شیطانی طاقتیں شام کی حکومت اور فوج دونوں کو تباہ کرنا چاہتی ہیںحماس کی بقاء صرف مقاومت میں ہی پنہاں ہے، حیدر دقماق
ڈاکٹر حیدر دقماق کا تعلق لبنان سے ہے، آپ حزب اللہ کی القدس کمیٹی کے انچارج ہیں، قبلہ اول کی آزادی اور فلسطین کی مظلومانہ آواز کو دنیا بھر میں پہنچانے کیلئے کوشاں ہیں۔ ڈاکٹر دقماق ایک ہفتے سے پاکستان کے دورے پر ہیں اور یہاں فلسطین فاؤنڈیشن کے زیراہتمام ملک بھر میں جاری آزادی فلسطین کانفرنسز میں شریک ہو رہے ہیں اور پاکستان کے عوام کو قدس کی افادیت و اہمیت اور فلسطینیوں کی آواز کو پہنچانے کی سعی میں مصروف ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز ‘‘نے اُن سے اسلام آباد میں حماس کی موجودہ بدلتی ہوئی پالیسی، شام کی صورتحال اور بحرین پر ایک اہم انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ ( ادارہ)
حماس کا شام سے قطر دفتر منتقل کرنا، اور شام کے معاملے پر خاموش رہنا، کس چیز کی نشاندہی کر رہا ہے، کہیں حماس سودے بازی تو نہیں کر رہی۔؟
حیدر دقماق: حماس مزاحمتی تحریک کا ہی حصہ ہے، ہمیں کسی بھی قسم کا نتیجہ لینے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے، فلسطین میں حماس کی جہادی جدوجہد اور مبارزات کی ایک طویل تاریخ ہے اور ہمیں حماس کو چھوڑ نہیں دینا چاہیے۔ حماس اس وقت بھی تحریک مزاحمت کی قیادت کر رہی ہے اور لبنانی تحریک مزاحمت کی حلیف ہے، لبنانی تحریک اور حماس کے مبارزاتی مسائل کے کلیات ایک ہیں، دیکھیں پچھلے ساٹھ برسوں میں فلسطین کے بارے میں عرب ممالک کی سیاست میں بڑے مد و جزر آئے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ حماس کے وجود کی بقاء صرف مقاومت میں ہی ہے، اور یہ بات حماس بخونی جانتی ہے۔
ہمارے سامنے تحریک فتح کی مثال ہے جو شروع میں فلسطینی کاز کو درست انداز سے لیکر چل رہی تھی لیکن بعد میں ان کی اسٹراٹیجی میں بڑی تبدیلیاں آئیں، اس پر کیا کہیں گے۔؟
حیدر دقماق: دنیا میں کوئی بھی مزاحمتی تحریک جب مزاحمت اور جہاد کے راستے کو چھوڑ دیتی ہے تو پھر اس کی افادیت بھی ختم ہو جاتی ہے، صیہونزم کا علاج صرف اور صرف جہاد اور مزاحمت سے ہی ممکن ہے کیونکہ وہ صرف مزاحمت کی زبان کو ہی سمجھتے ہیں۔
شام کی موجودہ صورتحال کے پیچھے کس کو دیکھتے ہیں۔؟
حیدر دقماق: شام کی مثال عراق اور لیبیا جیسی ہے، عراق کو پہلے تباہ و برباد کر دیا گیا اور اسی طرح لیبیا کو بھی تباہ کیا گیا، ان ممالک کی افواج سے لیکر سویلین اداروں تک کو تباہ کیا گیا اور اس وقت وہاں قبائلی جنگ شروع ہوچکی ہے، امت مسلمہ نے لیبیا میں حکومتی سسٹم کھو دیا ہے، اس وقت شام میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ مکمل طور پر اسرائیل کے مفاد میں ہے، شام میں جاری اس جنگ کو امریکہ چلا رہا ہے اور یہ شیطانی طاقتیں شام کی حکومت اور فوج دونوں کو تباہ کرنا چاہتی ہیں، شام میں یقینی طور پر اصلاحات کی ضرورت ہے، لیکن ان اصلاحات کو شام کے عوام انجام دینگے نہ کہ بیرونی مداخلت سے انجام دی جائیں۔ ہیلری کلنٹن اور اسرائیلی وزیراعظم فساد کی جڑ ہیں، جن کا مقصد شام کو عدم استحکام سے دوچار کرنا ہے۔ وہ کسی صورت شام کے عوام کے خیرخواہ نہیں ہوسکتے۔
جب آپ بحرین میں عوامی انقلاب یا عوام کی رائے کو اہمیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہاں پر خلفیہ غلط کر رہا ہے، یعنی ظلم کر رہا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ صورتحال شام میں کیونکر مختلف ہے۔؟
حیدر دقماق: بحرینی انتفاضہ نے کبھی بیرونی مداخلت کو آواز نہیں دی، انہوں نے کبھی نیٹو، امریکہ یا کسی اور کو مداخلت کے لئے نہیں کہا، بلکہ بحرینی انتفاضہ بحرین پر حاکم ایک خاندان کی ناانصافیوں کے خلاف ہے، ہمارا موقف یہ ہے کہ ہم عوامی مطالبات کے حامی ہیں، خواہ یہ عوام کسی بھی مذہب و فرقے سے تعلق رکھتے ہوں، لیکن عوام کے حقوق کو ڈھال بناتے ہوئے اپنے مقاصد حاصل کرنے کیخلاف ہیں، شام میں امریکی اور نیٹو کی مداخلت کے مخالف ہیں اور تمام ان امریکی اڈوں کی بھی مذمت کرتے ہیں جو مختلف خلیجی عرب ملکوں میں ہیں اور جن کے توسط سے ہی عراق تباہ ہوا، افغانستان تباہ ہوا، لیبیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، ان ممالک میں امریکہ اور اس کے حواریوں کی حمایت اسرائیل کو سوٹ کرتی ہے۔
ایک نکتہ جس کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہر ملک کو اصلاحات کی ضرورت رہتی ہے، میں ایک چھوٹی سی مثال دینا چاہوں گا کہ کیا اگر آپ کو پاکستان میں اصلاحات کی ضرورت پڑے تو آپ امریکہ کو دعوت دیں گے کہ وہ آئے اور یہاں پر اصلاحات لائے، یقیناً ایسا نہیں کریں گے، پوری دینا جانتی ہے کہ امریکہ پاکستان کے حصے بخرے کرنا چاہتا ہے، وہ پاکستان کا کبھی بھی خیر خواہ نہیں رہا، امریکہ پاکستان کی ایٹمی طاقت کو ختم کرنا چاہتا ہے، لیکن پاکستان کے غیور عوام اور پاکستان کی فوج ایسا نہیں کرنے دیگی، انشاءاللہ، پاکستان کی فوج آپ کے ملک کی بقاء کی ضامن ہے۔
پاکستان کے عوام کیلئے کیا پیغام دینا چاہیں گے۔؟
حیدر دقماق: امت مسلمہ کو اس وقت باہمی اتحاد کی اشد ضرورت ہے، دشمن ہمیں ہمارے مذہبی و فروعاتی اختلاف کے سبب ایک دوسرے سے جدا نہیں سمجھتا بلکہ ہم سب کو ایک ہی نظر سے دیکھتا ہے اور نہ ہی دشمن ہمیں سیکولر غیر سیکولر، مذہبی غیر مذہبی یا مختلف سیاسی رحجانات کے سبب تفریق کرتا ہے، بلکہ وہ ہمارے ممال
ک میں کسی بھی عنوان سے ترقی اور بہتری نہیں چاہتا، ہمیں بھی چاہیے کہ ہم باہم متحد رہیں اور باہم مل کر اپنی بہتری اور ترقی کیلئے کوششیں کریں۔ ہمیں دشمن کی سازشوں کو سمجھنا ہوگا، پاکستان کے عوام غیور ہیں جو کبھی بھی دشمن کی چالوں کا حصہ نہیں بنیں گے اور امریکی و اسرائیلی اہداف کے سامنے سینہ سپر رہیں گے۔
میں یہاں کہنا چاہوں گا کہ پاکستان میں بسنے والے تمام مکاتب فکر مل بیٹھ کر اپنے مسائل خود حل کریں۔ آپس میں بھائی چارگی کی فضا کو پروان چڑھائیں، دشمن آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، ہم لاکھوں پر مشتمل افراد اپنے اتحاد و وحدت سے اسرائیل جیسے ملک کو شکست سے دوچار کرسکتے ہیں اور اُن کی شازشوں کا ناکام بنا سکتے ہیں تو یہ کام یہاں پر بھی ممکن ہے۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک دوسرے کو برادشت کریں اور جزوی اختلاف کو حاوی نہ ہونے دیں۔ انشاءاللہ فتح و کامرانی مسلمانوں کے حق میں ہے۔