پیغمبراکرم (ص) کے خلاف امریکی ـ صہیونی توہین آمیز فلم کے پس پردہ عوامل
یہ فلم ـ بعنوان: مسلمانوں سے بیزاری ـ دو گھنٹوں کی ہے لیکن اس کے چند منٹوں کے کئی کلپ امریکی ویب سائٹ "یو ٹیوب” پر شائع ہوئے ہیں اور مسلمانان عالم کے احتجاج کے باوجود ابھی تک حذف نہیں ہوئے ہیں؛ حالانکہ یہ ویب سائٹ دعوی کرتی ہے کہ وہ ایسی ویڈیو شائع نہیں کیا کرتی جو دنیا میں تشدد کا سبب بنے۔
رپورٹ کے مطابق امریکہ میں مقیم ایک یہودی (صہیونی) شخص نے مصر سے فرار کرکے امریکہ میں سکونت پذیر ہونے والے بعض قبطی عیسائیوں کے ساتھ مل کر امریکہ کے پاگل پادری ٹیری جونز نے اسلام فوبیا کا اپنا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی توہین پر مبنی ایک فلم بنائی۔
اس فلم کا نام توہین آمیز فلم کا نام "برائت از مسلمین” و "رسول اسلام کی حیات” ہے جو ایک امیچور ڈائریکٹر "سام باسیل” نے بنائی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی توہین پر مبنی متعدد مناظر پر مشتمل ہے اور انہیں بیان کرنے سے ہر زبان شرماتی ہے۔
یہ توہین آمیز فلم قبل ازیں صرف ایک بار ہالی ووڈ کے ایک ہال میں آزمائشی طور پر دکھائی گئی اور طے یہ تھا کہ کل (11 ستمبر 2012) کو 11 ستمبر 2001 کی گیارہویں برسی کے موقع پر احمق امریکی پادری "ٹیری جونز” کے گرجاگھر میں دکھائی جائے لیکن یہ نمائش منسوخ ہوگئی۔
اس احمق پادری نے کل (11 ستمبر 2012 کو) ایک اور توہین آمیز اقدام کرتے ہوئے "محمد (ص) پر عوامی عدالت میں مقدمہ” کا اہتمام کیا اور بزعم خویش رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر مقدمہ چلایا۔ طے یہ تھا کہ یہ فلم اس مقدمے کے موقع پر ہی دکھائی جائے۔
لیکن فلم کی باضابطہ نمائش کی منسوخی کے باوجود یہ فلم سائبر سپیس پر نشر کی گئی اور چونکہ یہ کام مصر کے قبطی پناہ گزینوں نے انجام دیا ہے اسی وجہ سے اس کا سے پہلا رد عمل بھی مصر میں ظاہر ہوا ہے جس کے بعد رد عمل کا یہ سلسلہ لیبیا اور دوسرے ممالک تک پہنچا۔
مسلم، عیسائی اور قبطی شخصیات نے اس فلم کی مذمت کی نیز وائٹ ہاؤس نے بھی مذمت کی لیکن غضبناک اور مشتعل مسلمانوں نے مصر اور لیبیا میں قاہرہ اور بنغازی میں امریکہ کے سفارتی دفاتر پر حملے کئے اور لیبیا میں مسلح افراد نے امریکہ کے سفیر اور تین دیگر سفارتکاروں یا سفارتی کارکنوں کو ہلاک کردیا جس کی اگرچہ حوصلہ افزائی نہيں کی جاسکتی لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ مشتعل افراد کا یہ اقدام امریکیوں کی اشتعال انگیزی اور امریکی صہیونیوں کی طرف سے اسلام اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان میں گستاخی کا نتیجہ ہے۔
یہ فلم دو گھنٹوں کی ہے لیکن اس کے چند منٹوں پر مشتمل کلپس (مصر کی مقام زبان میں ڈبلنگ کے ساتھ) امریکہ سے وابستہ ویڈیو سائٹ یو ٹیوب پر نشر کئے گئے ہیں اور وسیع اعتراضات و احتجاجات کے باوجود ابھی تک حذف نہیں ہوئے ہیں۔ حالانکہ یوٹیوب ویب سائٹ کا دعوی ہے کہ وہ کبھی بھی ایسا مواد نشر نہیں کیا کرتی جو عمومی طور پر تشدد پھیلنے کا سبب ہو۔
فلم کے کوائف:
نام: "مسلمانوں سے برائت (Innocence of Muslims) (حیات محمد [ص] رسول اسلام)
منظرنامہ نویس، ڈائریکٹر و پروڈیوسر: سام باسیل (Sam Bacile)
سال: 2011 ـ ریاست ہائے متحدہ امریکہ
وقت: 120 منٹ
مالی امداد دینے والے: صہیونی
اخلاقی مدد دینے والے: مصر کے قبطی پناہ گزینوں کی خودخواندہ حکومت (امریکہ میں پناہگزین قبطی حکومت کے سپریم بورڈ) کا سرغنہ "عصمت زقلمہ” ـ عدلیہ کا قبطی وکیل "موریس صادق” ـ امریکی قرآن سوز پادری "ٹیری جونز”۔
فلم کی داستان:
فلم کی داستان مصر میں ایک قبطی طبیب کے دواخانے پر انتہاپسند گروپوں کے حملوں سے شروع ہوتی ہے۔ اس منظرے میں چند مسلمان لمبی داڑھیوں کے ساتھ ڈنڈے اور لاٹھیاں لے کر دواخانے پر حملہ کرتے ہیں اور اس کی بیوی پر نامردانہ حملہ کرکے اس کی دکان کو تباہ کردیتے ہیں؛ لیکن مصر کی پولیس خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی ہے۔
فلم اس سین اس کے بعد صدر اول میں رسول اللہ الاعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیات کی طرف لوٹتی ہے اور ایک نہایت بھونڈا اور قبیح و بازار منظر پیش کرتی ہے جو قابل بیان نہيں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان میں گستاخی کے ساتھ ساتھ اسلام کو "سرطان” اور مسلمانوں کو تشدد پسند، پسماندہ اور خونخواری کے حامیوں کے عنوان سے دکھایا جاتا ہے۔
اس فلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا کردار ایک امریکی شخص کو دیا گیا ہے جو کامیڈی انداز سے نہایت توہین آمیز کردار ادا کرتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نزول وحی کو جھٹلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
امریکی روزنامے "وال اسٹریٹ جرنل نے اس فلم کے بارے میں لکھا: "مسلمانوں سے برائت” ایک سیاسی فلم ہے چنانچہ اس کو سیاسی نہیں کہا جاسکتا اور اس میں اسلام کو سرطان کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔
سام باسیل کون ہے؟
یہ شخص امریکہ کا امریکی ـ اسرائیلی شہری ہے۔ وہ پراپرٹی ڈیلر اور بلڈنگ کمپنی کا ڈائریکٹر ہے جو جنوبی کیلفورنیا کا رہائشی اور اسلام کا قسم خوردہ دشمن (Sworn enemy) ہے۔ اس شخص کا نام تلاش کریں تو اس کی کوئی تصویر نہیں ملے گی لیکن اس کے باوجود وہ ایک واقعی شناخت رکھتا ہے جس کی عمر 52 سے 56 سال کے درمیان ہے۔ یعنی کہ "سام باسیل” ایک جعلی نام یا عرف نہیں ہے۔
باسیل نے کل (منگل 11 ستمبر 2012 کو) صہیونی روزنامے "ہاآرتص” اور امریکی روزنامے "وال اسٹریٹ جرنل” کو انٹرویو دیا جس کے بعد وہ ل
اپتہ ہوگیا اور اب وہ اپنے آقاؤں کی پناہ میں کہیں چھپا ہوا لیکن اس کا خفیہ ٹھکانہ کسی کو معلوم نہيں ہے۔
اس نے کل وال اسٹریٹ جرنل سے کہا: میں نے اس فلم کے لئے ایک صہیونی شخص سے پچاس لاکھ ڈالر چندے کے عنوان سے لئے ہیں۔ اس فلم میں 59 اداکاروں نے کام کیا ہے جبکہ پس منظر میں 45 افراد کی ایک ٹیم نے تین مہینوں تک کام کیا اور فلم گذشتہ برس کے وسط میں جنوبی کیلفورنیا میں مکمل ہوئی۔
ان اخراجات کے باوجود فلم کا معیار بہت نچلی سطح کا ہے اور اس کی سجاوٹ اور اسٹیج ڈیزائننگ بہت معمولی جبکہ اس کے مناظر بہت ہی غیرماہرانہ اور ہیں۔
اس فلم کےحامی لوگ
امریکہ میں پناہ گزین قبطیوں کا گروہ:
ڈاکٹر عصمت زقلمہ مصر کے قبطی عیسائیوں میں سے ہے جو امریکہ میں پناہ گزین کی حیثیت سے رہائش پذير ہے۔ اس شخص نے گذشتہ سال دعوی کیا کہ قبطی عیسائیوں پر مصر میں مظالم ڈھائے جارہے ہیں اور انہیں قتل کیا جارہا ہے چنانچہ اس نے وہاں "جلاوطن قبطی حکومت” کے قیام کا اعلان کیا اور اپنے آپ کو اس کا صدر قرار دیا۔ اس خودخواندہ حکومت کے دوسرے اراکین میں "مشیر موریس صادق” بعنوان انتظامی ایڈمنسٹریٹر اور انجنئیر نبیل بسادہ بحیثیت سیکریٹری جنرل ، اور انجنئیر ایلیا باسیلی، بحیثیت بین الاقوامی کوآرڈی نیٹر شامل ہیں؛ تا ہم مصر میں سکونت پذیر قبطی عمائدین کا کہنا ہے کہ زقلمہ اور موریس ان کے نمائندے نہيں ہیں اور وہ امریکہ میں جلاوطن قبطی حکومت کو تسلیم نہيں کرتے۔
ٹیری جونز Terry Jones
یہ فلوریڈا ریاست میں گینسویل (Gainesville) کے علاقے میں ایک چھوٹے سے گرجاگھر کا پادری ہے جہاں اتوار کے روز 20 سے 50 تک افراد حاضر ہوتے ہيں اور نفسیاتی امراض میں مبتلا یہ شخص ان کے ہفتہ وار گناہ بخشواتا ہے چنانچہ عیسائیوں کے درمیان اس کی کوئی حیثیت نہيں ہے۔ اس شخص نے 2001 کے مشکوک اور متنازعہ واقعات کے بعد سے اپنی بیوی سلویا (Sylvia) کے ہمراہ عالم اسلام کے خلاف اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا یہاں تک کہ امریکہ میں طنزیہ انداز میں کہا جاتا ہے کہ "یہ میاں بیوی سمجھتے ہیں کہ گویا وہ اسلام کے خلاف لڑنے کے لئے خدا کے نمائندے ہیں”۔ اس شخص نے سنہ 2009 میں 11 ستمبر کی برسی کے موقع پر قرآن سوزی کی رسم منعقد کرنے کا مطالبہ کیا اور آخر کار بے انتہا تشہیری و ابلاغی تنازعات اور دنیا بھر میں بدنامی کمانے کے بعد 20 مارچ 2011 کو آخر کار اس نے اس بھونڈے عمل کا ارتکاب کیا۔ اس کے ان سفیہانہ اقدامات کا خمیازہ دنیا بھر میں امریکی سفارتکاروں اور اقوام متحدہ کے کارکنون کو بھگتنا پڑا اور صرف افغانستان کے شہر مزار شریف میں اقوام متحدہ کے کم از کم 12 کارکن مارے گئے۔ ٹیری جونز اور اس کے اقدامات کو عیسائی دنیا کے پیشواؤں نے بھی مسترد کردیا ہے اور ویٹیکن کی طرف سے اس کی باضابطہ مذمت کے علاوہ مختلف عیسائی روحانی شخصیات نے بھی اس کے اقدامات کی نفی کی ہے۔ ٹیری جونز اور اس کے آقاؤں اور ساتھیوں کی اس حماقت کی وجہ سے ایک امریکی سفیر کی ہلاکت کا حادثہ رونما ہو جبکہ آنے والے دنوں میں مسلمانوں کی طرف سے مزید احتجاجی اقدامات کا اعلان ہوچکا ہے۔