مضامین

شہید خطیب آل محمد (ع) علامہ آفتاب حیدر جعفری کی یادیں

agha2عفریہ الائنس کے سابقہ رہنما اور ممتاز ذاکر اہلبیت علیھم السلام علامہ آفتاب حیدر جعفری کو آج صبح صدر میں پارکنگ پلازہ کے قریب لشکر یزید نے انکے ساتھی شاہد علی سمیت شہید کر دیا۔ خطیب آل محمد علامہ آفتاب حیدر جعفری کا تعلق کراچی سے تھا۔ ملت جعفریہ کے حقوق کے لئے ہر محاذ پر آپ پیش پیش تھے۔ شہید علامہ آفتاب حیدر جعفری کو دفتر جاتے ہوئے صدر کے علاقے میں ان کے ساتھی شاہد علی سمیت شہید کیا گیا ہے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے تحت وفاقی دارالحکومت میں منعقدہ آل پاکستان شیعہ پارٹیز کانفرنس کے موقع پر اسلام ٹائمز کو  علامہ آفتاب حیدر جعفری شہید کا ایک تفصیلی انٹرویو کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس گفتگو کا عنوان ملک بھر میں جاری شیعہ نسل کشی اور حالات حاضرہ کے حوالے سے تھا۔ شہید نام و نمود کے طلب گار نہ تھے۔ جب اسلام ٹائمز نے چند تعارفی کلمات کے لئے علامہ آفتاب حیدر جعفری سے تقاضا کیا تو شہید نے کاغذ پر فقط ”خطیب آل محمد (ع)” لکھا۔
شہید کی شدید خواہش تھی کہ ایسے عالم میں جہاں ہر طرف ایک انتشار کی سی کیفیت ہے، ملت کے لئے کوئی ایسا پلیٹ فارم ہو، جہاں گلگت، بلتستان، کوئٹہ اور دیگر جگہوں پر ہونے والے سانحات پر گفتگو کی جائے, تاکہ ان مسائل کے حوالے سے مل جل کر کوئی راستہ نکالا جاسکے۔ شہید کا موقف تھا کہ جو شیعہ کاز کو سمجھتے ہیں اور اس کا درد رکھتے ہیں، انہیں آگے آنا چاہیے اور ملت کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔

شہید علامہ آفتاب حیدر جعفری چاہتے تھے کہ شیعہ ووٹ دیکھ پرکھ کے اُس اُمیدوار کو دیں گے جو تشیع کے اجتماعی مفاد سے ہمدردی رکھتا ہوگا اور ہمارے مسائل پر بول سکتا ہو، ہماری آواز اربابِ اختیار تک مؤثر اور نتیجہ خیز طریقے سے پہنچائے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بات ملت جعفریہ کے لئے سمجھنا ضروری ہے اور آقا مولا علی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ دشمن سے جنگ لڑنا اتنا اہم نہیں ہوتا، جتنا اس کی سازش سے باخبر ہونا۔ گستاخانہ فلم بارے سوال پر شہید کا کہنا تھا کہ یہ دانستہ طور پر غلطی کی گئی ہے، جبکہ ماضی میں جب خاکے بنائے گئے تو اس وقت بھی پوری دنیا کے مسلمانوں کا جذبہ دیکھنے کے قابل تھا۔ لیکن اس وقت پاکستان میں جو صورت حال قتل و غارت اور بم دھماکوں اور بحرین کے واقعات کے حوالے سے ہے اور جو کچھ عرب ممالک میں تختے الٹے گئے تو یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے کہ آیا مسلمانوں میں کچھ غیرت اور حمیت ہے۔ کیا یہ کفر کے مقابل اٹھنے کی ہمت رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ الحمداللہ دنیا کے بہت سے ممالک کے مسلمانوں نے ثابت کر دیا کہ سب باتیں برداشت ہوسکتی ہیں، لیکن جب بات شعائر اللہ اور حرمت رسول (ص) اور دین اسلام پر آجائے گی تو لوگ ہورے جوش و جذبے سے، کسی بھی انجام کی پروا کئے بغیر نکل آئے۔ انہوں نے سفارتخانوں کو آگ بھی لگائی، پاکستان کے اندر بھی ایم ڈبلیو ایم کے زیراہتمام مظاہرہ ہوا۔ شہید کا کہنا تھا کہ لال مسجد کے قریب سے جب ایم ڈبلیو ایم کے افراد گزر رہے تھے تو انہوں نے جب دیکھا کہ معاملہ حرمت رسول (ص) کا ہے تو لال مسجد والے بھی اس مظاہرے میں شریک ہوگئے۔ جو اس بات کی علامت ہے کہ وہ سمجھ رہے تھے کہ یہ مظاہرہ کرنے والے کافر نہیں ہیں، یہ مسلمان ہیں، لہذا وہ مظاہرے میں شامل ہوئے۔ چنانچہ وقت بدل رہا ہے۔ مسلمان باشعور ہوتے جا رہے ہیں اور انشاءاللہ وہ وقت آئے گا کہ پوری دنیا کے مسلمان، تمام عالم اسلام اپنے مشترکہ دشمن کا پہچان لے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button