مضامین

قرآن و اہلبیت ع کانفرنس، ایم ڈبلیو ایم کی سیاسی قوت کا اظہار

shiitenews mwmpakمجلس وحدت مسلمین کی ایک اور کامیابی یہ ہے کہ جب شیعہ جوان کا ذہن ہر سانحے کے بعد انتقامی رخ اختیار کر رہا تھا اور اس بات کا شدید خطرہ تھا کہ ملک کسی بڑے فرقہ وارانہ تصادم کی طرف چلا جائے گا تو مجلس وحدت نے اسے وحدت اور اسلامی بھائی چارگی کی جانب گامزن کر کے نہ

صرف مسئلے کا درست حل پیش کیا بلکہ دہشتگردوں کے ان عزئم کو خاک میں ملا دیا، جن کا ہدف تفرقہ پھیلانا تھا۔

توانائی کے بحران نے جس طرح کراچی شہر کو روشنیوں کے شہر سے نکال کر لوڈشیڈنگ کا شہر بنا دیا ہے بالکل اسی طرح اس شہر کی غریب پروری اور امن و سکون کو بھی ماضی کی حکومتوں کی غلط پالیسیوں نے نگل لیا ہے۔ آج کراچی نہ صرف غریبوں کا شہر نہیں رہا بلکہ پاکستان بھر سے روزگار کی تلاش میں آنے والے بھی اس شہر کی بدامنی سے گھبرا کر یہاں کا رخ کرنے سے کترانے لگے ہیں۔ لیکن ان باتوں کے باوجود کراچی وہ شہر ہے جہاں ہر سیاسی پارٹی اپنے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد رکھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ کراچی میں ہر سیاسی جماعت اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
پچیس سال کے عرصے کے بعد آج ایک ایسی جماعت کا اجتماع ہونے جا رہا ہے جس کا تعلق فقہ جعفریہ سے ہے، یہ جماعت اس وقت میدان میں اتری جب ایک انتہائی بحران کے وقت ملک کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں دہشتگردوں کے خوف سے ہر قسم کے اجتماع سے اجتناب کر رہیں تھیں، اور ہر طرف دہشتگردوں کا راج تھا اور وطن عزیز میں موجود خوف کی فضاء کو توڑنے کی سخت ضرورت تھی۔ اس جماعت کے اجتماعات تین اہم محوروں پر گھومتے نظر آئے، وطن کا دفاع، مکتب جعفریہ کی مایوسی کا خاتمہ اور اسلامی بھائی چارگی کا فروغ۔ سن دوہزار آٹھ کو اپنے وجود کے باقاعدہ اعلان کے بعد سے اب تک مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے اجتماعات ان تین محوروں پر ہی رہے ہیں۔
آج جبکہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کراچی جیسے بڑے شہر میں اپنا پہلا سیاسی اجتماع کرنے جا رہی ہے تو ہر ذہن میں یہ سوال ابھر رہا ہے کہ مجلس وحدت مسلمین کا آیندہ ملکی سیاست میں کیا رول ہو گا اور کیا سیاسی توازن میں مجلس وحدت کا اضافہ کسی قسم کی تبدیلی لے آئے گا؟ ان تمام سوالات سے قطع النظر یہ بات طے ہے کہ مجلس وحدت ملک میں اتحاد بین المسلمین کے فروغ نیز اھل تشیع کی مایوسی کا خاتمہ اور وطنیت کے فروغ میں نمایاں کامیابیاں حاصل کر چکی ہے، وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب دہشتگردی اور ایک ہی مکتب فکر کی مسلسل ٹارگٹ کلنک ہو رہی ہو۔

مجلس وحدت مسلمین کی ایک اور کامیابی یہ ہے کہ جب شیعہ جوان کا ذہن ہر سانحے کے بعد انتقامی رخ اختیار کر رہا تھا اور اس بات کا شدید خطرہ تھا کہ ملک کسی بڑے فرقہ وارانہ تصادم کی طرف چلا جائے گا تو مجلس وحدت نے اسے وحدت اور اسلامی بھائی چارگی کی جانب گامزن کر کے نہ صرف مسئلے کا درست حل پیش کیا بلکہ دہشتگردوں کے ان عزئم کو خاک میں ملا دیا، جن کا ہدف تفرقہ پھیلانا تھا۔ جب شیعہ جوان روز روز اپنے عزیزوں کے جنازے اٹھا اٹھا کر اپنے دشمنوں کی تلاش اپنے ہی ہم وطنوں میں کرنے لگا تھا اور ریاستی مشنری سے لیکر آزاد میڈیا تک انہیں درست رہنمائی دینے سے قاصر نظر آ رہا تھا تو مجلس وحدت مسلمین نے اسے درست اس مشترکہ دشمن کی جانب رہنمائی کی جو کسی خاص مکتب فکر کا دشمن نہیں بلکہ عالم اسلام اور پاکستان دونوں کا دشمن ہے۔
مجلس وحدت مسلمین نے اپنے آغاز سے ہی ملکی سیاست میں ملکی استقلال کی بات کی ہے خواہ یہ استقلال سیاسی ہو، اقتصادی ہو یا پھر ثقافتی۔ گذشتہ سال مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری جنرل نے ہائی کورٹ بار میں وکلاء سے خطاب کرتے ہوئے ملکی ترقی و پیشرفت کے حوالے سے کچھ اہم نکات اٹھائے تھے، جن میں سے چند ایک یہ ہے ”شفاف جمہوری نظام اور آمریت کی نفی، ملک میں بسنے والے تمام مکاتب فکر حتٰی اقلیتوں کی بھی مذہبی اور دینی قدروں کی پاسداری، تاکہ ہر شہری کو اپنے تحفظ کا مکمل احساس ہو، نیز کیونکہ ملک کی اکثر آبادی مسلمان ہے، اسلئے ایسے تمام اقدامات سے پرہیز کیا جائے جو دین مبین اسلام سے متصادم یا مخالف ہو، پاکستانیت کا فروغ وغیرہ
مندرجہ بالا ذکر شدہ امور ایسے ہیں کہ جنہیں اگر ملک میں کوئی بھی حکومت ایک پالیسی کے طور پر اپنائے تو اس سے ہمارے بہت سے سماجی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اس وقت جبکہ ایم ڈبلیو ایم پاکستان کراچی میں ایک بڑا اجتماع کرنے جا رہی ہے اور جیسا کہ خبریں آ رہی ہیں کہ یہ اجتماع کراچی میں ہونے والے تمام گزشتہ اجتماعات سے بڑا ہو سکتا ہے تو ضرورت اس امر کی ہے اور عوامی توقع بھی ہے کہ مجلس وحدت مسلمین اس اجتماع میں اپنے سیاسی منشور کا اعلان کرے اور ملک میں جاری تمام مسائل کے حل کیلئے شفاف اور واضح طور پر اپنا نقطہ نظر پیش کرے، تاکہ آنے والے حالات، ملکی سیاست اور دیگر امور میں عوام الناس کیلئے ایک واضح تصویر موجود ہو، نیز کراچی اور سندھ بھر کی عوام مجلس وحدت مسلمین کو اپنے لئے تازہ ہوا کا ایک ایسا جھونکا سمجھیں جو ان کے شہر کی روشنیوں کو لوٹا سکتا ہے، بدامنی سے نکل کر یہ شہر ایک بار پھر غریبوں کے شہر میں تبدیل ہو سکتا ہے اور مستضعفین کی داد رسی ہی قرآن و اہلبیت ع کے وہ وہ اعلٰی اہداف ہیں جسے آج مجلس وحدت مسلمین عملی جامعہ پہنانا چاہتی ہے۔
تحریر: ثمر بلتستانی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button