
امریکی صدر باراک اوبامہ نے اپنےتازہ ترین بیان میں کہا ہے کہ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ وہ اس نیٹ ورک کا پتہ لگائے جس نے اسامہ بن لادن کو پاکستان میں جگہ اور پناہگاہ فراہم کی تھی امریکی صدر نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ حکومت پاکستان کو یہ بھی پتہ لگانا ہوگا اسامہ بن لادن اور اس کے گروہ کے ساتھ پاکستان کے کون کون سے حکومتی اور فوجی عہدیدار رابطے میں تھے
اوبامہ نے کہا کہ بن لادن کا پاکستان میں ساتھ دینے والوں کا پتہ لگانا ضروری ہے امریکہ کی قومی سلامتی کے امور کے مشیر ٹام ڈینلون نے بھی کہا ہے کہ پاکستان کو یہ واضح کرنا ہوگا کہ اسامہ بن لادن چھ سال تک کیسے کاکول ملٹری اکیڈمی کے قریب پناہ لئے ہوئے تھا اور پاکستانی انٹلیجنس اور فوج کو بھنک تک نہيں لگی ۔ ایسا لگتا ہے کہ اسامہ کو ہلاک کرنے کا ڈرامہ رچانے کے بعد پاکستان پر امریکہ کا دباؤ بڑھتا جارہا ہے اور اس نے اپنے جس مقصد کے تحت ایبٹ آباد آپریشن کا ڈرامہ رچایا ہے وہ رفتہ رفتہ اسے حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے واقعہ میں روز بروز ابہامات پیدا ہوتے جارہے ہيں اور خاص طور پر ملٹری اکیڈمی کے پاس اس طرح کا ڈرامہ کرنے سے شکوک و شبہات میں اور بھی اضافہ ہوتا گیا ہے آج پوری دنیا کے لوگ اس چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہيں اور سوال کررہے ہيں کہ کیا واقعی اسامہ ایبٹ آباد آپریشن میں ہی مارا گیا ہے یا اس سے بہت پہلے ہلاک ہوچکا تھا ؟ امریکیوں کا دعوی ہے کہ اسامہ گذشتہ چھ برسوں سے پاکستان کے علاقوں ہری پور اور پھر ایبٹ آباد میں روپوش تھا مگر ان کا یہ دعوی دو مئی کے بعد ہی آیا ہے اس سے پہلے امریکی حکام یہی کہا کرتے تھے کہ اسامہ افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دشوار گذار پہاڑیوں میں کہیں روپوش ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کا یہ بھی کہنا اسامہ بن لادن گذشتہ چھ برسوں سے ایبٹ آباد یا ہری پور میں تھا امریکیوں کے لئے رسوائیوں کا باعث ہے ۔ ان کے اس دعوے سے خود امریکی حفیہ ایجنسیوں اور پاکستان کی بھی خفیہ ایجنسیوں پر سوال اٹھنےلگے ہيں۔ کیونکہ امریکہ خود کو پوری دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا علمبردار کہتا ہے اور اس کی ایجنسیوں کو اس بات کا علم ہی نہيں تھا کہ اسامہ کہاں ہے ؟ جبکہ پاکستان اس جنگ میں امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی تھا ۔اس کے باوجود ان دونوں ملکوں کا یہی کہنا ہے انہیں اسامہ بن لادن کے صحیح ٹھکانے کا علم نہیں تھا ۔
دوسری طرف امریکیوں کا دعوی ہے کہ القاعدہ اور طالبان کے اعلی لیڈران کا پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں ميں اثر و رسوخ ہے ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ چونکہ طالبان کو پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی ہی معرض وجود لائی ہے اسی لئے طالبان کا اس ادارے میں بہت زیادہ اثر ہے مگر ان تمام فرضیات کے باوجود بن لادن کی خفیہ زندگی اور اس کے خفیہ ٹھکانے کے بارے میں لاعلم رہنے کی ذمہ داری امریکہ کی بھی اتنی ہے جتنی وہ پاکستان پر عائد کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔ پاکستان اور امریکہ کے خفیہ اداروں کے مابین دیرینہ تعاون کی وجہ سے پاکستان کے خفیہ اداروں میں امریکہ کا بھی کافی اثرو رسوخ ہے اس کے پیش نظر یہ بہت ہی حیرت کی بات ہے کہ بن لادن چھ برسوں تک کیسے امریکیوں کی نگاہوں سے دور رہا ۔ اسی لئے یہ کہا جارہا ہے کہ جو کچھ ہوا اور ہورہا ہے وہ سب ڈرامہ ہے جس کے ذریعہ امریکہ اپنے کچھ اور مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ایبٹ آباد واقعے کے بعد نہ چاہتے ہوئے بھی امریکہ اور پاکستان کے تعلقات پہلے سے بھی زیادہ کشیدہ ہوگئے اوراس صورتحال سے امریکہ میں اس گروہ کو تقویت پہنچے گی جو افغانستان کی جنگ پاکستان میں لے جانا چاہتا ہے۔
جب امریکہ کی تاریخ پر نظرڈالی جاتی ہے تو یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ بہت ہی معمولی سے بہانے کے ذریعہ دوسروں کے خلاف فوجی اقدام کردیتا ہے اسی لئے بعض مبصرین کا یہ کہنا ہے کہ جس طرح سے امریکہ نے بن لادن کے زندہ ہونے کا بہانہ بناکر افغانستان پر چڑھائی کی تھی اسی طرح وہ بن لادن کی ہلاکت کا بھی بہانہ بناکر پاکستان کے اندر کاروائی کرسکتا ہے اور اسی چیز نے پاکستانی حلقوں میں تشویش پیدا کررکھی ہے مگر کیا امریکہ اتنی بڑی حماقت کرسکے گا یہ تو آنےوالا وقت ہی بتاسکتا ہے ۔