مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ انتخابی اتحاد ہوسکتا ہے، مولانا جعفر سبحانی
شیعہ علماء کونسل سندھ کے سنیئر نائب صدر نے نماءندے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم تو ہر صورت شہید قائد کی پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے انتخابات میں حصہ لیں گے، اگر مجلس وحدت بھی سیاسی روڈ میپ کا اعلان کرتی ہے تو اگر ہم دوسرے علاقوں کی بات نہ بھی کریں تو کراچی میں ہم مل جل کر کام کر سکتے ہیں، کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
مولانا جعفر سبحانی سن 1992ء سے تحریک جعفریہ سے وابستہ ہیں اور آج کل شیعہ علماء کونسل صوبہ سندھ کے سنئیر نائب صدر ہیں۔ اگرچہ آپ اس وقت طالب علم تھے لیکن آپ نے شہید قائد کے دور کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ آپ کو اتحاد بین المومنین اور اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اسلام ٹائمز نے آغا صاحب سے ایک خصوصی انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔
نماءندہ: موجودہ اسلامی بیداری کی تحریکیں کیا امام خمینی رہ کی تحریک کا ہی ارتباط ہیں؟ اگر ہیں تو کس طرح۔؟
مولانا جعفر سبحانی: امام خمینی رہ گزشتہ صدی کی بہت ہی عظیم شخصیت ہیں کہ جنہیں اللہ تبارک و تعالٰی نے مسلمانوں کو عطا کیا۔ امام خمینی رہ کی مدبرانہ قیادت انقلاب اسلامی کی صورت میں مسلمانوں کے سامنے موجود ہے۔ انقلاب اسلامی کے بعد نہ صرف مسلمان بلکہ دنیا بھر کے مستضعفین خواہ وہ کسی بھی مذہب کے پیروکار ہوں، وہ امام خمینی رہ کو اپنا پیشوا ماننے پر مجبور ہوگئے ہیں، کیونکہ امام خمینی رہ نے سب سے بڑا کام یہ کیا کہ آپ ظالم حکمرانوں کے سامنے نبرد آزما ہوئے اور ایک ایسا نقطہ نگاہ پیش کیا جو تمام مسلمانوں اور تمام انسانوں کے لئے قابل قبول ہے اور سب اس پر متفق ہیں۔
آج دنیا بھر میں جو اسلامی انقلابات اور اسلامی بیداری کی تحریکیں رونما ہیں، بلاشبہ ان کے پیچھے امام خمینی رہ کے پاکیزہ افکار اور پاکیزہ خیالات کار فرما ہیں، جسے انہوں نے اپنے لئے نمونہ عمل کے طور پر اپنا لیا اور اپنے لئے روشنی کا مینار سمجھتے ہوئے ظالم حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کی۔ آج تیونس، بحرین، مصر اور لیبیا سمیت جہاں کہیں بھی اسلامی تحریکیں اٹھ رہیں ہیں ان کا سارا کریڈٹ امام خمینی رہ کو جاتا ہے۔ امام خمینی رہ کو نہ صرف شیعہ بلکہ عالم اسلام کے ایک عظیم رہنما کے طور پر پہچانا جاتا ہے، لیکن یہ ہمارے لئے بہت بڑا افتخار ہے کہ امام خمینی رہ کو خداوند متعال نے مکتب تشیع میں سے قرار دیا۔ آپ نہ صرف عالم تشیع کے لئے بلکہ پورے عالم اسلام کے لئے مینارہ نور ہیں۔ ان کی سیرت اور ان کے پاکیزہ افکار پر چلتے ہوئے ہم تمام مسلمان اپنے مستقبل کا تعین کر سکتے ہیں اور اسلام کی بہتر سے بہتر خدمت کر سکتے ہیں۔
آپ سے پہلے اسلام کا نام تو لیا جاتا تھا لیکن عملی طور پر اسلام موجود نہیں تھا، امام خمینی رہ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے عملی طور پر اسلام کو نافذ کرکے بتا دیا کہ اسلام کسی کا محتاج نہیں ہے، اسلام ساری دنیا کو بہتر انداز سے چلا سکتا ہے اور ساری دنیا میں نظام عدل کو نافذ کر سکتا ہے۔ امام خمینی رہ ایک پاکیزہ، الہٰی اور ایک روحانی شخصیت تھے، جن کا ہدف اور مقصد اللہ اور دین تھا، جس کی وجہ سے خداوند متعال نے ہمیں اسلامی انقلاب کی صورت میں اتنی بڑی کامیابی عطا کی۔ لہٰذا ہم تمام مسلمانوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اس ذات کو مینارہ نور سمجھ کر ان کے افکار کو آگے بڑھائیں اور عملی طور پر ہم امت مسلمہ کے لئے کام کریں۔
امام خمینی رہ کے اس انقلاب کی ایک اور اہم خصوصیت یہ تھی کہ استعمار نے کوشش کی کہ اس اسلامی انقلاب کو شیعہ انقلاب کہہ کر دوسری مسلمان طاقتوں کو اس سے دور رکھا جائے، لیکن امام خمینی رہ نے اسے شیعہ انقلاب نہیں بلکہ اسلامی انقلاب کہہ کر مخاطب کیا۔ انہوں نے اس انقلاب کے ذریعے سے وحدت کا پیغام دیا، وحدت اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ وحدت کے ذریعے ہی سے ہم پوری دنیا میں استعمار کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ وحدت کے ذریعے سے ہم اپنے مسائل حل کر سکتے ہیں اور وحدت کے ذریعے ہی سے ہم مسلمانوں کی بکھری ہوئی طاقت کو یکجا کر سکتے ہیں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ خدا ہم کو امام خمینی رہ کی پاکیزہ روش اور فکر پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
نماءندہ: پاکستان ہمیشہ سے امریکہ کا اتحادی رہا ہے، لیکن آج کل امریکہ پاکستان سے ناراض نظر آتا ہے، اس کی وجہ پاکستان اور ایران کی بڑھتی ہوئی دوستی ہے یا اس کے پیچھے کچھ اور محرکات ہیں۔؟
مولانا جعفر سبحانی: اس کے پیچھے بہت سارے معاملات ہیں، پاکستان نے ابھی تھوڑی سی ان کو آنکھیں دکھانا شروع کردی ہیں، اس لئے امریکہ دیکھ رہا ہے کہ اس کے جو منصوبے پاکستان کے بارے میں تھے وہ پورے ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے ہیں اور اس چیز کی ضرورت بھی تھی۔ میں ایک مرتبہ پھر کہوں گا کہ امام خمینی رہ کی فکر پر چلتے ہوئے ہم وحدت کے ذریعے سے امریکہ سے جان چھڑا سکتے ہیں اور اپنے مفادات کا تحفظ کر سکتے ہیں، یہ اس وقت کی بہت ہی اہم ضرورت ہے۔ اگر اس وقت ہم نے اپنی صفوں میں اتحاد قائم نہیں کیا تو پاکستان کے مسلمان بہت بڑی مشکل میں گرفتار رہیں گے۔
پاکستان میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، کبھی شیعہ قتل ہو رہا ہے، کبھی سنی قتل ہو رہا ہے، ان سب کے پیچھے استعمار کا ہاتھ ہے، کوہستان اور چلاس میں جو کچھ ہوا، لوگ سمجھ رہے تھے کہ یہ شیعہ سنی مسئلہ ہے، لیکن اب واضح ہوگیا ہے کہ اس
کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے، کیونکہ گزشتہ ایک ہفتے سے امریکی سفیر وہاں دورے پر ہے اور وہاں قوم پرست رہنماﺅں کو ورغلا رہا ہے۔ ان کا ایک بہت بڑا منصوبہ ہے کہ پاکستان میں افراتفری پیدا کرکے وہ اپنے مقاصد حاصل کر سکے۔ ہمیں چاہئیے کہ اتحاد کو قائم رکھیں اور ہماری قیادت اور سیاسی رہنماﺅں کو بھی چاہئیے کہ وہ ملک کی سلامتی پر کسی بھی قسم کی سودے بازی نہ کریں، تاکہ امریکہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔
نماءندہ: مولانا صاحب، کیا ان حکمرانوں سے توقع رکھی جا سکتی ہے کہ جس طرح انہوں نے ابھی امریکہ کو آنکھیں دکھائی ہیں آئندہ بھی امریکہ کے آگے ان کے پاﺅں نہیں ڈگمگائیں گے اور یہ ثابت قدم رہیں گے۔؟
مولانا جعفر سبحانی: اس حوالے سے ہم زیادہ بات کرنا نہیں چاہ رہے، ہمارے جو اس وقت پاکستان کے حکمران ہیں یہ بہت ہی بے بس قسم کے حکمران ہیں، اصل حکمرانی تو امریکیوں کی ہے۔ اصل میں ان کو عوام کی جانب سے شدید ردعمل کا خوف ہے، جس کی وجہ سے انہوں نے امریکہ کو تھوڑی آنکھیں دکھائی ہیں۔ پارلیمنٹ نے ڈرون حملے روکنے کی بات کی تھی، لیکن ڈرون حملے ہو رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے ان کو ڈالر مل رہے ہیں۔ یہاں کی دنیا ہی کچھ اور ہے۔ باہر کی کہانی کچھ اور ہے اور اندر کی کہانی کچھ اور ہے۔ یہ بظاہر ہم پر حکمرانی کر رہے ہیں، ظاہراََ صدر ہیں اور ظاہراََ وزیراعظم ہیں۔ خدا ہمارے حکمرانوں کو غیرت و حمیت دے، تاکہ وہ اسلامی تشخص کو برقرار رکھ سکیں۔
اسلام ٹائمز: پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کرانے کی سازش ہو رہی ہے، اس حوالے سے حالیہ دنوں میں ملی یکجہتی کونسل بحال ہوئی ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہا یہ کونسل اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کر پائے گی۔؟
مولانا جعفر سبحانی: انشاءللہ کچھ بہتری ضرور آئے گی۔
نماءندہ: اس کا مطلب ہے کہ ہمیں ملی یکجہتی کونسل سے زیادہ قوی امید نہیں رکھنی چاہئیے؟
مولانا جعفر سبحانی: نہیں، کیونکہ ہم نے متحدہ مجلس عمل میں آزما لیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس سے عبرت حاصل کرتے ہوئے اگر یہ آگے بڑھیں تو زیادہ بہتر نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ پھر بھی کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا تو بہتر ہے۔ کچھ خرابیوں میں رکاوٹیں پیدا کی جا سکتی ہیں اور کچھ اچھا پیغام جاسکتا ہے۔
نماءندہ: کیا یہ سمجھا جائے کہ ملی یکجہتی کونسل کی بحالی سے ایم ایم اے کی بحالی کے امکانات ختم ہوگئے ہیں۔؟
مولانا جعفر سبحانی: ملی یکجہتی کونسل کی شکل تو وہی ہے بس نام الگ ہے۔
نماءندہ: ایم ایم اے میں شامل بعض جماعتوں کا خیال ہے کہ ملی یکجہتی کونسل ایک مذہبی اتحاد ہے اور ایم ایم اے ایک سیاسی۔ اس لئے ابھی متحدہ مجلس عمل بحال ہو سکتی ہے اور بعض جماعتیں کہتی ہیں کہ اب ایم ایم اے بحال نہیں ہوگی۔ آپ کیا کہتے ہیں۔؟
مولانا جعفر سبحانی: ایم ایم اے اب بحال نہیں ہوگی، ملی یکجہتی کونسل کی کمیٹیاں بھی بن چکی ہیں۔ ایم ایم اے کے نام سے اب کوئی جماعت فعال نہیں ہوگی۔ بس اسی ملی یکجہتی کونسل کے تحت ہی کام ہوگا۔
نماءندہ: ایم ایم اے کی بحالی کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن، منور حسن صاحب کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں اور منور حسن صاحب، مولانا فضل الرحمن صاحب کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ آپ کس کو ذمہ دار سمجھتے ہیں۔؟
مولانا جعفر سبحانی: اس حوالے سے ہم کیا کہہ سکتے ہیں، ان دونوں کے اپنے اپنے تنظیمی معاملات ہیں، مولانا فضل الرحمن حکومت نہیں چھوڑنا چاہ رہے ہیں اور جماعت اسلامی کے لوگوں کا ایک الگ مسئلہ ہے، ان کا ایک الگ پروگرام ہے۔ ہم اس حوالے سے صرف دعا کر سکتے ہیں کہ خدا کوئی اچھی سوچ پیدا کر دے۔ اصل میں پاکستان میں عدم برداشت بہت ذیادہ ہے، ہم اپنے نظریات کو دوسروں پر لاگو کرنا چاہتے ہیں۔ جب تک ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور دوسرے کی رائے کو قبول کرنے کا جذبہ پیدا نہیں ہوگا، کچھ نہیں ہو سکتا۔ جماعت اسلامی والے چاہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن ساری سییٹیں چھوڑ کر ہمارے پاس آجائیں اور مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں ہم ساری سیٹیں چھوڑ کر آجائیں گے، لیکن اس سے ہم جو اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ نہیں ہو پائینگے۔ ایک حد تک مولانا صاحب کی بات صحیح بھی ہے، جماعت اسلامی سے پوچھا جائے کہ انہوں نے حکومت سے باہر رہ کر کون سے نتائج حاصل کرلئے۔
نماءندہ: ملک میں جاری شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے پیچھے استعمار کے کیا مقاصد کار فرما ہیں۔؟
مولانا جعفر سبحانی: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شیعوں کو بھی ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، لیکن اس کا اصل مقصد مسلمانوں کو تقسیم کرنا ہے۔ مکتب تشیع کے پیروکاروں کو قتل کرنے کے پیچھے بہت بڑی سازش کار فرما ہے اور اس کی پشت پناہی امریکہ کر رہا ہے۔ یہ جو قتل کر رہے ہیں یہ بھی ان کے آلہ کار ہیں، ان کا کسی بھی فرقے سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ کرائے کے لوگ ہیں۔ یہ ہماری ایجنسییوں، سکیورٹی اداروں اور حکومتی اداروں سب کو پتہ ہے۔ یہ پیسے لیتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں دھماکے کرتے ہیں۔
ان کو آلہ کار میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ یہ جہاں چاہیں شیعوں کو ٹارگٹ کریں اور مظالم ڈھائیں، لیکن ہماری ایجسنیاں، سکیورٹی ادارے اور حکومت سب خاموش بیٹھے رہتے ہیں۔ ان کو امریکہ کی طرف سے یہی ہدایات ہیں، کیونکہ جب تک ہمارے درمیان مذہبی طور پر انتشار نہیں ہوگا، امریکہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ انتشار ایک ایس بیماری ہے کہ جس کے ذریعے امریکہ شیعہ، سنی، بریلوی اور دیوبندی مسلمانوں کو آپس میں لڑوائے گا اور پھر اپنے پنجے گاڑ
ے گا۔ لہٰذا پاکستان، اسلام اور مسلمانوں کے لئے شیعہ، سنی، بریلوی اور دیوبندیوں کے حقیقی علماء کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
نماءندہ: ڈان نیوز جیسے بڑے قومی جریدے اور بعض تکفیری گروہوں کی ویب سائٹس پر اس طرح کی باتیں کی جا رہی ہیں کہ مجلس وحدت مسلمین جو آج کل جلسے کر رہی ہے، اس سے شیعہ علماء کونسل پریشان ہے اور ان دونوں جماعتوں کے درمیان چپقلش چل رہی ہے۔ اس میں کتنی صداقت ہے۔؟
مولانا جعفر سبحانی: جو کوئی بھی اس طرح کی باتیں کر رہا ہے میں اس کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے، ہم ان کا احترام کرتے ہیں اور وہ ہمارا احترام کرتے ہیں۔ نظریاتی طور پر اختلاف ہوسکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ باہمی احترام کی فضا قائم ہے اور آغا صاحب ( علامہ ساجد نقوی ) سے بھی ان کے رابطے ہیں۔
اسلام ٹائمز: ہم نے دیکھا کہ جب خیرپور میں شیعہ علماء کونسل نے جلسہ کیا تو ایم ڈبلیو ایم نے شرکت کی اور جب مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے ملتان میں جلسہ کیا گیا تو وہاں ایس یو سی نے شرکت کی۔ لیکن پھر بھی کہیں سے اختلافی بات ہو رہی ہے، ایسا کیوں ہے۔؟
مولانا جعفر سبحانی: کسی کی جانب سے بھی اس طرح کے بیانات آتے ہیں، چاہے وہ شیعہ علماء کونسل کی جانب سے ہو یا ایم ڈبلیو ایم کی جانب سے، وہ نہیں چاہتے کہ ہمارے درمیان اتحاد پیدا ہو، ان کا ہمیشہ سے یہی کام ہے۔ اب نہیں معلوم کہ ان کو کہیں سے کچھ مل رہا ہے یا یہ کسی اور کے لئے کام کر رہے ہیں، خدا بہتر جانتا ہے۔ لیکن میرا پیغام یہ ہے کہ جتنی بھی تنظیمیں کام کر رہی ہیں، ہمیں ان سب کا احترام کرنا چاہئیے، کیونکہ ان سب کا ہدف اور مقصد ایک ہے۔ ہمیں آپس میں اختلاف نہیں کرنا چاہئیے بلکہ آگے بڑھنا چاہئیے۔ اچھا کام ہو تو ہم ساتھ دینے کے لئے تیار ہیں۔ آغا صاحب ( علامہ ساجد علی نقوی ) کی ہمیشہ سے یہی روش رہی ہے اور ان کی ہمیں ہدایت بھی یہی ہے کہ اگر کوئی ہمیں نہیں مانتا تو ان سے لڑائی نہ کی جائے اور اگر وہ کوئی اچھا کام کرے تو ہر طرح اس کی حمایت کی جائے۔ اس لئے کہ یہ کوئی ذات کا مسئلہ نہیں بلکہ دین کا مسئلہ ہے، مکتب تشیع کا مسئلہ ہے، ہمارے عقائد اور اصولوں کا مسئلہ ہے۔
نماءندہ: ابھی انتخابات قریب ہیں اور بہت سارے ایسے علاقے ہیں کہ جہاں سے آپ کی سیٹ نکل سکتی ہے، ایسا تو نہیں ہوگا کہ مجلس وحدت مسلمین کسی اور گروپ کو سپورٹ کر رہی ہو اور شیعہ علماء کونسل کسی اور گروپ کو سپورٹ کر رہی ہو اور اس کا فائدہ کوئی اور حاصل کرلے۔؟
مولانا جعفر سبحانی: اس حوالے سے پالیسی بنے گی اور انشاءللہ ایسا کبھی بھی نہیں ہوگا۔ ہماری خواہش بھی ہے اور ہم آزما بھی چکے ہیں اس چیز کو۔ اگر ہم متحد رہے تو کراچی میں بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں سے ہم سیٹ جیت سکتے ہیں اور اگر نہ بھی جیتیں تو ہم کسی بھی دوسری جماعت سے جسے ہم اپنے لئے مناسب سمجھیں گے، اس سے الحاق کر سکتے ہیں۔
نماءندہ: اس کا مطلب شیعہ علماء کونسل اور مجلس وحدت مسلمین کا انتخابی اتحاد بن سکتا ہے۔؟
مولانا جعفر سبحانی: امکان ہے، ایسا ہو سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اعلان کیا کرتے ہیں، تحریک جعفریہ اور اب شیعہ علماء کونسل کا ہمیشہ سے اصول رہا ہے کہ ہم یہ دیکھتے ہیں اگر شیعہ امیدوار کسی علاقے سے جیت سکتا ہے تو ہم مکمل طور پر اس کی حمایت کریں، اگر نہیں جیت سکتا تو ہم وہاں کے لوگوں سے رائے لیتے ہیں کہ آپ کے لئے کون سی جماعت بہتر ہے، کونسا نمائندہ آپ کے لئے بہتر ہے کہ جو آپ کے حقوق کا تحفظ کرے، آپ کے عقائد کا تحفظ کرے، اس جماعت کو ہم سپورٹ کرتے ہیں۔ ماضی میں اس طرح کی بہت ساری مثالی ہیں، ایک مثال آپ جھنگ میں دیکھ لیجئے۔ ہم تو ہر صورت شہید قائد کی پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے انتخابات میں حصہ لیں گے، اگر مجلس وحدت بھی سیاسی روڈ میپ کا اعلان کرتی ہے تو اگر ہم دوسرے علاقوں کی بات نہ بھی کریں تو کراچی میں ہم مل جل کر کام کر سکتے ہیں، کوئی مسئلہ نہیں ہے۔