اے خمینی (رہ) کے درد کا درماں، علامہ عارف حسین الحسینی شہید
اے شہید مظلوم، ہماری روحیں آپ پر فداء ہوں۔ آپ کی عظمت اور شان کو سمجھنا ہمارے بس میں نہیں۔ ہاں اے شہید بزرگوار! آپ کی شہادت کے موقع پر امام خمینی (رہ) جیسے کوہ گراں کے آنسو یہ پتہ دیتے ہیں کہ آپ کو فقط خمینی (رہ) نے سمجھا، پاکستان کی فضاوں اور مٹی میں شائد اس کی تاب ہی نہیں تھی، آپ امام خمینی (رہ) کا درد تھے اور خمینی (رہ) کے درد کا درماں۔ آپ کو سمجھنے اور آپکی حقیقت تک رسائی کے لیے کم از کم امام خمینی (رہ) جیسی شخصیت اور دل درد شناس کا ہونا ضروری ہے۔ ورنہ کربلائے پاکستان میں نہ آپ مظلومانہ طور پر شہید ہوتے، نہ آپ کی شہادت پر امام خمینی (رہ) دکھی دل کے ساتھ اہلبیت نبوت (ع) کے گھرانے کی عظیم مصیبت کا پاکستانی قوم کے ساتھ یوں شکوہ کرتے
پیکر تسلیم و رضا، منبع اخلاص، عارف الٰہی، مجسمہ عقیدہ و عمل، شجاع، غیور اور بابصیرت قائد علامہ عارف حسین الحسینی شہید کے متعلق بولنے سے زبان قاصر ہے اور لکھنے کے لیے قلم میں تاب نہیں، لیکن دل شہید کی یاد اور محبت سے مخمور ہیں۔ مجھ جیسے کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو زندگی میں تو آپ کی زیارت سے شرف یاب نہیں ہوئے، لیکن ہر صاحب دل کی روح آپ کی ذات سے خاص تعلق کو ہر لمحہ محسوس کرتی ہے۔ یہ ہر شہید کی خصوصیت اور اللہ رب العزت کی طرف سے عطا کردہ خاص منزلت ہے کہ جو اپنی ہستی کو خدا کی راہ میں قربان کر دے، وہ تا ابد زندہ و پائندہ رہتا ہے۔
فرزند حقیقی سید شہداء علامہ عارف حسین الحسینی شہید کے متعلق آپکے نہایت معتمد ساتھی اور جانثار دوست ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید نے آپ کا مقام و منزلت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ: ’’عزیز دوستو ! ہر ایک کے لیے دین مبین اسلام کو سمجھنا آسان نہیں، ہم معیارات کے ذریعے اسلام کی حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں۔ جیسا کہ فقیہ عالیقدر شہید باقر الصدر نے امام خمینی (رہ) کے متعلق فرمایا کہ امام خمینی (رہ) کی ذات میں اس طرح ضم ہو جاو، جس طرح وہ اسلام مین ضم ہو چکے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح امام خمینی (رہ) اسلام میں ضم ہو چکے تھے، اسی طرح قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی امام خمینی (رہ) کی ذات میں ضم ہو چکے تھے۔
پس امام خمینی (رہ) کے بعد شہید عارف حسینی بھی ہمارے لیے ایک معیار ہیں کہ جن کو دیکھ کر ہم دین مبین اسلام کی حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں اور دین مبین اسلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے شہید عارف حسین الحسینی کے آثار ہماری نسلوں کے لیے کافی ہیں، جس طرح شہید مطہری، شہید بہشتی اور دیگر شہداء بزم امام خمینی (رہ) کے چمکتے ہوئے ستارے ہیں، علامہ شہید عارف حسین الحسینی بھی انہی میں سے ایک ہیں۔‘‘
علامہ شہید عارف حسین الحسینی نے امام خمینی (رہ) کے پیغام کا علم اٹھایا اور تادم شہادت اسے سرنگوں نہیں ہونے دیا، آپ امام خمینی (رہ) کے سچے عاشق تھے اور عاشق و معشوق کا رشتہ کچھ ایسا رشتہ ہوتا ہے کہ زمان و مکان کی قید سے آزاد دونوں ہر لمحہ، ہر پل ایک دوسرے کو اپنے قریب بلکہ اپنے سامنے پاتے ہیں۔ اس لیے عاشقوں کے نزدیک تو سید روح اللہ خمینی اور شہید عارف حسین حسینی کبھی جدا نہیں رہے، البتہ ہر مادی آنکھ اس کو نہیں دیکھ سکتی، نہ ہر کس و ناکس کا دل اس کو محسوس کر سکتا ہے۔ اگر ہم شہید حسینی کے آثار کو اٹھا کر دیکھیں تو ایسی کوئی گفتگو یا تحریر نہیں ملتی، جس میں اہلبیت علیھم السلام کے ذکر کے ساتھ شہید نے اپنے روحانی پدر بزرگوار امام خمینی (رہ) کا ذکر نہ کیا ہو۔ آپ کا دل عشق خمینی (رہ) سے لبریز تھا اور آپ سرزمین پاکستان پر مجسم خمینی تھے، نہ ایک تولہ کم نہ زیادہ۔
سچ کہتے ہیں دل کو دل سے راہ ہوتی ہے اور عاشق و محبوب کے درمیان جو تعلق ہوتا ہے اس کو فقط وہ دونوں ہی سمجھ سکتے ہیں، کیونکہ عشق ایک کیفیت کا نام ہے، جو اس میں سے گذر رہا ہو وہی سمجھ سکتا ہے کہ عشق کیا ہے۔ جس طرح سرزمین پاکستان پر شہید عارف حسین الحسینی ایک خمینی شناس تھے، ایسے ہی اگر دنیا میں کوئی حسینی شناس تھا تو فقط امام خمینی (رہ) تھے۔
شہید حسینی کیا تھے؟ اور آپ کا مقام کیا ہے؟ اس حقیقت کا اظہار تو فقط امام خمینی (رہ) کے اس نوحے میں ہوا، جو آپ نے شہید عارف حسین الحسینی کی شہادت پر لکھا۔ امام خمینی (رہ) نے شہید حسینی کو اپنا عزیز فرزند قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ فرزند حقیقی سیدالشہداء ہیں۔ شہید عارف حسین الحسینی کے متعلق ان خیالات کا اظہار کسی رکھ رکھاؤ کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ تو شہید مرتضٰی مطہری کے بعد بوڑھے باپ کا واحد سرمایہ لٹ جانے کے بعد ایک ٹوٹے ہوئے دل کی آواز تھی، ورنہ امام خمینی (رہ) فقط شہید حسینی کی شہادت کا ذکر کرتے، افسوس کا اظہار کرتے اور پاکستانی قوم کو ان کے غم میں برابر کا شریک قرار دیتے اور بس۔
ایسا ہرگز نہیں ہے، امام خمینی (رہ) کو شہید عارف حسین الحسینی کی شہادت سے کوئی ایسا دکھ پہنچا تھا جو فقط امام خمینی (رہ) ہی سمجھ سکے اور جس پاکستانی قوم آج تک سمجھنے سے قاصر ہے۔ کاش ہمارے دل دنیا سے آزاد ہو جاتے اور امام خمینی (رہ) کے درد کو سمجھ پاتے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اسی لیے تو امام راحل (رہ) نے درد بھرے دل کے ساتھ شکوہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر مدارس اپنا اپنا کردار ادا کرتے تو آج ہمیں شہید حسینی کی شہادت کا صدمہ برداشت نہ کرنا پڑتا۔
اے شہید مظلوم، ہماری روحیں آپ پر فد
اء ہوں۔ آپ کی عظمت اور شان کو سمجھنا ہمارے بس میں نہیں۔ ہاں اے شہید بزرگوار! آپ کی شہادت کے موقع پر امام خمینی (رہ) جیسے کوہ گراں کے آنسو یہ پتہ دیتے ہیں کہ آپ کو فقط خمینی (رہ) نے سمجھا، پاکستان کی فضاوں اور مٹی میں شائد اس کی تاب ہی نہیں تھی، آپ امام خمینی (رہ) کا درد تھے اور خمینی (رہ) کے درد کا درماں۔ آپ کو سمجھنے اور آپکی حقیقت تک رسائی کے لیے کم از کم امام خمینی (رہ) جیسی شخصیت اور دل درد شناس کا ہونا ضروری ہے۔ ورنہ کربلائے پاکستان میں نہ آپ مظلومانہ طور پر شہید ہوتے، نہ آپ کی شہادت پر امام خمینی (رہ) دکھی دل کے ساتھ اہلبیت نبوت (ع) کے گھرانے کی عظیم مصیبت کا پاکستانی قوم کے ساتھ یوں شکوہ کرتے۔
اے شہید کربلا کے حقیقی فرزند! آپ کی شہادت پر ہماری آنکھیں آپ کے سامنے، امام راحل (رہ) کے سامنے اور سیدالشہداء (ع) کے سامنے شرم سے جھکی ہوئی ہیں۔ ہم آپ ہی سے توسل کرتے ہیں اور آپ کے مقدس خون کو اپنی گردنوں پر قرض سمجھتے ہیں۔ آپ کی شان بلند ہے، ہماری کوئی بساط نہیں، بس آپ کی نسبت ہے اور آپ کی محبت جو ہمارے دلوں کا سرمایہ اور ہماری روحوں کی پاکیزگی کا سامان ہے۔ اے فرزند علی (ع) و زہرا (س) یہ درست ہے کہ ہمارے قلب و جاں کا ظرف کوتاہ ہے، لیکن آپ کی شان اعلٰی و ارفا ہے، آپ کریم ابن کریم ہیں، آپ نے ملت پاکستان کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا، یہ آپ کی کرامت اور مقدس خون کا معجزہ ہے کہ آج بھی ملت مظلوم پاکستان سر اٹھا کے داخلی و خارجی ملک دشمن طاقتوں کو آپ ہی کے لہجے میں للکار رہی ہے۔ انشاءاللہ آپ کی مقدس روح مظلومین پاکستان پر شاہد اور انکی مددگار ہے۔