مضامین

بے حرمتیوں کا یہ سلسلہ کب تلک؟

amrica harmiگذشتہ کئی سالوں اور عشروں کے تجربے نے واضح اور یقینی طور پر ثابت کر دیا ہے کہ اقوام متحدہ کا عدالتی ڈھانچہ، انسانی حقوق سے متعلق اسکے ذیلی اداروں کی تشکیل، بین الاقوامی کریمینل عدالتوں کا قیام اور حتی بین الاقوامی کریمینل ٹرائبیونل صرف اور صرف مغربی طاقتوں کے تسلط اور اثرورسوخ کو مزید پھیلاو دینے کیلئے قائم کئے گئے ہیں۔ لہذا انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ جرائم، جنگ، خونریزی اور قتل و غارت کا ایک سلسلہ معرض وجود میں آ جانے کی صورت میں مجرم اور قاتل افراد کا عدالتی تحفظ ایک طے شدہ بات جانی جاتی ہے۔ اسی طرح اگر امن اور انسانی حقوق کی دعویدار قوتیں دنیا میں بسنے والے کئی ارب توحید پرست اور دیندار افراد کے اصولوں، اعتقادات اور مذہبی مقدسات کی بے حرمتی اور توہین کریں تو انکے خلاف عدالتی کاروائی اور اس سنگین جرم پر انہیں سزا ملنے کا دور دور تک کوئی امکان بھی نظر نہیں آتا۔

گذشتہ چند سالوں کے دوران بعض انتہائی پست اور عاجز اسلام دشمن عناصر کی جانب سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قرآن کریم کے نورانی چہرے کی بے حرمتی کا سلسلہ بڑھتا ہی جا رہا ہے جبکہ اکثر مغربی ممالک میں صرف ہولوکاسٹ کے خلاف بات کرنے یا اس کو تنقید کا نشانہ بنانے کو ہی جرم جانا جاتا ہے۔ لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانان عالم کو چاہئے کہ وہ امریکہ اور صہیونیستوں کی اسلام کے خلاف آشکار اور ڈھکی چھپی سازشوں کے خلاف احتجاج، مظاہروں اور انکی مذمت کرنے پر ہی اکتفا نہ کریں۔

مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ کوئی عملی قدم اٹھائیں۔ جیسا کہ قائد انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے تازہ ترین پیغام میں فرمایا ہے:
"اگر اس پلید سلسلے کی گذشتہ کڑیوں یعنی سلمان رشدی اور ڈنمارک کے ملعون کارٹونسٹ اور قرآن کریم کی بے حرمتی کرنے والے امریکی کشیش کی حمایت نہ کی جاتی تو آج اس عظیم اور ناقابل معافی گناہ کی نوبت نہ آتی”۔

جو نکتہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے وہ یہ کہ ولی امر مسلمین جہان آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی کے نفرت انگیز اقدام کے خلاف اپنے پیغام میں اس بات پر خاص تاکید کی ہے کہ اس غیرانسانی جرم کے مرتکبین کے ساتھ ساتھ انکی مالی امداد کرنے والے افراد اور قوتوں کو بھی کڑی سزا ملنی چاہئے۔ لہذا سزا کا دائرہ سلمان رشدی، کورٹ وسٹرگارڈ (ملعون ڈنمارکی کارٹونسٹ)، ٹیری جونز (ملعون امریکی کشیش) اور سام باسل (پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی پر مبنی تازہ ترین امریکی فلم کا ڈائریکٹر) تک محدود نہیں رہنا چاہئے۔

دوسری جانب اسلام دشمن عناصر کی جانب سے اسلامی مقدسات کی توہین اور بے حرمتی کے مقابلے میں اسلامی ممالک کی غفلت اور عملی اقدام نہ کرنے کا سلسلہ اس حد تک جا پہنچا ہے کہ ان ملعون افراد کی حامی بدبخت مغربی قوتوں نے انسانی حقوق کے بہانے ان غیرانسانی حرکتوں کے مرتکب افراد کو قانونی تحفظ حاصل ہونے کے اعلانیہ اور کھلم کھلے دعوے کرنا بھی شروع کر دیئے ہیں۔ تقریبا تین ہفتے قبل ہی فرانس نیوز ایجنسی سمیت مغربی میڈیا نے افغانستان میں قرآن کریم کو نذر آتش کرنے کے ذریعے اسکی بے حرمتی کا ارتکاب کرنے والے چھ امریکی فوجیوں اور تین امریکی میرینز کو عدالتی تحفظ فراہم ہونے کی خبر شائع کی ہے۔

انسانی حقوق کی دعویدار اور مخالف نظریات و اعتقادات کو برداشت کرنے کے جھوٹے دعوے کرنے والی جدید مغربی دنیا کے اس منحوس اور نفرت آمیز رویے کی بنیاد اس ان لکھے قانون پر استوار ہے کہ الہی ادیان خاص طور پر اسلام کی توہین اور بے حرمتی کرنے والے ملعون افراد اور اسلامی سرزمینوں اور مظلوم مسلمانوں کو جارحیت اور مجرمانہ اقدامات کا نشانہ بنانے والی استکباری قوتیں کسی سزا کی مستحق نہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ادیان الہی اور اسلامی مقدسات کی توہین اور بے حرمتی کے عمل کی حمایت اور تشویق کرنے والے عناصر انہیں بین الاقوامی تسلط پسند قوتوں سے منسلک ہیں جو واضح طور پر مسلم ممالک میں ظالمانہ اور مجرمانہ کاروائیاں کرنے میں مشغول ہیں اور مسلمانوں کی نسل کشی کر رہے ہیں اور ہر دہشت گردانہ اقدام انجام دینے کے بعد عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی خاطر فورا ہی انسانی حقوق کے نعرے بلند کرنے لگتے ہیں جنہیں انکے منہ سے سن کر انسان کو گھن آتی ہے۔

لیکن اسلام کے چہرے کو مخدوش کرنے کی کوشش اور اسلام فوبیا کے منصوبے پر عمل پیرا ہونے میں امریکی صہیونیستی قوتوں کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ انتہائی ناقص اور احمقانہ منصوبہ بندی کے علاوہ خطے میں جنم لینے والی اسلامی بیداری کی تحریکوں کو یکسر نظرانداز کرتی آئی ہیں۔ دوسری طرف عالمی رائے عامہ کی نظر میں یہ حقیقت روز بروز واضح ہوتی جا رہی ہے کہ انکی جانب سے انسانی حقوق کی ہمدردی اور علمبرداری صرف اور صرف ظاہری اور میڈیا کی حد تک ہے۔ اسکے علاوہ بین الاقوامی عدالتوں کے اعتبار کو بھی شدید دھچکا پہنچا ہے۔

بین الاقوامی عدالتوں کے بے اعتبار ہو جانے کی چند ایک مثالیں قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:
1. انٹرنیشنل کریمینل کورٹ جس کے پاس جنگی جرائم، نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم اور جارحیت جیس
ے اقدامات کے بارے میں مقدمات سے نمٹنے کے اختیارات موجود ہیں نے غزہ پر اسرائیل کی 33 روزہ جارحیت کے دوران ثابت کر دیا کہ وہ مکمل طور پر مغربی طاقتوں کے زیر اثر ہے اور اس عدالت نے غزہ میں بچوں اور خواتین کا قتل عام کرنے والے اسرائیلی حکام کے خلاف ایک چھوٹا سا اقدام کرنے سے بھی گریز کیا۔

2. اقوام متحدہ کی تحقیقاتی کمیٹی نے 31 مئی 2010ء میں غزہ کی جانب روانہ ہونے والے کاروان آزادی بیڑے پر فوجی حملے اور اسکے نتیجے میں دسیوں نہتے افراد کے قتل کے کیس میں اسرائیل کو تمام الزامات سے بری کر دیا اور عملی طور پر اسرائیل کے مجرم حکام کو سزایافتہ ہونے کی راہ میں رکاوٹیں ایجاد کر دیں۔

3. انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ برما میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کی قتل و غارت اور نسل کشی کے خلاف بھی کسی بین الاقوامی عدالتی ادارے میں آواز اٹھتی سنائی نہیں دی اور کسی بین الاقوامی ادارے نے نہتے مسلمانوں کا قتل عام کرنے والے ذمہ دار عناصر کے خلاف عدالتی کاروائی کی بات تک نہیں کی۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ نام نہاد انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں کی جانب سے ہمیشہ اسلامی ممالک بالخصوص ایران کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

4. عراق اور افغانستان پر امریکہ کی لشکرکشی اور بے شمار بیگناہ خواتین اور بچوں کا قتل عام بھی انہیں موارد میں سے ایک ہے جسکا ارتکاب کرنے والے افراد کو ابھی تک کھلی چھٹی حاصل ہے اور کسی بین الاقوامی عدالتی ادارے نے ان اسلامی ممالک میں انجام پانے والے جنگی جرائم کا کوئی نوٹس نہیں لیا ہے۔ اسی طرح ہم پاکستان میں امریکی اور اسکے متحد ممالک کی جانب سے ڈرون حملوں اور فوجی اقدامات کے نتیجے میں بیگناہ مسلمانوں کی شہادت کے شاہد ہیں۔ لیکن اس قتل عام میں ملوث قاتلین کبھی بھی اپنی سزائے اعمال کو نہیں پہنچے ہیں۔ ان سب کے باوجود وہ چیز جو انسان کیلئے انتہائی تعجب اور حیرت کا باعث ہے امریکہ کی جانب سے شدید بے حیائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 12 سال قبل اپنی ہی منصوبہ بندی کے تحت انجام دیئے جانے والے نائن الیون حادثے کے بہانے مسلمانوں پر دہشت گرد ہونے کا الزام لگانا ہے۔

لہذا یہ ایک طے شدہ اور یقینی امر ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے اسلام کی طاقت کا مقابلہ کرنے کیلئے اسلامی ممالک اور مسلمانان عالم کے خلاف جارحانہ اقدامات اور ظلم و ستم کے ساتھ ساتھ اسلامی مقدسات کی توہین اور بے حرمتی کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔ البتہ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ شکست مغربی اور عبری فرنٹ کا مقدر بن چکی ہے اور خود مغربی مفکرین اور تجزیہ نگار اس شکست کا اعتراف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

مثال کے طور پر رابرٹ فسک پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی پر مبنی تازہ ترین امریکی فلم کے اعتراض میں دنیا بھر میں مسلمانان عالم اور خداپرست انسانوں کی جانب سے شدید اعتراض کے بارے میں انڈیپنڈنٹ میں شائع ہونے والے اپنے ایک مقالے میں لکھتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے افراد کو یہ جان لینا چاہئے کہ مشرق وسطی میں سیاست دین سے جڑی ہوئی نہیں بلکہ سیاست اور دین ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ رابرٹ فسک اسی طرح یہ وضاحت کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ مذہبی مقدسات کی بے حرمتی پر ردعمل صرف مسلمانوں کی جانب سے ہی سامنے نہیں آیا بلکہ عیسائی بھی ان توہین آمیز اقدامات پر بے طرفی کا شکار نہیں ہیں۔

انتہائی اہم اور بنیادی نکتہ یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے اپنائی جانے والی جارحانہ اور بے شرمانہ پالیسیوں کے خلاف مسلمانوں میں پائے جانے والی اس عظیم نفرت، احتجاج اور اعتراض کی صحیح طور پر بہرہ برداری کرتے ہوئے اسلامی مقدسات کی بے حرمتی میں ملوث افراد کے خلاف ایک موثر اور عالمی سطح پر لائحہ عمل معرض وجود میں لانا چاہئے۔

اس مقصد کے حصول کیلئے دو بنیادی اقدام انجام دینا ضروری ہیں۔ اول یہ کہ اسلامی مقدسات کی بے حرمتی کرنے والے افراد اور انکے پس پردہ عناصر عالمی رائے عامہ کی نظر میں قابل مذمت قرار پائیں اور دوم یہ کہ ان افراد اور عناصر کے خلاف باقاعدہ عدالتی کاروائی عمل میں لانے کیلئے ٹھوس عملی اقدامات انجام پانے چاہئیں۔ یہ کام صرف ایک صورت میں ممکن ہے اور وہ یہ کہ بین الاقوامی سطح پر ایک آزاد اور خودمختار عدالت کا قیام عمل میں لایا جائے۔ کیونکہ این بین الاقوامی جیوڈیشنری مرکز کی جانب سے جاری ہونے والا عدالتی حکم نہ صرف عالمی رائے عامہ پر مثبت اثر ڈالتا ہے بلکہ جرم کے پس پردہ عوامل کا بھی دنیا والوں پر آشکار ہونے کا باعث بنتا ہے اور اس طرح بین الاقوامی سطح پر عدالت و انصاف کو فروغ دے کر دینی مقدسات کی توہین اور بے حرمتی کے سلسلے کے متوقف ہونے کا بھی باعث بنتا ہے۔

مسلم اقوام اور ممالک میں اسلامی بیداری کی فضا ایجاد ہونے کے پیش نظر اور ایسے وقت جب ایران کی سربراہی میں دنیا کے دو تہائی ممالک نام تحریک کی شکل میں متحد اور فعال ہو چکے ہیں اس بات کی کوشش کی جانی چاہئے کہ عالمی سطح پر اسلامی مقدسات کی توہین کے خلاف ظاہر ہونے والے اعتراض اور احتجاج سے مناسب فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک ایسی بین الاقوامی عدالت کے قیام کا زمینہ فراہم کیا جائے جو مغربی طاقتوں اور عالمی صہیونیستی لابی کے زیر اثر نہ ہو۔ صرف اسی صورت میں عدالت کی تلوار اسلامی مقدسات کے اس سلسلے کا مکمل خاتمہ کر سکتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button