پاکستانی شیعہ خبریں
افغانستان:عزاداری سمیت مذہبی اجتماعات پرخودکش حملہ ظالمانہ روایت کی بنیاد
افغانستان کےدارالحکومت کابل میں شیعہ عزاداروں پرحملےنےساری توجہ افغانستان کی شیعہ آبادی پر مرکوز کردی ہے، اپنے پاکستانی بھائیوں کےبرعکس افغانستان کے شیعہ مسلمان طالبان حکومت کےخاتمے کے بعد سے فرقہ وارنہ تشدد سےبچے ہوئے تھے۔افغانستان میں اس سے قبل بھی فرقہ وارنہ تشدد کے اکا دکا واقعات ہوئے ہیں جس کی ایک مثال ہرات میں 2006 میں فرقہ وارانہ تشدد ہے جس میں چھ شیعہ مسلمانوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔
طالبان کے دور کے خاتمےکے بعد افغانستان کے شیعہ مسلمانوں کوعزاداری کی مکمل آزادی مل گئی تھی اور محرم الحرم میں شیعہ جلوس ان علاقوں سے بھی گزرتے نظر آتے ہیں جہاں شیعہ آبادی کا تناسب کم ہے۔ ایک عشرہ پہلےجب افغانستان پر طالبان کی حکومت تھے شیعہ آبادی کو اپنی مذہبی رسوم ادا کرنے سےمحروم کردیا تھا۔
افعانستان میں شیعہ اور سنی علما کی ایک کونسل بھی موجود ہےجو دونوں فرقوں میں ہم آہنگی کےفروغ کیلئے کام کرتی ہے۔
پاکستان کے برعکس افغانستان میں فرقہ وارانہ تشدد نہ ہونے کی وجہ افغانستان کی حالیہ تاریخ ہے۔ افغانستان میں کسی کو بھی یہ صحیح طور معلوم نہیں ہے کہ شیعہ اور سنی آبادی کا تناسب کیا ہے لیکن عام طور ہر خیال کیا جاتا ہے کہ شیعہ مسلمان افغانستان کی آبادی کا بیس فیصد ہیں۔ افغانستان کے شیعہ مسلمانوں کی اکثریت ہزارہ ، تاجک نسلوں سے ہے جبکہ پشتونون کی اکثریت سنی مسلمان ہیں۔
افغانستان میں فرقہ وارنہ تشدد کی عدم موجودگی کی شاید وجہ یہ بھی ہے کہ افغانستان کی تاریخ میں کبھی بھی کسی انتہا پسند مذہبی گروہ کا وجود نہیں رہا ہے۔ سنی اور شیعہ مسلمان نے ستر اور اسی کی دہائی میں متحد ہو کر افغانستان کی کیمونسٹ حکومت اور پھر سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑی ۔ دونوں فرقے مشترکہ مقصد، اسلام اور ملک کے لڑ رہے تھے۔
افغانستان میں فرقہ وارانہ تشدد سے توبچارہا ہے لیکن دوسرے اتنے جھگڑے ہیں جن میں مختلف نسلیں ایک دوسرے کے خلاف لڑتی رہی ہیں۔ افغانستان میں 1989 میں کیمونسٹ حکومت کے گرنے کے بعد پشتون، ازبک اور تاجک ایک دوسرے سے نبرد آزما رہے جن میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔
ماضی میں افغانستان کے پڑوسی ممالک بھی افغانستان میں تشدد کو ہوا دیتے رہے ہیں۔ پاکستان افغانستان کے مخصوص نسلی پشتونوں کی حمایت کرتا رہا ہے جس سے ملک میں تشدد پھیلتا رہا۔
طالبان کے اقتدار کےخاتمے کے بعد صدر حامد کرزئی کی حکومت نے نسلی گروہوں کو آزادی دی۔ افغانستان میں کئی ٹیلویژن چینل مذہبی رہنماؤں کی ملکیت ہیں۔ افغانستان کے کم از کم پانچ ایسے ٹی وی چینل ہیں جو صرف اور صرف شیعہ ناظرین کےلئے مخصوص ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افغانستان کے شیعوں کو کون نشانہ بنا رہا ہے؟
باخبرتجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ طالبان جو حالیہ لویا جرگہ کے انعقاد میں کوئی خاص رکاوٹ ڈالنے میں تو کامیاب نہیں ہو سکے انہوں نے جرمنی کے شہر بون میں افغانستان کانفرنس کے موقع پر اپنے آپ کو کو ذرائع ابلاغ میں نمایاں رکھنے کیلئے ایسا کیا ہے۔
وجوہات کچھ بھی ہوں افغانستان میں ایک نئی اور ظالمانہ روایت قائم کر دی گئی ہے۔ افغانستان کے تمام فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں امید کر رہے ہیں کہ یہ ظالمانہ روایت کسی اور خونی باب کا نقطہ آغاز ثابت نہیں ہوگی۔