوچکا ہے اور وہ ایک بپھرے شیر کی مانند جاگ چکے ہیں
جی ہاں جب قومیں بیدار ہوتیں ہیں تو ظالموں کی بساط سمٹ جاتی ہے تاریخ میں جب جب بھی کسی صدام کو اپنی صدامیت کا موقع ملا ہے تو اس کی ایک بنیادی ترین وجہ قوموں کا خواب غفلت میں ہونا ہے سن اکسٹھ ہجری کے واقعے کربلا سے لیکر عراق کے صدا م تک قوموں کی غفلت نے مجرموں کے جرائم میں بڑا تعاون کیا ہے ۔
دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب کب تک اپنے اس نئے صدام کو استعمال کرسکتے ہیں اور کتن
ی دیر تک یہ نیا صدام اپنا کردار ادا کرسکتا ہے
تحریر ع صلاح