اے ارض شمال تیرا خمینی چلا گیا
احادیث مبارکہ میں ارشاد ہوا ہے کہ ’’روئے زمین پر علماء آسمان میں ستاروں کی مانند ہیں جن سے خشکی اور دریا کی تاریکیوں میں ہدایت حاصل کی جاتی ہے۔‘‘ ان ہی چمکتے علماء میں سے ایک عالم باعمل، مجاہد، مبارز، بے نظیر سخن ور اور داعی اتحاد بین المسلمین حضرت علامہ سید علی الموسوی تھے۔ حجۃ الاسلام و المسلمین آغا سید علی الموسوی اپنی تمام عمر اسلام کی خدمت، ارض پاکستان میں افکار خمینی (رہ) کے پرچار میں گزار کر اپنے عقیدت مندوں کو دس رمضان المبارک کی صبح داغ مفارقت دے گئے۔ ان کی رحلت سے مکتب آل محمد (ع) اور شیعیان پاکستان بالخصوص ملت بلتستان ایک مایہ ناز اور قابل فخر عالم دین سے محروم ہوگئی۔ ان کی ناقابل تردید خدمات رہتی دنیا تک قائم و دائم رہیں گی۔ آپ نے اپنی تمام آسائش و الائش کو قربان کرکے اسلام کی تبلیغ اور ترویج کو ترجیح دی، بلکہ یوں کہا جائے تو مناسب ہے کہ آپ زمان و مکان کے تمام قیود سے بالاتر ہو کر دین مبین اسلام کی خدمت کرتے رہے۔
آپ کے والد محترم بھی اپنے دور کے انتہائی بزرگ اور قابل احترام باعمل عالم دین تھے۔ آپ کم عمری میں ہی اپنے والد محترم حجۃ الاسلام والمسلمین سید حسن الموسوی کے ساتھ علوم آل محمد (ع) کے حصول کی خاطر حوزہ علمیہ نجف اشرف چلے گئے، جہاں آپ نے اس دور کے بزرگ مجتہدین آیت اللہ ابولحسن اصفہانی، آیت اللہ سید حسین بروجردی، آیت اللہ محسن الحکیم اور دیگر اساتید سے کسب فیض کیا۔ حسین آباد کے کچھ بزرگوں کے اصرار پر تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے والد محترم کے ساتھ پاکستان چلے آئے، دوران سفر جب آپ لاہور پہنچے تو آپ دونوں (سید حسن موسوی اور سید علی موسوی) کے علم و عمل اور زہد و تقوی سے متاثر ہو کر لاہور کے مومنین نے لاہور میں ہی دینی خدمات انجام دینے پر زور دیا۔ آپ انہیں مایوس نہیں کرسکتے تھے، اس لئے مشقتوں کو تحمل کرکے لاہور اور حسین آباد دونوں جگہوں پر تبلیغی خدمات انجام دینے پر کمربستہ ہوگئے۔ اگرچہ ان دونوں جگہوں پر تبلیغ کرنا مسافت کی دوری اور ان دنوں کی مخصوص سفری مشکلات کے پیش نظر آسان نہ تھا، لیکن دین کی خاطر آپ نے تمام سختیوں کو برداشت کیا۔
آپ نے نہ صرف اپنی ذات کو مکتب اہلیبیت (ع) کی ترویج کے لئے وقف کیا بلکہ اپنے پانچ بیٹوں حجۃ الاسلام سید حیدر الموسوی، حجۃ الاسلام سید مظاہر الموسوی، حجۃ الاسلام سید عباس الموسوی، حجۃ الاسلام سید رضی الموسوی، حجۃ الاسلام سید رضا الموسوی کو بھی بہترین عالم، مبلغ اور خطیب بنایا۔ آغا صاحب دین مبین اسلام کی تبلیغ کرتے ہوئے بے حد خوشی محسوس کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ بلتستان جیسے دور افتادہ علاقے کے دور و دراز دیہاتوں میں بھی تبلیغ کے لئے جانے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ آپ ایک دور اندیش اور صاحب فہم عالم تھے۔ تبلیغی امور کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ فلاحی امور میں بھی آپ پیش پیش تھے۔ بلتستان کے علماء کو منتشر دیکھ کر آپ کو بے حد دکھ ہوتا تھا، اس لئے آپ نے یہاں کے علماء کو جمع کرکے ہیئت علماء امامیہ کے نام سے 1974ء میں ایک انجمن کی تاسیس کی، بعد ازاں تمام علماء نے آپ کے استعداد اور صلاحیتوں کی وجہ سے آپ کو اس انجمن کا صدر منتخب کیا۔
آپ نے ہیئت علماء امامیہ کے پلیٹ فارم پر پہلی بار بلتستان میں ایک مذہبی اور ادبی مجلہ حبل المتین کا اجراء کیا۔ اس مجلے کی وساطت سے تبلیغ کے ساتھ ساتھ علماء، شعراء اور مذہبی و سماجی شخصیات کے تعارف اور معارف دین کی تبلیغ و ترویج کرتے رہے۔ لوگوں کی ضرورت اور سہولت کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے اپنی مدد آپ کے اصولوں کے مطابق حسین آباد کے گھر گھر سڑکیں تعمیر کروائیں۔ پاکستان بھر میں مساجد، امام بارگاہیں اور مدارس کی تعمیر میں آپ عمر بھر کوشاں رہیں۔ جامعۃ المنتظر ماڈل ٹاون کی تعمیر میں آپ اور مولانا صفدر حسین نجفی کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ مدرسہ قرآن و عترت سیالکوٹ کی تعمیر کا سہرا بھی آپ کے ہی سر جاتا ہے، درسگاہ علوم اسلامی فیصل آباد اور درسگاہ علوم اسلامی لاہور موچی دروازہ بھی آپ ہی کی مشقتوں کا نتیجہ ہے۔
اس کے علاوہ حسین آباد میں موجود امام بارگاہوں کی تعمیر و توسیع، جامع مسجد حسین آباد کی تعمیر سب ہی آپ کی بلند شخصیت کی گواہی دیتی ہے۔ آپ نے دین اسلام کی خدمت کرنے کی خاطر بہت سے دینی طلاب کی تربیت بھی کی جو یا تو مختلف جگہوں پر خدمات انجام دے رہے ہیں یا حوزہ علمیہ قم اور نجف میں زیر تعلیم ہیں۔ آپ جہاں بھی رہے وہ جگہ مرکز کی حیثیت اختیار کر گئی، لاہور موچی دروازہ کو آپ نے شیعیان پاکستان کا مرکز بنایا تو حسین آباد کو حسین (ع) کے جانثاروں کا مرکز و منبع بنایا۔ فن خطابت کے میدان میں آپ کو دیکھیں تو اپنی مثال آپ تھے۔ جہاں آغا صاحب کی خطابت کا پروگرام ہو وہاں ارادتمندوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دکھائی دیتا تھا۔ آپ نے پاکستان میں خطابت اور درس اخلاق کو نیا روپ اور حیات عطا کی۔ تبلیغی امور اور دینی امور کے ساتھ ساتھ سیاسی خدمات میں بھی آپ کسی سے پیچھے نہ تھے۔ آپ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن جیسی فعال مذہبی طلباء تنظیم کے بانی رہنماؤں میں سے تھے۔
علامہ مفتی جعفر حسین (رہ) کے دور سے ہی آپ تحریک جعفریہ پاکستان کی سپریم کونسل کے رکن رہے۔ شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی (رہ) کے شانہ بشانہ ملت جعفریہ کی ترقی
کے لئے سرگرم رہے۔ مختلف فلاحی ادارے بھی آپ کی زیر سرپرستی چل رہے ہیں، جن میں آل عمران لاہور نمایاں ہیں۔ بلتستان میں جلوس عاشورا اور جلوس اسد عاشورا کو ترویج دینے اور پھیلانے میں آپ نے بھرپور کردار ادا کیا، ان سے پہلے صرف کھرگرنگ، گنگوپی، سکمیدان، چھومیک سزگرکھور کے عوام ہی ان جلوسوں میں شرکت کرتے تھے، لیکن آغا صاحب کی تبلیغ کی بدولت اب پورے بلتستان میں انتہائی شان و شوکت سے یہ ایام منائے جاتے ہیں۔
جشن مولود کعبہ (ع)، یوم الحسین (ع)، ولادت امام زمانہ (ع) اور عید غدیر جیسی تقریبات کو جدید طرز پر جلسے کی صورت میں انعقاد کرنے کی بنیاد بھی آپ نے ہی ڈالی ہے ورنہ ان سے قبل ان محافل کے انعقاد کا انداز صرف روایتی طرز پر تھا۔ ان تمام تر خدمات کے باوجود آپ کو جس پر ناز ہے وہ آئی ایس او پاکستان ہے۔ آپ آئی ایس او سے کبھی دور نہیں رہے، بلکہ آپ کہا کرتے تھے کہ آئی ایس او میری زندگی کا حاصل ہے، جس طرح حضرت یوسف (ع) کو اپنے حسن پر ناز تھا اسی طرح مجھے آئی ایس او پہ ناز ہے۔