جب سعودی عرب میں امریکی مداخلت ہے تو باقی مسلم ممالک کے بارے میں کیا کہیں، مفتی شفیق الرحمان
جمعیت علماء اسلام کے بزرگ رہنماء کا اسلام ٹائمز کیساتھ انٹرویو میں کہنا تھا کہ ہماری حکومت کو پاک ایران گیس پائپ لائن کے معاملہ میں درپیش رکاوٹوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ملک و قوم کے مفادات کیلئے اقدامات کرنے چاہیں، مولانا فضل الرحمان قطعی طور پر متحدہ مجلس عمل کی بحالی میں رکاوٹ نہیں، فلسطین، کشمیر اور افغانستان کی آزادی کیلئے مسلم حکمرانوں نے کوئی قابل ستائش کردار ادا نہیں کیا، اگر ہم اپنے ذاتی مفادات
کو چھوڑ دیں تو پاکستان میں بھی شریعت نافذ ہو سکتی ہے۔
جمعیت علماء اسلام ضلع ایبٹ آباد کے امیر مولانا مفتی شفیق الرحمان کا بنیادی تعلق ایبٹ آباد ہی سے ہے، آپ کا شمار جے یو آئی کے بانی رہنماء مولانا مفتی محمود کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے اور آپ ان کے ساتھ جیل میں بھی اسیر رہے، آپ نے ابتدائی تعلیم ضلع ہری پور سے حاصل کی، جس کے بعد جامعہ اشرفیہ لاہور تشریف لے گئے، ایبٹ آباد میں علماء دیوبند کو آپ ہی نے متعارف کرایا، مفتی شفیق الرحمان نے قادیانیوں کیخلاف چلنے والی تحریک میں انتہائی اہم کردار ادا کیا اور ماضی میں آئی جی آئی اور متحدہ مجلس عمل کے رہنماء کے طور پر بھی فرائض سرانجام دے چکے ہیں، اسلام ٹائمز نے مفتی شفیق الرحمان کیساتھ ایک انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔
نماءندہ : ایبٹ آباد میں جے یو آئی کی سرگرمیوں اور اپنے تاریخی مدرسہ کے بارے میں ہمارے قارئین کو آگاہ کریں۔؟
مفتی شفیق الرحمان: اگرچہ ہماری جماعت یہاں اپنی قوت کے لحاظ سے کمزور ہے لیکن سب متحد ہو کر کام کر رہے ہیں، ہم قیادت کی ہدایات کے مطابق اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں، جہاں تک مدرسے کا تعلق ہے تو یہ 1967ء میں قائم ہوا اور یہاں سینکڑوں کی تعداد میں بچے اور بچیاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اور ہاسٹل کی سہولت بھی میسر ہے۔ ہزارہ میں مدارس مالی طور پر کمزور ہیں، اس وجہ سے ہمیں دائیں بائیں دیکھنا پڑتا ہے۔
نماءندہ: ہزارہ ڈویژن میں اتحاد بین المسلمین کی فضاء کیسی ہے اور اس حوالے سے جے یو آئی کا کردار بیان کریں۔؟
مفتی شفیق الرحمان: الحمد اللہ، یہاں ہمارے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے، جب بھی کوئی معاملہ ہوا ہم اکٹھے بیٹھے، کبھی دیگر مسالک اور دینی جماعتوں کے لوگ ہمیں بلاتے ہیں اور کبھی ہم ان کو اپنے پاس بلا لیتے ہیں، امن و امان کے حوالے سے دیکھا جائے تو پورے ملک میں صورتحال خراب ہے، قتل و غارت گری، چوری، ڈاکہ ہے، نہ لوگوں کی جانیں محفوظ ہیں اور نہ گھر، لیکن جے یو آئی نے ہمیشہ قیام امن اور اتحاد بین المسلمین کو فروغ دینے کیلئے مثبت کردار ادا کیا۔ قادیانیوں کا معاملہ ہو یا عسائیوں کیساتھ مسئلہ، ہم تمام مسالک اکٹھے رہے۔
نماءندہ: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کیلئے متحدہ مجلس عمل کی بحالی ضروری ہے اور کیا اس اتحاد کی بحالی میں جے یو آئی رکاوٹ ہے۔؟
مفتی شفیق الرحمان: متحدہ مجلس عمل اگر بحال ہوتی ہے تو یہ بہتر ہو گا، تمام دینی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہمارے قائد مولانا فضل الرحمان قطعی طور پر متحدہ مجلس عمل کی بحالی میں رکاوٹ نہیں ہیں۔
نماءندہ: جمعیت علماء اسلام پاکستان میں امریکی مداخلت کیخلاف آواز بلند کرتی رہی ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ آپ کی جماعت نے ابھی تک اس حوالے سے کسی موثر تحریک کا آغاز نہیں کیا۔؟
مفتی شفیق الرحمان: اس بارے میں تو جماعت کے قائدین ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ اب تک کوئی موثر تحریک نہیں شروع کی گئی، لیکن جے یو آئی نے ہمیشہ امریکی مداخلت پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے، پاکستان میں امریکی مداخلت اب بھی پوری طرح موجود ہے، اگر ہم لوگ اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں اور اپنے اخراجات میں کمی کریں تو بڑی آسانی سے امریکی مداخلت سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے، ہم خود بہتری لانے کی کوشش کرنے کی بجائے دوسروں کی طرف دیکھتے ہیں اس وجہ سے آج ہمارا یہ حال ہے۔
نماءندہ: دیگر مسلم ممالک میں امریکی مداخلت پر کیا کہیں گے۔؟
مفتی شفیق الرحمان: جب امریکی مداخلت سعودی عرب تک پہنچ چکی ہے تو باقی مسلم ممالک کے بارے میں کیا کہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اس حوالے سے پوری امت مسلمہ کو یکجا ہونا چاہئے، اور اگر امت متحد ہو جاتی ہے تو یہ بہت بڑی طاقت بن جائے گی اور کوئی بیرونی مداخلت نہیں کر سکے گا۔
نماءندہ: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ حکومت کو جلد از جلد برادر اسلامی ملک ایران کیساتھ گیس پائپ لائن منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہئے۔؟
مفتی شفیق الرحمان: میں سمجھتا ہوں کہ ہماری حکومت کو پاک ایران گیس پائپ لائن کے معاملہ میں درپیش رکاوٹوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ملک و قوم کے مفادات کیلئے اقدامات کرنے چاہیں۔
نماءندہ: فلسطین، کشمیر اور افغانستان کی آزادی کے حوالے سے مسلم حکمرانوں کے کردار سے کس حد تک مطمئن ہیں۔؟
مفتی شفیق الرحمان: جس طرح مسلم ممالک کا کردار ہونا چاہئے تھا اس طرح کا کردار ادا نہیں کیا گیا، ہر ملک کے اپنے اندرونی حالات ہوتے ہیں شائد وہ اس حوالے سے رکاوٹ ہوں، لیکن فلسطین، کشمیر اور افغانستان کی آزادی کیلئے مسلم ممالک کے حکمرانوں نے کوئی قابل ستائش کردار ادا نہیں کیا۔ میں کہوں گا کہ حکومت
پاکستان کا کردار بھی اس حوالے سے کوئی نمایاں نہیں ہے، پاکستان نے کسی حد تک کردار ادا کیا لیکن ویسا نہیں کیا گیا جس طرح کی ضرورت تھی۔
نماءندہ : جے یو آئی کے حوالے سے ایک تاثر یہ ہے کہ وہ ہمیشہ حکومت کے قریب ہوتی ہے، اس حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
مفتی شفیق الرحمان: اس تاثر میں کوئی صداقت نہیں ہے، جمعیت علماء اسلام کا اپنا نظریہ اور کردار ہے، اور جو قوتیں اس نظریہ کے قریب ہوں ان کیساتھ مدد کی جاتی ہے۔
نماءندہ: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ ممکن ہے۔؟
مفتی شفیق الرحمان: اگر ہم اپنے ذاتی مفادات کو چھوڑ دیں تو پاکستان میں بھی شریعت نافذ ہو سکتی ہے، دینی قوتیں متحد ہو کر صرف اسلام کی خاطر میدان عمل میں نکلیں تو اسلامی نظام کے حوالے سے کوئی مشکل نہیں ہو گی، اور بڑی آسانی سے اسلامی نظام آ سکتا ہے، تاہم ہماری خواہشات اس کامیابی میں رکاوٹ ہیں، لہذا ہمیں اپنی ذاتی خواہشات کو پیروں تلے روندنا ہو گا۔
نماءندہ: اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے مرکزی سطح پر علماء کرام کی کوششوں کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟
مفتی شفیق الرحمان: ان کی کوششیں موثر نہیں ہیں، معلوم نہیں کہ کیا وجوہات ہیں کہ ان کوششوں کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
نماءندہ : پاکستان کے مسائل کا حل آپ کی نظر میں کیا ہے۔؟
مفتی شفیق الرحمان: میں سمجھتا ہوں کہ اگر اسلامی نظام نافذ کیا جائے تو پاکستان کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔