مضامین

پاسداران ناموس رسالت (ص) موت سے نہیں ڈرتے

amrican caounsalateوہ مسلسل روتا رہا، میں نے وجہ جاننے کی کوشش کی لیکن کچھ بتا نہیں پایا، میں نے سوچا کہ اس کے گھر پر جاکے اسے تسلی دوں۔ وہ میرا دوست تھا کہ جس کا نام منتظر تھا، جب میں اس کے گھر پہ گیا اس سے ملاقات ہوئی تو اس وقت اس کی آنکھیں سرخ تھیں، وہ مجھے اپنے کمرے میں لے گیا اور کمپیوٹر آن کیا، میرے بات شروع کرنے سے قبل اس کے آنسوؤں کے گہر پلکوں کے باڑ توڑ کر گرنے لگے، وجہ پوچھنے سے قبل ہی ہچکیاں لینا شروع کی۔ میں نے کہا میرے عزیز کیا بات ہے خیریت سے تو ہو ؟ اس نے کہا خیریت ہی تو نہیں ہے۔ میرے مزید کچھ پوچھنے سے قبل اس نے کہا کہ میں نے اسی لیے آپ کو کال کی تھی، میں جذبات کے سبب بے قابو ہو رہا تھا لیکن آپ کو کچھ کہہ نہیں سکا، یہ کہہ کر منتظر نے آنسوؤں کو پونچھ لیا ایک سرد آہ کھینچی اور مجھے کہا یہ دیکھو کہ کس وجہ سے میں رونے پر مجبور ہوا۔ میں نے غور کیا تو وہ ایک تصویر تھی غالباً کراچی میں امریکی قونصل خانے پر مجلس وحدت المسلمین اور آئی ایس او پاکستان کے احتجاج کی۔

تصویر پر غور کیا تو اس تصویر میں چند نوجوان تھے اور آئی ایس او پاکستان کا پرچم اسی دیوار پر آویزاںتھا۔ میں نے مسکرا کے کہا ارے اس میں رونے والی کیا بات ہے؟ اس نے کہا بھائی آپ آنکھیں کھول کے دیکھیں نا! میں نے دوبارہ دقت کی تو کوئی خاص بات سمجھ نہیں آئی جسے دیکھ کے رونے کو دل کرے۔ اس نے مجھے کہا اب سنو اس جوان کو آپ دیکھ رہے ہو جو امریکی قونصلیٹ جانے کے دوسری جانب جہاں آئی ایس او پاکستان کے جوانوں نے اپنا پرچم نصب کیا ہے، اس کے ساتھ کھڑا ہے۔ میں نے کہا جی ہاں، اس نے کہا معلوم ہے آپ کو یہ کیا کر رہا ہے؟ تصویر دھندلی تھی۔ غور کرکے بتایا کہ وال چاکنگ۔ اس نے کہا ہاں وہ زخمی جوان ہے جو امریکی قونصل خانے پر حملہ کرتے ہوئے زخمی ہوا ہے۔ اس کے جسم کے مختلف حصوں سے خون جاری ہے۔ چوٹ، پتھر، فائرنگ ، شیلنگ اور ظالم پولیس کے ڈھنڈوں سے زخمی ضرور ہوا لیکن ہمت نہیں ہاری اور پرچم باطل کو اتار کر نذر آتش کیا۔

یہاں تک بات رونے کی نہیں تھی لیکن جب اس نے اپنے زخمی ہاتھ سے جس سے خون ٹپک رہا ہے۔ امریکی قونصل خانے کی دیوار پر لبیک یارسول اللہ (ص) لکھا۔ یہ منظر مجھ سے برداشت نہیں ہوا۔ میرے نبی (ص) کے عاشقوں کو دیکھ لو۔ علی رضا تقوی ناموس رسالت (ص ) کی حفاظت کے لیے جان دے ہمیشہ کے لیے سرخرو ہو بیٹھے۔ کراچی میں اور کتنے اب بھی زخمی ہیں۔ سلام ہو ان عاشقان رسول (ص) پر جو اپنی جان کی پروا کیے بنا فرعون عصر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے نمک خواروں سے الجھ بیٹھے۔ ان کے نمک خواروں نے نمک حلالی کرتے ہوئے رسول (ص) کے عاشقوں کا خون بہانے اور ان کو قتل کرنے میں ذرا بھی شرم محسوس نہیں کی۔

خون سے تحریر شدہ لبیک یا رسول اللہ ص دیکھ کر خدا شاہد ہے میرے جذبات بھی بھڑک اٹھے اور میں نے نبی (ص) پر درود بھیجا۔ منتظر کے سامنے میں جذبات کو قابو میں رکھنے میں کامیاب تو ہوا لیکن گھر لوٹ کے مجھے چین نہیں ملا۔ مجھے بھی منتظر کی طرح دل کھول کر رونا آیا۔ میں اپنے کریم نبی (ص) سے مخاطب ہوا اور التجا کی کہ اے میرے آقا و مولا ہزار جان آپ پہ قربان ہوں، میں شرمندہ ہوں، میں احساس ندامت میں جل کر خاکستر ہو رہا ہوں۔ اے شفیع روز جزا! میں اس لائق بھی نہیں ہوں کہ آپ (ص) کا پاک نام لوں کیونکہ آپ کے ازلی دشمن یہود نے آپ (ص) کی شان میں گستاخی کی اور میں کچھ نہیں کر سکا اور تو اور میرے معاملات زندگی میں خلل تک نہیں آیا۔

اگر آپ کی گستاخی کے خلاف گریبان چاک کرکے، سر پر مٹی ڈال کے ننگے پاؤں، شہر شہر، گلی گلی دیوانوں کی طرح امریکہ مردہ باد، اسرائیل مردہ باد کے نعرے بلند کرتے ہوئے، لبیک یا رسول اللہ ص کہتے ہوئے، سر پہ مٹی ڈالتے ہوئے، نوحہ خوانی کرتے، سینہ زنی کرتے، چیختے اور روتے پھرتے جہاں بھی امریکہ پلید کے مفادات دیکھتا وہاں دھاوا بول دیتا تو شاید میں اپنے آپ کو عاشق رسول (ص) کی صف میں پاتا لیکن ایسا نہیں ہوا میرے آقا مجھے معاف کرنا تیری ذات رحم و بخشش کا سمندر ہے۔

میرے حضور (ص) کی ذات اقدس پر یہ پہلا حملہ نہیں بلکہ آپ کی حیات طیبہ میں بھی کفار تو کفار آسمانی کتاب کے دعویداروں نے بھی کوئی کمی نہیں رکھی۔ محققین نے اس ضمن میں یہ بھی کہا ہے کہ حضور (ص) کی ذات اقدس کو سب سے زیادہ خطرہ یہود سے ہی تھا۔ کفار مکہ تو آپ کے جانی دشمن تھے ہی لیکن یہودیوں کو اپنے شیطانی علم کے علاوہ اپنی کتابوں سے حضور (ص) کے آخری نبی ہونے کی تصدیق ہوئی تھی اور یہ بات مسلم تھی کہ آپ (ص ) کے ظہور کے بعد دیگر تمام ادیان اور کتابیں منسوخ ہونگے جو کہ اہل کتاب کے لیے کسی صورت قابل برداشت نہیں تھی۔

چنانچہ یہود کے بچپن میں ہی آپ (ص) کو شہید کرنے کی کوششوں کے سراغ ملتے ہیں۔ نوجوانی میں پاسدار نبوت حضرت ابوطالب (ع) نے آپ کی جس انداز میں حفاظت کی وہ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں۔ جب حضرت ابوطالب (ع) آپ (ص) کو اپنے ساتھ شام کی طرف تجارت میں لے گئے تو راستے میں عیسائی عالم دین نے آپ (ص) کے اندر نبی کی صفات پاکر کہا کہ ان کی حفاظت کرنا یہود ان کے جان لینے کے درپے ہیں۔ پاسدار رسالت ابوطالب ع  نے آپ کی حفاظت کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جب آپ (ص) نے اعلان نبوت کیا تو کفار نے حضرت ابوطالب ع کے گرد جمع ہوکر سمجھانے کی کوشش کی لیکن حضرت ابوطالب ع نے اع
لان کردیا کہ میں دنیا کہ تمام تر سختیاں جھیلنے کو تیار ہوں لیکن محمد (ص) جو کہ مجھے اپنے جان سے زیادہ عزیز ہے کو کوئی تکلیف نہیں ہونے دوں گا۔

شعب ابی طالب ع میں میرے نبی ص جب محصور ہوئے تو ابوطالب ع کا خانوادہ تھا جو آپ کی حفاظت پر مامور تھا۔ شعب صابی طالب ع میں ایک کربلا برپا تھی۔ میرے نظروں سے ایک کتاب گذری تھی جس میں شعب ابی طالب ع میں میرے نبی ص اور ابوطالب ع کے خانوادہ کے ساتھ جو ہوا درج تھا۔ بعض اوقات انہیں درختوں کے پتے بھی کھانے پڑے اور بعض اوقات پانی ناپید ہوگیا تو درختوں کی جڑ چوستے، زمین کھود کر میرے رسول (ص) گیلی مٹی پہ اپنا سینہ رکھتے تاکہ گرمی کی شدت میں کمی محسوس ہو۔ یہ تمام مشکلات جو رسول پاک ص کے خلاف کھڑی کی گئیں ان کے پیدا کرنے والوں میں یہودی سر فہرست تھے۔

اُس وقت بھی ابوطالب ٰ اور ان کے بیٹے حفاظت ناموس رسالت ص کے لیے جان کو ہتھیلی پہ رکھ کر زندگی گزارتے تھے۔ خواہ وہ ہجرت کی شب ہو، احد ہو یا کہ بدر و حنین اور اِس وقت بھی ابوطالب ع کے بیٹے حیدر کرار ع کے نام لیوا موت کی پروا کئے بغیر حرمت رسول (ص) کی خاطر جان کی بازی لگانے کے لیے مستعد و آمادہ ہیں، خواہ کراچی میں امریکی قونصل خانہ پہ حملہ ہو یا لاہور میں امریکی قونصل خانہ کا گھیراؤ۔ حیدر کرار ع کے ماننے والوں نے ثابت کیا ہے کہ ناموس رسالت ص کے دفاع کے لئے وہ ہمیشہ میدان عمل میں موجود رہیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button