بلادالحرمین کے مجاہد عالم دین آیت اللہ شیخ "نمر باقر النمر" کا مختصر تعارف
آیت اللہ شیخ نَمِر باقر النَمِر 1379 ہجری بمطابق 1968 عیسوی کو بلادالحرمین کے منطقۃالشرقیہ کے قصبے "العوامیہ” میں پیدا ہوئے۔ العوامیہ صوبہ القطیف کا ایک قصبہ ہے۔ آیت اللہ نمر خاندان علم و اخلاق میں پیدا ہوئے۔ آیت اللہ شیخ محمد بن ناصر آل نمر کا تعلق بھی اسی خاندان سے تھا اور شیخ علی بن ناصر آل نمر آپ کے دادا تھے جو حسینی خطباء میں شمار ہوتے تھے۔
ابتدائی تعلیم اور حصول تعلیم کے لئے ہجرت
شیخ باقر نمر النمر (یا آل نمر) نے سنہ 1400 (1989) میں ابتدائی تعلیم اپنے آبائی قصبے العوامیہ میں
مکمل کرنے کے بعد قریب سے انقلاب اسلامی کے مطالعے اور اپنی دینی تعلیم جاری رکھنے کے لئے ایران کی طرف ہجرت کی اور تہران میں اسی سال "آیت اللہ سید محمدتقی مدرسی” کے ہاتھوں تاسیس ہونے والے مدرسے "حوزہ علمیہ حضرت قائم(عج)” میں داخلہ لیا۔
آیت اللہ شیخ نَمِر باقر النَمِر نے 10 سال تک حوزہ علمیہ حضرت قائم (عج) میں حصول علم کے بعد شام کا سفر کیا اور حوزہ علمیہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا میں داخلہ لے کر وہاں کے اساتذہ سے کسب فیض کیا۔
انھوں نے سطح کی اصولی کتب میں اصول الفقہ شیخ محمد رضا المظفر، رسائل شیخ انصاری اور کفایۃالاصول آخوند خراسانی اور فقہی کتب میں اللمعۃالدمشقیہ شہید اول، مکاسب شیخ انصاری اور مستمسک العروۃالوثقی اساتذہ کے حضور پڑھ لیں اور جامع المدارک خوانساری اور دیگر فقہی کتب کا مطالعہ کیا۔
انھوں نے تہران اور شام میں مختلف علماء اور اساتذہ کے حضر زانوئے تلمذ تہہ کیا:
ــ درس خارج ـ تہران: آیت اللہ سید محمد تقی مدرسی
ــ درس خارج ـ شام: آیت اللہ سید عباس مدرسی
ــ سطوح عالیہ ـ تہران: علامہ شیخ صاحب الصادق
ــ درس لمعہ ـ شیخ وحید افغانی
انھوں نے در س اخلاق آیت اللہ شیرازی کے حضور قم المقدسہ میں مکمل کیا اور اجتہاد کے اعلی مدارج پر فائز ہوئے۔ انہیں دینی اور مذہبی مراکز میں دینی علوم پڑھانے کی اجازت مل گئی۔
آیت اللہ نمر باقر النمر موجودہ زمانے میں معروفترین اور لائق ترین اساتذہ میں شمار ہوتے ہيں اور وہ ایران اور شام کے حوزات علمیہ میں اللمعۃالدمشقیہ، جامع المدارک، مستمسک العروۃالوثقی نیز حلقات شہید صدر پڑھاتے رہے ہیں۔
شیخ نمر کئی برسوں تک تہران کے حوزہ علمیہ قائم (عج) اور شام کے حوزہ علمیہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے منتظم اعلی تھے اور ان کی ترقی کے لئے کارہائے نمایاں انجام دیئے۔
انھوں نے بلاد الحرمین لوٹ کر العوامیہ میں دینی مرکز "الامام القائم (عج)” کی بنیاد رکھی جو در حقیقت اسلامی مرکز کے لئے سنگ بنیاد ثابت ہوا جس کی تاسیس 1432 ہجری بمطابق 2011 میں عمل میں لائي گئی۔
آیت اللہ نمر باقر النمر کی اخلاقی خصوصیات
آیت اللہ نمر باقر النمر اعلی اخلاقی اور انسانی خصوصیات کے مالک ہیں؛ بلند ہمت اور عادات و اطوار کے لحاظ سے جامعیت رکھتے ہیں؛ دینی اصولوں اور اقدار کو ملحوظ رکھنے کے حوالے سے بہت محتاط ہیں اور ان کی یہ خصوصیات ان کی طرز فکراور جہادی افکار میں جھلکتی نظر آتی ہیں۔
نیز شیخ باقر النمر وسیع الفکر انسان ہیں اور گرد و پیش کے حالات سے پوری طرح آگاہ رہتے ہیں اور بلاد الحرمین نیز باہر کی دنیا میں رونما ہونے والے واقعات و حوادث پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ سیاسی اور سماجی مسائل کا دقیق تجزیہ کرنا ان کی وجہ شہرت ہے اور ان کے اپنے کہنے کے مطابق یہ باریک بینی اور دوراندیشی ان کو قرآن و اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ قریبی تعلق اور وابستگی کی وجہ سے عطا ہوئی ہے کیونکہ قرآن و اہل بیت (ع) ہمیشہ سے ہمیشہ تک انسان کے لئے راستہ ہمواری کرتی ہے۔
سیاسی سرگرمیاں اور اسیریاں
آل سعود نے اس ہفتے شیخ نمر باقر النمر کو ایسے حال میں گولی مار کر اور زخمی کرکے گرفتار کیا کہ اس سے قبل بھی انھوں نے 2006 اور 2008 کے دوران آل سعود کے اذیتکدوں میں قید و بند کی صعوبتیں جھیلی ہیں۔
2006 میں آیت اللہ شیخ نمر باقر النمر نے بحرین کا دورہ کیا اور وہاں "قرآن کریم کانفرنس” میں شرکت کی اور جب وطن لوٹے تو آل سعود کے گماشتوں نے انہيں گرفتار کیا۔
انہيں گرفتار کیوں کیا گیا؟ اس لئے کہ انھوں نے قرآن کریم کانفرنس میں شرکت کی تھی اور اس کانفرنس کے دوران اپنے خطاب میں آل سعود سے درخواست کی تھی کہ "جنت البقیع نا گفتہ بہ حالت کی طرف توجہ مبذول کرے، مذہب تشیع کو ایک اسلامی مذہب کی حیثیت سے تسلیم کرے اور بلادالحرمین میں رائج تعلیمی و تربیتی طریقہ کار کی اصلاح کرے یا اس کو منسوخ کردے۔ یہی ان کی گرفتاری کا سبب ہوا۔
دوسری بار 23 اگست 2008 کو آیت نمر باقر النمر شہر "القطیف” میں گرفتار ہوئے۔ اس بار آل سعود نے الزام لگایا تھا کہ "آیت اللہ نمر” نے الشرقیہ کے شیعہ عوام سے درخواست کی تھی کہ اپنا اور اپنے معاشرے کے تحفظ کرنے کے لئے تیار ہوجائیں؛ آل سعود نے کہا تھا کہ آیت اللہ نمر نے عوام سے درخواست کی ہے اور اس کا مطلب بھی (آل سعود کے بقول) الشرقیہ کے عوام کو آل سعود کی عملداری سے الگ کرنا تھا
۔ تا ہم آل سعود کے حکمران الشرقیہ کے شیعہ عوام کے غیظ و غضب سے خوفزدہ تھے چنانچہ انہیں صرف 24 گھنٹوں تک اذیتکدے میں رکھ سکے۔
مارچ 2009 میں بھی انہيں گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی لیکن گرفتار نہ کئے جاسکے جس کی وجہ ایک بار پھر عوامی غیظ و غضب سے عبارت تھی۔
آیت اللہ نمر باقر النمر آل سعود کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر
آیت اللہ نمر باقر النمر اپنے خطبوں میں آل سعود کی حکومت کو بلادالحرمین اور خاص طور پر الشرقیہ کے علاقوں "الاحساء اور القطیف” میں منظم فرقہ وارانہ امتیازی رویئے اپنانے کا ملزم ٹہراتے ہیں جو گذشتہ ایک صدی سے جاری و ساری ہیں۔
آیت اللہ نمر باقر النمر پیوستہ کہتے آئے ہیں کہ کلام حق کہنے سے خوف نہیں رکھتے حتی اگر انہیں گرفتار کیا جائے اور شدید ترین جبر و تشدد کا نشانہ بنائے جائیں یا شہید کئے جائیں۔
سعودی خاندان کی نگاہ میں اس خاندان کے افراد شہری نمبر ایک ہیں جبکہ دوسرے شہری اس وقت تک دوسرے نمبر کے شہری ہيں جب تک وہ آل سعود سے رشتہ ناطہ نہيں جوڑتے اور الشرقیہ کے شیعہ تو ویسے بھی دوسرے درجے یا پھر تیسرے درجے کے شہری ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جن کی مٹی سے کالا سونا (تیل) برآمد ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے آل سعود کی دولت میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے لیکن بلاد الحرمین بالخصوص الشرقیہ کے تیل پیدا کرنے والے علاقوں کے شیعہ باشندوں کی غربت میں بھی روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور آیت اللہ نمر باقر النمر کہتے ہیں کہ آل سعود کے حکمران شہریوں بالخصوص الشرقیہ کے شیعہ عوام کے وقار کو مجروح کررہے ہيں، ان کے تمام شہری حقوق سلب کئے گئے ہیں اور آیت اللہ ان پالیسیوں کے سرے سے مسترد کرتے ہيں اور کہتے ہیں کہ آخری سانس تک الشرقیہ کے مظلومین کے وقار اور ان کے مسلمہ حقوق کی بحالی کے لئے جدوجہدکرتے رہیں گے۔
آیت اللہ نمر باقر النمر پیوستہ کہتے آئے ہیں کہ کلام حق کہنے سے خوف نہیں رکھتے حتی اگر انہیں گرفتار کیا جائے اور شدید ترین جبر و تشدد کا نشانہ بنائے جائیں یا شہید کئے جائیں۔
سعودی خاندان کی نگاہ میں اس خاندان کے افراد شہری نمبر ایک ہیں جبکہ دوسرے شہری اس وقت تک دوسرے نمبر کے شہری ہيں جب تک وہ آل سعود سے رشتہ ناطہ نہيں جوڑتے اور الشرقیہ کے شیعہ تو ویسے بھی دوسرے درجے یا پھر تیسرے درجے کے شہری ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جن کی مٹی سے کالا سونا (تیل) برآمد ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے آل سعود کی دولت میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے لیکن بلاد الحرمین بالخصوص الشرقیہ کے تیل پیدا کرنے والے علاقوں کے شیعہ باشندوں کی غربت میں بھی روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور آیت اللہ نمر باقر النمر کہتے ہیں کہ آل سعود کے حکمران شہریوں بالخصوص الشرقیہ کے شیعہ عوام کے وقار کو مجروح کررہے ہيں، ان کے تمام شہری حقوق سلب کئے گئے ہیں اور آیت اللہ ان پالیسیوں کے سرے سے مسترد کرتے ہيں اور کہتے ہیں کہ آخری سانس تک الشرقیہ کے مظلومین کے وقار اور ان کے مسلمہ حقوق کی بحالی کے لئے جدوجہدکرتے رہیں گے۔
انھوں نے بار بار اس حقیقت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ آل سعود کے جرائم و مظالم کے مقابلے میں صف اول کے مجاہد ہیں ہیں اور ان کی رائے ہے کہ جب تک جدوجہد اور کوشش نہ ہو تو مطلوبہ حقوق کی بحالی ممکن نہ ہوگی اور ملک میں عدل و انصاف کا قیام ممکن نہ ہوگا اور شہری آزادی کے ساتھ زندگی بسر نہيں کرسکیں گے۔
شیخ نمر اس سلسلے میں حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کے خطبہ جہاد سے استناد کرتے ہیں کہتے ہیں کہ عدل و انصاف کا قیام جہاد کے بغیر ممکن نہيں ہے اور پامال شدہ حقوق ایثار، قربانی اور جہاد و شجاعت کے بغیر حاصل ہونا ممکن نہیں ہونگے۔
انھوں نے اپنے خطبات جمعہ میں بارہا کہا ہے کہ بلادالحرمین کے شیعہ توہین اور تجاوز کو مزید برداشت نہیں کریں گے اور اس کے سامنے خاموش نہیں رہیں گے۔ انھوں نے آل سعود سے بار بار کہا ہے کہ "ہم خاموش نہیں رہیں گے؛ تو جو ظلم و ستم چاہو ہمارے اوپر ڈھاتے رہو اور ہمارے وقار اور ہماری شخصیت کو، جو ہماری زندگی کی اہم ترین متاع ہے، کو پامال کرو”۔
شیخ نمر بلادالحرمین کے ذرائع ابلاغ پر کڑی تنقید کرتے ہیں کیونکہ یہ ذرائع آل سعود کے تابع مہمل ہیں اور اس خاندان کے تشہیری آلے میں تبدیل ہوچکے ہیں۔
انھوں نے واضح کیا کہ وہابی مفتی آل سعود کے ساختہ اور ان کے کے ہاتھوں کا بازیچہ ہیں کیونکہ اس خاندان کے افراد ان کے رقوم دیتے ہیں تا کہ وہ فرقہ واریت اور شیعہ اور سنی اختلافات کو ہوا دیں اور عوام کو ان مسائل میں مصروف کرکے آل سعود کی حکمرانوں کو اپنی ناجائز حاکمیت کو طول دینے کی فرصت میسر ہوتی رہے اور عوام کو مذہبی اختلافات اور جھگڑوں میں اتار کر عوامی سرمایوں کی لوٹ کھسوٹ جاری رکھ سکیں۔
آیت اللہ نمر باقر النمر اپنے ایک خطبے کے آخر میں کہتے ہیں: میں جانتا ہوں کہ تم سعودی حکمران آخر کار مجھے گرفتار کرنے آؤگے، میں تمہارا استقبال کروں گا! کیونکہ تمہاری منطق اور راہ و روش یہی ہے: گرفتاری، ٹارچر اور تشدد، قتل و غارت؛ ہم قتل و غارت سے نہيں ڈرتے، ہم کسی چیز سے بھی نہيں ڈرتے”۔
انھوں نے عوام کی طرف سے پر امن احتجاجی ریلیوں پر سرکاری قدغن اور سعودی حکومت کے جبر و تشدد کے سامنے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے: "ہم ہر وقت اپنے حقوق کی بحالی اور اپنا اعتراض آگے بڑھانے کے لئے متبادل راستوں کی تلاش جاری رکھیں گے اور مظاہرے اور ریلیوں کو ان ہی متبادل راستوں کے طور پر منتخب کیا گیا ہے”۔
بلادالحرمین کے اس عالم دین کو سابق ولیعہد اور وزیر داخلہ کی فرقہ وارانہ اور امتیازی پالیسیوں کے سخت مخالف تھے اور ان پر شدید تنقید کیا کرتے تھے۔
انھوں نے اپنے ایک خطبے میں نائف بن عبدالعزیز کو عوام بالخصوص شیعیان اہل بیت (ع) پر نائف بن عبدالعزیز کے ظلم و تشدد کی وجہ سے طاغوت اور ظالم جیسے القاب سے نوازا جس کو قبر میں عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا اور دوزخ کی آگ میں جلایا جائے گا۔
انھوں نے اسی خطبے میں کہا تھا کہ وہ نائف کی موت سے خوش ہوجائیں گے۔
آیت اللہ نمر باقر النمر اپنے نماز جمعہ کے خطبوں میں نہ صرف آل سعود پر تنقید کرتے ہيں بلکہ خلیج فارس کی عرب ریاستوں کے مطلق العنان حکمرانوں پر بھی تنقید کرتے رہتے ہیں۔
آیت اللہ شیخ نمر کو کچھ دن قبل گولی مار کر اغوا کیا گیا اور ان کی صحت کے بارے میں کوئی اطلاع اب تک موصول نہیں ہو سکی ہے۔
ان کی گرفتاری پر وسیع عوامی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور مظاہروں کے دوران متعدد شیعہ نوجوان آل سعود کی گولیوں کا نشانہ بن کر شہید اور زخمی ہوگئے ہیں۔