گلگت بلتستان کا صوبائی سیٹ اپ شیعوں کے خلاف محاذ ثابت ہوا ہے
سانحہ چلاس جیسے انسانیت سوز واقعہ پیش آئے تقریبا چار ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ان دہشت گردوں، اسلام دشمنوں اور پاکستان دشمنوں کے خلاف کسی قسم کی ٹھوس کارروائی عمل میں نہ لانا پاکستان کی سلامتی کے لیے سوالیہ نشان ہے۔ اس انسانیت سوز واقعے کے بعد سیکیورٹی ادارے، خفیہ ادارے اور عدلیہ کی خاموشی بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ سانحہ چلاس جسے گلگت بلتستان کی تاریخ کا بدترین واقعہ کہا جاسکتا ہے کے بعد گلگت بلتستان کے لاکھوں عوام نے چند ایسے مطالبات کئے جو نہ صرف قابل حل تھے بلکہ پاکستان کی سلامتی کے لیے ناگزیر تھے۔ ان مطالبات کا جواب بھی حکومت نے نہایت خوبصورت انداز میں دیا۔
لوگوں کا مطالبہ تھا کہ شاہراہ قراقرم کو محفوظ بنانے کے لئے اس کو فوج کے حوالے کیا جائے۔ لیکن جواب فوج کے حوالے کرنا تو درکنار سانحہ چلاس کے صرف دو ہفتے بعد گلگت سے پنڈی جانے والی بس میں مسافرین کو لوٹنے پر حکومت کی خاموشی کی صورت میں ملا۔ اگلا مطالبہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا تھا۔ حکومت نے اس کا بھی جواب نہایت اچھے انداز میں دیا۔ حکومت نے چلاس کے بجائے نگر میں آپریشن کے لئے تیاریاں شروع کیں۔ اہلیان نگر کا جرم 35 سے زائد چلاس اور کوہستان کے لوگوں کو سلامتی کے ساتھ حکومت کے حوالے کرنا تھا۔ جن لوگوں نے بسوں سے نکال نکال کر لوگوں کو قتل کیا، لاشوں پر بھنگڑے ڈالے، لیکن حکومت کو ان کے خلاف کسی آپریشن کی جرات نہیں ہوئی۔ ایک اور مطالبہ پاکستان میں جاری منظم شیعہ نسل کشی کو روکنے کا تھا لیکن ملک عزیز میں اس سانحہ کے بعد علی کے نام لیوا لوگوں پر زمین اور تنگ کر دی گئی اور ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ ہوگیا۔ عوام کا مطالبہ یہ بھی تھا کہ پی آئی اے کے کرایوں میں کمی کر دی جائے اور فلائٹس بڑھائی جائیں۔ فلائٹس کا بڑھانا تو درکنار ان دونوں مطالبات کے فوراً بعد جہاز کے کرایوں میں سات سو سے آٹھ سو روپے کا اضافہ کردیا گیا۔
سانحہ چلاس کا غبار ابھی بیٹھا نہیں تھا کہ سوگوران میں درجنوں لوگوں پر جن میں شہداء کے خانوادگان بھی شامل ہیں، کو اس افسوسناک واقعہ پر دلاسہ کے طور پر اینٹی پاکستان اور اینٹی گورنمنٹ ایکٹ لگا کردیا گیا اور ان ملازمین کو دور دراز علاقوں میں ٹرانسفر کرکے شاید یہ پیغام دینا چاہا گیا کہ چاہے تمہارے عزیزوں کو قتل کردیا جائے، ان کے جسم کو مسل دیا جائے، ان کے سر اور پیر کو پتھروں سے کچلا جائے، بھائی کو بہنوں کے سامنے کلاشنکوف کی گولیوں سے چھلنی کردیا جائے، شہداء کی پاک لاشوں کو سات سات روز تک لاپتہ رکھا جائے خواہ کچھ بھی ہوجائے تم نے خاموش رہنا ہے کیونکہ تم ملازم ہو، تم غلام ہو، تمہارا بولنا جرم ہے، اگر کچھ بولو گے تو تمہاری خلاف کارروائی ہوگی۔ تمہیں جیلوں میں بھیج دیا جائے گا۔ تم نوکریوں سے رہ جاؤ گے۔ تمہاری مسجدوں کو سیل کردیا جائے گا۔ خواہ کچھ بھی ہو تم نے خاموش رہنا ہے کیونکہ سچ بولنا حقیقت بیانی، ظالم کو ظالم کہنا جرم ہے۔
بہرکیف سانحہ چلاس کے بعد درجنوں لوگوں کے خلاف کارروائی کرکے بھی موجودہ حکومت کو چین نہیں ملا، روندو ہراموش میں ایک حضرت وکیل کی گاڑی تھوڑی دیر روکنے اور احتجاج کرنے کے جرم میں ہراموش کے چند جوانوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے گرفتاری کی کوشش کی گئی شاید احتجاج بھی جرم ہے۔ سانحہ چلاس کے بعد ایک اور مطالبہ متبادل سڑک کا تھا۔ اس پر حکومت کو سوچنے کا موقع بھلا انہیں تب ملے جب انہیں شیعہ دشمنی سے فراغت ملے تو سہی۔ متبادل روڈ تو کجا موجودہ شاہراہ پر قاتلوں نے اگلی بار اس سے بھی سخت کارروئی کی دھمکی لگائی۔
حالات سے یہ واضح ہورہا ہے کہ سانحہ کوہستان اور چلاس کے بعد دہشت گردوں کے حوصلے حکومت کی پالیسی کے نتیجے میں بہت بلند ہوگئے ہیں اور مزید کوئی خطرناک کارروائی کرسکتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے مظلومین کے ساتھ ایک اور مہربانی کی وہ میڈیا پر پابندی کی تھی۔ سانحہ چلاس کے بعد حکومت نے شیعہ خبروں پر مکمل پابندی عائد کی جبکہ چلاس کے قاتلوں کی خبریں میڈیا پر آتی رہی۔ اس کے علاوہ موجودہ حکومت کی ایک اور شیعہ دشمنی شیعہ مسجد کو سیل اور آغا راحت حسین الحسینی کو گرفتار کرنے کے احکامات تھے۔ شاید شیعوں کا جرم قتل ہوجانا ہے۔ قاتل آزاد ہیں۔ ان پر کسی قسم کی پابندی نہیں، سانحہ چلاس کی ویڈیو ریلیز ہونے کے بعد بھی کسی کو سزا نہیں ملی، اگر سزا ملتی ہے تو قاتلوں کی مذمت کرنے والوں کو، بند کرو بند کرو دہشت گردی بند کرو کہنے والوں کو، پاکستان بنایا تھا پاکستان بچائیں گے کا نعرہ بلند کرنے والوں کو۔
ان تمام تر حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ شیعوں سے یہ کہلوانا چاہتے ہیں کہ ہمیں آلو گاجر کی طرح بھی کاٹا جائے ہم ایک لفظ نہیں بولیں گے کیونکہ ہم سرکاری ملازم ہیں، ہم غلام ہیں، ہمارا بولنا جرم ہے۔ سانحہ چلاس کے بعد جو مطالبات کئے گئے، ایک حوالے سے وہ تسلیم کرلئے گئے ہیں یہ الگ بات کہ اس پر عمل الٹا کیا گیا۔ حکومت نے آپریشن کی کوشش کی لیکن چلاس کے بجائے نگر میں، قانونی کارروائی تو کی لاشوں پر ناچنے والے چلاسیوں کے بجائے اسکردو کے صدائے احتجاج بلند کرنے والوں پر، گرفتاری کی کوششیں تو کیں چلاس کے قاتلوں کے بجائے ہراموش کے مومنین کی، مسجدیں سیل تو کی تکفیری مسجدوں کے بجائے آواز وحدت بلند ہونے والوں کی، پس زندان کرنے کی کوشش تو کی لی
کن قاتلوں اور دہشت گردوں کے بجائے آغا راحت حسینی کو، پی آئی اے کے کرایوں میں تبدیلی تو کی البتہ کمی کے بجائے اضافہ کیا گیا، معاوضہ تو دیا شہداء کے وارثین کے بجائے گمبہ اسکردو میں جلنے والے چلاسی پیٹرول پمپ کے مالک کو، یہ سب کچھ اس لئے ہو رہا ہے کہ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات، ملک بھر کی طرح بلتستان میں جاری شیعہ دشمنی کا سلسلہ رکا نہیں ہے۔
سانحہ چلاس کے خلاف سب سے زیادہ صدائے احتجاج بلند کرنے والی تنظیم مجلس وحدت مسلمین ہے۔ لیکن مجلس وحدت مسلمین کے سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری جب اسد عاشورہ کی مجالس کے لئے اسکردو تشریف لائے تو ان کے خلاف علاقہ بدری کے احکامات جاری کرکے واضح کیا کہ موجودہ حکومت گلگت بلتستان کو پاکستان سے الگ رکھ کر پاکستان دشمنوں کے ایجنڈے پر عملدرآمد چاہتی ہے۔ صوبائی وزیراعلیٰ کو علامہ راجہ ناصر عباس پہ سب سے بڑا اعتراض پنجاب سے یہاں آنے کا تھا۔ خیال رہے کہ پاکستان دشمن طاقتیں پاکستان میں اس وقت صوبائی اور علاقائی تعصبات اور فسادات کو ہوا دے کر تقسیم کرنا چاہتی ہے۔ بلا کسی سبب کے ایک مہمان عالم دین کے خلاف جب علاقہ بدری کے احکامات جاری کئے گئے تو بلتستان بھر کے مومنین سراپا احتجاج ہوئے، مہدی شاہ نے احکامات تو واپس لے لئے لیکن ان میں شرکت کے الزام میں 49 مومنین کے خلاف کاروائی کرکے ایک دفعہ پھر واضح کردیا کہ تم غلام ہو غلط کو غلط ہرگز نہیں کہنا، سچ نہیں بولنا ورنہ تمہارے اوپر رزق کے دروازے بند کردئیے جاینگے۔ جب تک تم سرکاری ملازم ہو احکام اسلام بھی تم پر نافذ نہیں ہوتا، حق کو حق اور باطل کو باطل کہنے کی کبھی جرات نہیں کرنا۔
یوں شیعوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں ہر جائز مطالبے کے خلاف کاروائی کرنا موجودہ حکومت کا وطیرہ بن چکا ہے۔ حکومت اور عالمی شیعہ دشمن طاقتیں شیعہ مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کو دیوار سے لگانا چاہتی ہے۔ لیکن شاید انہیں معلوم نہیں کہ ہماری تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہیں۔ زندان، قید، اسیری اور شہادت ہمارے لئے اتنی مانوس ہیں جتنے بچے کو ماں کا دودھ۔ دھمکیوں اور صعوبتوں سے نہ یہ قوم ڈری ہے نہ ایسے ہتھکنڈوں سے ہم حق کہنے سے پیچھے ہٹیں گے۔ کیونکہ یہ سبق ہم نے خطیب نوک سناں سے سیکھا ہے۔
حکومت کو چاہیئے کہ اب بھی وقت ہے شیعہ مسلمانوں کے ساتھ درپیش زیادتیاں کم کرے، ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے سے قبل ان کو پاکستان کا شہری سمجھ کر ان کے تحفظ ان کے ساتھ جاری ظلم و ستم کو روکا جائے۔ یہاں پہ ایک سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان میں جو کچھ ہوا اگر ایک شیعہ سید وزیراعلیٰ کی جگہ پر کوئی طالبان مائنڈ شخص بھی ہوتا تو کیا وہ اس سے مختلف کام کرتا؟ جواب یقیناً نفی میں ہی ملے گا۔