انتہاء پسندی کا پھیلاؤ اور اس کا تدارک
چودہ اگست کو پی ایم اے کاکول میں جنرل کیانی صاحب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی انتہاء پسندی کیخلاف جنگ ہماری جنگ ہے۔ کم از کم ان کے خطاب کا لبِ لباب یہی تھا۔ اگر یہ وضاحت کچھ عرصے پہلے آجاتی تو بہت بہتر ہوتا۔ تاہم دیر آید درست آید۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مذہبی انتہاء پسندی نے آکٹوپس کی طرح معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس کے سامنے ہمارے دیگر مسائل بشمول معاشی پریشانیاں بے حقیقت دکھائی دیتے ہیں۔ اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ مذہبی انتہاء پسندی نے ریاست کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
ہم نے سقوط ڈھاکہ کا صدمہ برداشت کر ہی لیا۔ جرمنی کی سرزمین اغیار کے قبضے میں چلی گئی مگر جرمنی جرمنی ہی رہا۔ سویت یونین کے تحلیل ہو جانے کے بعد بھی روس اپنی بقاء سے محروم نہیں ہوا۔ لیکن اس مذہبی انتہاء پسندی، جس کا آج ہمیں سامنا ہے، کو اگر نہ روکا گیا تو پاکستان پاکستان نہیں رہے گا۔ مانا کے پاکستان مذہب کے نام پر بنا تھا، تو کیا ضروری ہے کہ اسے مذہب کے نام پر ہی ختم کیا جائے؟
پَلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ مگر ہمارا نالہ وہیں گر رہا ہے۔ کیا یہ ہماری جنگ ہے یا نہیں؟ اگر یہ جنگ بھی ہماری نہیں ہے تو پھر ہماری کوئی جنگ ہے ہی نہیں۔ گفتار کے غازی ایک بار یہ بات یاد رکھیں، حکیم اللہ محسود کی "اسلامی ریاست” میں عمران خان ایک دن بھی نہیں گزار سکتا۔ آج شمالی وزیرستان ایک ایسی ریاست بن چکا ہے، جہاں نہ تو پاکستان اپنا پرچم لہرا سکتا ہے اور نہ ہی پاکستانی ریاست اپنی عملداری رکھتی ہے۔ عملی طور پر ہمارا اس علاقے پر کوئی کنڑول نہیں ہے۔ مگر وہاں ہونے والے ڈرون حملوں پر دائیں بائیں کے ہر قسم کے لیڈر جھوٹے آنسو بہاتے ہوئے سینہ کوبی کرتے رہتے ہیں۔
ان کا مسخرہ پن، جو المناک حد تک سنگین بیماری اختیار کرچکا ہے، ان کی کوتاہ بینی کی غمازی کرتا ہے۔ اگر عام انسان بے پر کے اُڑاتا رہے تو کوئی بات نہیں۔ مگر ملک کی مقتدر شخصیات کو زیب نہیں دیتا کہ ہمہ وقت اپنی حماقت طشت ازبام کرتے رہیں۔ اب ملک کے اہم ترین ادارے کی طرف سے اپنی سابقہ منطق پر نظرثانی کی گئی ہے۔ پاکستان میں انتہاء پسندی کی وباء ستاروں کی پراسرار حرکت یا کائناتی لہروں یا دیگر غیرمرئی ذرائع سے نہیں پھیلی ہے بلکہ اس کی وجہ…… اور یہ الفاظ تحریر کرتے ہوئے میرا دل ڈوب جاتا ہے….. کوئی اور نہیں بلکہ پاکستان کے دفاعی اور خفیہ ادارے تھے۔
بدقسمتی سے قومی پالیسی کے تحت جہاد کا پرچار کیا گیا اور انتہاء پسند تنظیموں کو تربیتی کیمپ لگانے، نوجوانوں کو بھرتی کرکے جہاد پر روانہ کرنے اور معاشرے میں تنگ نظری، نفرت اور تعصب کا پرچار کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ یہ پالیسی ہی ہماری خارجہ پالیسی کی وسیع تر شکل رہی ہے۔ لیکن جیسا کہ ان معاملات میں ہوتا ہے، ان شعلوں نے ہمارا خرمن ہی خاکستر کرنا شروع کر دیا اور ان کی تپش شائد اغیار نے اتنی محسوس نہیں کی جتنی ہم کر رہے ہیں۔
تاہم یہ تاریخ ہے اور اب اسے قصہ پارینہ بننے دینا چاہیئے۔ چلیں دیر ہی سہی، جنرل کیانی صاحب کی تقریر سے جس نظریاتی تبدیلی کی جھلک ملی ہے، اُس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیئے۔ اب سیاسی قیادت کا بھی فرض ہے کہ وہ اس آواز سے آواز ملائے۔ دراصل کیانی صاحب کی بجائے یہ بات صدر صاحب کی طرف سے کی جانی چاہیئے تھی، (وزیراعظم صاحب کو رہنے دیں وہ دیگر کاموں میں مصروف ہیں) اور اس کا اعادہ قومی رہنماؤں اور خاص طور پر جو وزارت اعظمٰی کے امیدوار ہیں… اور ان کی تعداد ملک میں کم نہیں ہے…. کی طرف سے بھی کیا جانا چاہیئے تھا۔
چنانچہ یہ اخلاقی جرات فوجی قیادت کی طرف سے نظر آئی۔ اگر اہم معاملات پر دفاعی قیادت نے ہی زبان کھولنی ہے، (سیاسی قیادت کے مجرمانہ سکوت کی وجہ سے) تو پھر ہمیں اس پر گلہ نہیں کیا جانا چاہیئے کہ امریکی وفود جب پاکستان آتے ہیں تو وہ بات چیت کرنے کیلئے جی ایچ کیو کا رخ کیوں کرتے ہیں۔ اب امید کی جانی چاہیئے کہ ملڑی اکیڈمی میں کی جانے والی تقریر محض خطابت تک ہی محدود نہیں رہے گی۔ بلکہ اس سے ہماری قومی ترجیحات کی واضح سمت کا تعین ہوتا دکھائی دے گا۔
ایسا کرتے ہوئے ہمیں اس نکتے پر بہت واضح ہونا چاہیئے کہ پاکستان میں انتہاء پسندی کا کیا مطلب ہے؟ یہ صرف شمالی وزیرستان سے اٹھنے والی تشدد کی لہر نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو بہت زیادہ تشویشناک امر نہ تھا کیونکہ اس کا تدارک کیا جاسکتا تھا۔ تاہم یہ مسئلہ اپنے اندر بہت سی پیچیدگیاں لیے ہوئے ہے۔ اگر کینسر جسم کے ایک عضو میں ہو تو علاج، یا اس کو رفع کیا جاسکتا ہے، لیکن اگر یہ رگ و پے میں سرائیت کرچکا ہو تو …؟
شمالی وزیرستان میں پھوٹنے والی انتہاء پسندی کے نظریاتی ہمدرد، خفیہ ٹھکانے اور مذہبی اداروں کی آڑ میں حمایت کا سلسلہ ملک کے طول و عرض تک پھیلا ہوا ہے اور مذہبی جنونیت کے کھولتے ہوئے پاکستان میں اس کی افزائش کا دائرہ ہر آن پھیلتا جا رہا ہے۔ جب ملک میں مساجد کے لاؤڈ سپیکروں کا بے دریغ استعمال شعلہ بیان مقررین کا محبوب اور بلا روک ٹوک مشغلہ بن جائے اور وہ مخالف فرقے کے خلاف زہر اگلنے کی روایت کو ترقی دیتے رہیں، جب کسی لاچار لڑکی کی توہین کے الزام میں گرفتاری سے تشدد کا سلسلہ شروع ہو جائے۔ جب تو
ہین کے ایک ملزم کو مشتعل ہجوم لاک اپ توڑ کر لے جائے اور اس پر تشدد کرنے کے بعد اسے زندہ جلا دے، جب ایک نوعمر لڑکی کو توہین کے الزام میں گرفتار کیا جائے اور اہل ایمان کے کان پرجوں تک نہ رینگے اور جلسے جلوس نکالتے ہوئے "مجاہدین” سڑک در سڑک قومیت کے نعرے لگاتے رہیں تو عزیز قارئین!
کیا اس حقیقت میں ابہام رہ جاتا ہے کہ جو زہریلے افعی ہم نے پالے تھے، اب ان کا زہر ملک کے جسد فکری کو زہرآلود کر چکا ہے؟ جو لوگ خود کو غیرجانبدار سمجھتے ہیں وہ دراصل اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ وسیع پیمانے پر قتل عام ہوتا ہے یا جب لوگوں کو بسوں سے اتار کر شناخت کرنے کے بعد گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے تو وہ اپنے کندھے اچکاتے ہوئے اپنے معمول کے کام جاری رکھتے ہیں۔ اس بےحسی سے ثابت ہوتا ہے کہ انتہاء پسندی کی ریاست صرف شمالی وزیرستان تک ہی محدود نہیں ہے۔
کیا اس کا سنگ بنیاد امریکہ نے رکھا ہے؟ کیا ہمارے تمام مسائل کا صرف امریکہ ذمے دار ہے؟ یا کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ اژدھے ہم نے خود پالے ہیں؟ اگر یہ ماضی کی بات تھی تو کیا اب بھی ہم ان میں بہت سوں کو آستین میں نہیں چھپائے بیٹھے؟ اب اگر ہمیں حقیقت کا علم ہوگیا ہے تو ہمارے اقدامات واضح ہونے چاہیئے اور ان کا دائرہ کار صرف فوجی آپریشن تک محدود نہیں ہونا چاہیئے۔ تمام سیاسی قیادت اور سول سوسائٹی کا اس نکتے پر اتفاق ہونا چاہیئے کہ پاکستان کا چہرہ مسخ ہوچکا ہے اور اگر ہم جناح اور اقبال کا پاکستان چاہتے ہیں تو ہمیں اسے درست راہوں پر لانا ہوگا۔ اور ہم راہ کہاں سے بھولے تھے، اس کی تفہیم کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔
کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم بےحسی چھوڑ کر پورے جوش و جذبے سے انتہاء پسندی کیخلاف اٹھ کھڑے ہوں؟ یہ سیاہی ہمارے مقدر میں نہیں لکھی ہوئی ہے… یہ ہمارے روز روشن کو سیاہ نہیں کرسکتی۔ اس سے نجات کیلئے ہمیں اپنے ماضی کے رویوں اور مسخ شدہ عقائد سے جان چھڑانا ہوگی۔ یہ جنگ جو ہم پر مسلط ہوچکی ہے صرف اس صورت میں جیتی جاسکتی ہے جب پاکستانی ذہن تمام تر شکوک و شبہات سے آزاد ہو کر پوری یکسوئی کیساتھ اس میں شریک ہوگا۔