پاکستانی شیعہ خبریں

ہمارا سیاست میں واضح موقف ہے، مذہب کے نام پر ووٹ نہیں مانگتے، علامہ ساجد نقوی

sajid naqvi chodriہم مذہب کے نام پر ووٹ نہیں مانگتے، ہمارا سیاست میں اپنا واضح اور روشن موقف ہے، ہم تکفیریوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے، ہمارے اسی موقف کی وجہ سے آج تکفیری گروہ ملی یکجہتی کونسل سے باہر نکال دیئے گئے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ولادت امام حسین علیہ السلام کے موقع پر شیعہ علماء کونسل کے زیراہتمام جھنگ میں منعقدہ لبیک یاحسین ع سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ علامہ ساجد علی نقوی نے کہا کہ آج صدیوں بعد بھی اگر کوئی شخصیت ہمارے لئے نمونہ عمل قرار پاسکتی ہے اور آج بھی ہمارے سامنے اگر پیغمبر ص کی سیرت و کردار کا نمونہ پیش کرسکتی ہے تو وہ حسین ابن علی ع کی ذات ہے۔

انکا کہنا تھا کہ امام حسین علیہ السلام نے ہمیں سکھایا کہ اصولوں پر سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ یہ پیغمبر ص کا دیا ہوا سبق تھا اور ان کی تعلیمات میں ہے کہ اصولوں پر سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ پیغمبر اسلام ص نے اپنی ساری زندگی میں اسی کو ثابت کرکے دکھایا اور اسی نمونہ کو آگے بڑھایا۔ انہوں نے کہا کہ حضرت علی ابن ابی طالب ع نے اسی کردار کی روشنی میں اقتدار چھوڑ دیا، لیکن اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا اور اسی کو آگے بڑھایا۔ انہوں نے کہا کہ حسین ابن علی ع کا جو انکار بیعت تھا یہ صرف حسین ع اور یزید کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک اصول کی پاسداری تھی۔ یہ انکار ایک اصول قرار پایا۔ قائد شیعہ علماء کونسل نے کہا کہ ہمیں بھی اس بات کو مدنظر رکھنا چاہئے اور زندگی میں سید الشہداء ع کی زندگی کے مختلف پہلوہوں کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دینا چاہئے۔

انکا کہنا تھا کہ حسین ابن علی ع نے قیام کیا، جدوجہد کی۔ اصلاح امت کے لئے، قیام کیا اپنے نانا اور اپنے بابا کی سیرت کے احیاء کے لئے۔ سید الشہداء ع نے اقدام کیا، قیام کیا اور جدوجہد کی۔ ان کی جدوجہد کے مختلف پہلو ہیں، ان پہلوہوں کو ہمیں مدنظر رکھنا ہوگا، نظام کے بگاڑ کو مدنظر رکھ کر نظام کی اصلاح کے لئے امام حسین ع نے قیام کیا، آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس ملک کے اندر عادلانہ نظام کے قیام کے لئے کوششیں کریں۔ اس عادلانہ نظام کا قیام، جو عدل علی ع کی صورت میں ہوسکتا ہے۔ علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ ہمارا منشور عدل علی ع کا قیام ہے اور عدل علی ع ہی ایک ایسا نظام ہے جس سے کوئی مسلمان انکار نہیں کرسکتا۔

انہوں نے کہا کہ حسین ابن علی ع نے اپنے قیام کے دوران وحدت و اتحاد کا بہترین نمونہ پیش کیا۔ کربلا کے اندر ہر زبان، ہر نسل، ہر رنگ کے لوگ بلکہ ہر مذہب کے لوگ موجود تھے۔ جن کا نکتہ مشترک یہ تھا حسین ع ہمارا رہبر و امام ہے۔ امامت و رہبری کے سائے میں دنیا کے مختلف طبقات کو اکٹھا کرنے کا جو نمونہ حسین ابن علی ع نے پیش کیا وہ ہمارے لئے بھی ایک بہترین درس اور نمونہ عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی کو ہم نے بھی پاکستان کے اندر بڑھایا، امت مسلمہ کو ایک صف میں کھڑا کرنا اور ایک دشمن کے مقابل، ایک ہدف کی خاطر امت کو اکھٹا کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔

علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ اسی ذمہ داری کے تحت ہم پاکستان میں اتحاد و وحدت کے لئے کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں اور اسی کے پیش نظر آج ملی یکجہتی کونسل میں بھی موجود ہیں اور اصولوں کی پاسداری بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ لہذا ہم نے دوٹوک کہا تھا کہ اگر تکفیری گروپ کو شامل کیا گیا تو ہم شامل نہیں ہوں گے کیونکہ ہم تکفیریوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے۔ ہمارے اسی موقف کی وجہ سے آج وہ ملی یکجہتی کونسل سے باہر نکال دیئے گئے ہیں۔ قائد شیعہ علماء کونسل نے مزید کہا کہ میں کسی کے فتوے سے اپنی شناخت کرانا گوارہ نہیں سمجھتا اور نہ ہی مجھے کسی کے فتوے کی ضرورت ہے۔ میرا تعلق مکتب اہل بیت ع سے ہے اور میں بہتر انداز سے قرآن وسنت کو سمجھ سکتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری جدوجہد تسلسل ہے اس جدوجہد کا جس کا آغاز مفتی جعفر حسین نے کیا، جس کی تکمیل میں قائد شہید محنت کرتے رہے اور آج ہم انہیں اہداف کو آگے لے کر چل رہے ہیں یہ تسلسل ہے اسی قومی دہارے اور ملی پلیٹ فارم کا۔ لہذا ان سے پوچھا جائے جو اس قومی پلیٹ فارم سے ہٹے اور کیوں قومی محاذ اور پلیٹ فارم سے جدا ہو کر الگ راستہ اختیار کیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ اس حد تک گفتگو کرسکتے ہیں ہم مہذب قوم ہیں، تہذیب کے دائرہ میں گفتگو کریں، بدتمیزی اور بدتہذیبی سے گریز کریں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جہاں ہم نے اتحاد و وحدت کے لئے کام کیا ہے وہاں سیاسی میدان میں بھی مصروف عمل ہیں۔ سیاست میں بھی ہمارا کلیدی کردار ہے، ہم مذہب کے نام پر ووٹ نہیں مانگتے، ہمارا سیاست میں اپنا واضح اور روشن موقف ہے۔ ہم اس تہذیب اور موقف کی بات کرتے ہیں جس کا درس ہمیں حسین ابن علی (ع) دے کر گئے ہیں۔
واضح رہے کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی جانب سے بارہا اس موقف کا اظہار کیا گیا ہے کہ ہم پاکستانی سیاست میں شیعہ شناخت کو متعارف کراوایں گے ۔اور مستقبل قریب میں شیعہ سیاسی حثیت سے منظم ہوکر سیاسی میدان میں وارد ہوں گے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button