مضامین

سانحہ چلاس کی عدالتی تحقیقات اور کرفیو کا خاتمہ کیا جائے، علامہ ساجد نقوی

shiitenews sajid naqviنماءندہ : گلگت بلتستان بدامنی کے حوالے سے اسلام ٹائمز سے خصوصی گفتگو میں شیعہ علماء کونسل کے سربراہ نے مطالبہ کیا ہے کہ گلگت میں فی الفور کرفیو ختم کر کے سانحہ چلاس کی عدالتی تحقیقات کروائی جائیں اور بے گناہوں کو قتل کرنے والے وحشیوں کو بے نقاب کر کے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

علامہ سید ساجد علی نقوی پاکستانی سیاست کا وہ کردار ہیں کہ جنہوں نے امن و امان اور وطن عزیز کی سلامتی کے لئے دن رات ایک کیا۔ انہوں نے تمام سیاستدانوں سے روابط رکھ کر ثابت کر دیا کہ سیاست کو صرف مسلکی مطالبات تک محدود کرنا اسلامی نقطہ نظر کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔ شیعہ علماء کونسل کے سربراہ سخت گیر موقف رکھنے کو پسند نہیں کرتے لیکن تشیع کے دفاع اور عزاداری سیدالشہداء کے تحفظ سے بھی غافل نہیں۔ اسلام ٹائمز نے گلگت بلتستان میں جاری بدامنی کے حوالے سے علامہ ساجد نقوی سے انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

نماءندہ : گلگت میں بدامنی کے خاتمے کے لئے آپ کے کس سطح کے روابط ہوئے ہیں۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: اب تک ہمارے مختلف سطحوں پر روابط ہوئے ہیں۔ ہم نے سرکاری، غیر سرکاری، مذہبی اور سیاسی روابط کر کے اپنا موقف پیش کیا ہے۔ مختلف وزرا اور مشیروں سے ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ جس میں حکومت کے سامنے شیعہ موقف پیش کیا گیا ہے۔ ملک بھر میں کسی نہ کسی جگہ مختلف پروگراموں میں جا رہا ہوں تو وہاں میڈیا کے ذریعے اپنا موقف قوم کے سامنے رکھتے ہیں۔

نماءندہ : علامہ صاحب آپ کے مطالبات کیا ہیں۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: ہمارا مطالبہ ہے کہ گلگت میں کرفیو ختم کیا جائے، لوگوں کی شہری آزادیاں بحال کی جائیں، سانحہ چلاس کی عدالتی تحقیقات کروائی جائیں اور بے گناہوں کو قتل کرنے والے وحشیوں کو بے نقاب کر کے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ جنہوں نے مسافروں کو ذبح کیا، انہیں دریا میں پھینکا اور لاشوں کی بے حرمتی کی۔ ایسے لوگوں کے خلاف آپریشن کیا جائے اور زمینی راستوں کو محفوظ بنایا جائے۔

نماءندہ ؛ آپریشن کس طرح کا فوجی یا پولیس کا، کس کی ضرورت ہے۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: آپریشن کی نوعیت کا فیصلہ ضرورت کے مطابق حکومت اور ریاستی ادارے کریں۔ حکومت آئین کی دفعہ 245 کے تحت فوج طلب کر سکتی ہے۔ اب فوج طلب کرنی ہے، رینجرز یا پولیس، اس کا فیصلہ حکومت ضرورت کے مطابق کرے۔

نماءندہ : کیا آپ اب تک کے حکومتی اقدامات سے مطمئن ہیں۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: حکومتی اقدامات کا کسی کو پتہ ہی نہیں، کچھ گرفتاریاں کی گئی ہیں۔ وہ بھی شیعیان حیدر کرار کی۔ دوسری طرف کا علم نہیں۔ حکومت نے ابھی تک اعتماد میں نہیں لیا۔ قاتلوں کے بارے میں کچھ علم نہیں۔ کرفیو لگایا گیا جسے ابھی تک اٹھایا نہیں گیا۔ اس طرح حکومتی معاملات نہیں چلتے۔ اس حکومت کا جواز نہیں جو عوام کو بنیادی تحفظ ہی فراہم نہ کرسکے۔
نماءندہ : گلگت میں امن و امان کے مسئلے کا حل کیا ہے۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: مسئلے کا حل یہ ہے کہ علما اور عمائدین کو اعتماد میں لیا جائے۔ کرفیو اٹھایا جائے۔ اچھا قدم ہے کہ گورنر گلگت بلتستان کرم علی شاہ سکردو اور گلگت میں علماء سے ملے ہیں۔ لیکن بدامنی ابھی تک جاری ہے۔ کوئی حکومتی عملداری نظر نہیں آرہی۔ جو کہ وفاق پاکستان، ملکی سلامتی اور قومی وحدت کے لئے کوئی اچھی بات نہیں۔ حکومت اپنی رٹ قائم کرے، کمزوریوں سے بہت نقصان ہو چکا ہے۔
نماءندہ : آپ سے مولانا فضل الرحمان کی بات چیت ہوئی تھی، کیا نتیجہ نکلا۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: مولانا فضل الرحمان سے بات چیت ہوئی۔ اس مسئلے کا دیرپا حل چاہتے ہیں۔ محض نمائشی اقدامات سے مسائل حل نہیں ہوا کرتے۔ گلگت کے مسئلے کا حل دہشتگردی کا خاتمہ اور سخت اقدامات سے ہو گا۔ غیر سرکاری، سیاسی اور ہر طرح کے ذرائع کا استعمال کیا ہے کہ مسئلہ حل ہو۔ ہم نے اپنا کیس دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے۔

نماءندہ : اسلام آباد سے گلگت جانے والے زمینی راستے میں دیوبندی فرقے کے زیادہ لوگ ہیں تو کیسے راستوں کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: یہ مسئلہ فرقہ وارانہ نہیں، میں نہیں سمجھتا کہ کوئی دیوبندی یا شیعہ دہشتگردی میں ملوث ہے۔ معصوم لوگوں کو مارنے والے درندے اور دہشتگرد ہیں۔ جن کا کسی فرقے سے تعلق نہیں۔ حکومت کو اپنی رٹ پر عمل کروانا ہو گا۔
نماءندہ : دہشتگردی میں کونسا گروہ ملوث ہے؟ کالعدم سپاہ صحابہ یا طالبان۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: کالعدم سپاہ صحابہ کی دہشتگردی تو سب پر واضح ہے کہ وہ ملک بھر میں ہونے والی دہشتگردی میں ملوث ہیں۔ اس حوالے سے پولیس، ایجنسیوں اور عدالتوں کے ریکارڈ گواہ ہیں۔ البتہ طالبان کی کوئی تعریف نہیں کی جا سکتی۔ بغیر ثبوت میں کوئی بات کہنا نہیں چاہتا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button