شہید عسکری رضا کے والد گرامی کا عدالت میں بیان
شہید عسکری رضا کے والد گرامی زضا حسن نے انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر ایک میں گزشتہ ہفتے اپنا تفضیلی بیان ریکارڈ کروایا ،70سالہ بوڑھے والدوالد نے کہا کہ واہ پاکستان کے قانون پسند شہری ہیں ۔انہوں نے جج بشیر احمد کھوسو کو درخواست میں شکایت کی کہ ان کے بیٹے کے قاتلوں کو تاحال گرفتار نہیں کیا گیاہے ۔شہید عسکری رضا کو 31دسمبر 2011 کو کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں شہید کیاگیاتھا۔طبی وجوہات کی بنیاد پر حسن رضا نے کرسی پر بیٹھ کر اپناتفصیلی موقف بیان کیا بیان میں اس بات پر زور دیا گیاکہ چونکہ ان کا بیٹا بے گناہ شیعہ نوجوان اسیروں کی رہائی کے لیے سرگرم عمل تھا ۔اور انہیں با عزت بری کروانا اس کا مقصد تھا لہذا دشمنوں نے اس سبب کی بنیاد پر اس کو ہدف بناکر قتل کیا گیا تھا
انہوں نے کہا کے سی آئی ڈی کے ایس ایس پی چوہدری اسلم اور کالعدم سپاہ صحابہ کے مولانا اورنگزیب کی ہدایت پر عسکری رضا کو شہید کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ ان کا بیٹاعسکری رضا بے گناہ شیعہ جوان منتظر امام کو عدالتوں کے ذریعے باعزت بری کروانا چاہتا تھا۔منتطر امام کو سی آئی ڈی پولیس نے مسجد مدینہ العلم کے باہر گرفتار کیا تھا ۔منتظر امام پر جو مقدمات قائم کیے گئے ، اس وقت وہ پاکستان میں نہیں تھا ۔دوسری بات ہے کہ منتظر امام ایک ہاتھ سے معذوربھی ہے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیموں کی تفتیش میں بھی وہ بے گناہ ثابت ہوا۔منتظر امام کی گرفتاری کے بعد شہید عسکری رضا وکیل مختار عباس بخاری کے ساتھ چوہدری اسلم کے دفتر گیا تھا ۔وہاں مولوی اورنگزیب بھی موجود تھا وہاں انہوں نے منتظر امام کا پاسپورٹ دکھا کر ثابت کیاکہ وہ مقدمات کے وقت ملک سے باہر یعنی ملائیشیا میں تھا لیکن چوہدری اسلم نے ان کی دلیل قبول نہیں کی ۔حسن رضا نے مزید کہا کہ چوہدری اسلم نے شہید عسکری رضا کو ایک کروڑ روبے کی پیشکش کرتے ہوئے انہیں منتظر امام کی قانونی معاونت سے دستبردار ہونے کا کہا ۔نہ مانتے کی صورت میں انہیں قتل کی دھمکی بھی دی ۔اور اس دھمکی کے بعد 23مئی 2011 میں وکیل مختار بخاری ہدف بناکر قتل کیا گیا۔اس کے بعد عسکری رضا نے خود آرٹلری میدان تھانے میں اپنی گرفتاری پیش کردی ۔رہائی بعد عسکری رضا نے دوبارہ منتظر امام اور دیگر اسیروں کی رہائی کے لیے کوشش شروع کردی ۔31دسمبر2011 کو عسکری رضا کو شہید کردیا گیا ۔اس کے بعد گورنر ہاوس کے باہر دھرنا دیا گیا جہاں شیعہ مسلمانوں کے پانچ رکنی قفد ک و گورنر سندھ نے بلوایا اور مذاکرات کیے ۔ایف آئی آر کٹنے کے بعد مولوی اورنگزیب نے کچھ عرصے کے لیے اپنی سرگرمیاں معطل کردیں ۔لیکن اس کے بعد سے تاحال کوئی کاروائی عمل میں نہیں آئی ۔نہ ایف آئی آر کی بنیاد پر کوئی کاروئی کی گئی نہ ہی کوئی سماعت ہوئی جسٹس کھوسہ نے سات جون کو اگلی سماعت رکھی ہے