مضامین

کربلا ایک لازوال تحریک

karbala history 22امام حسین علیہ السلام کی عظیم ہستی اور لازوال تحریک کے بارے میں انسان جتنا بھی سوچتا ہے، غور و فکر اور تحقیق و مطالعہ کا میدان اتنا ہی وسیع و عریض نظر آتا ہے۔ اس عظیم و تعجب خیز واقعے کے بارے میں اب بھی بہت سی باتیں ہیں کہ جن پر ہمیں غور کرنا چاہئے اور اس پر بات کرنی چاہئے۔ اگر باریک بینی سے اس واقعے پر نظر ڈالیں تو شاید یہ کہا جاسکے کہ انسان امام حسین علیہ السلام کی چند مہینوں پر محیط تحریک سے، جس کی شروعات مدینے سے مکہ کی سمت سفر سے ہوئی اور اختتام کربلا میں جام شہادت نوش کرنے پر ہوا، ہزاروں درس حاصل کرسکتا ہے۔
اگر ہم امام حسین علیہ السلام کے کاموں کو باریک بینی سے دیکھیں تو اس سے سو باب اور سو عنوان نکل سکتے ہیں، جن میں سے ہر عنوان اور ہر باب ایک قوم ، ایک تاریخ اور ایک ملک کے لئے، نظام چلانے اور خدا کی قربت کے حصول کا باعث بن سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ حسین ابن علی (ع) مقدس ہستیوں کے درمیان سورج کی طرح چمک رہے ہیں۔ انبیاء، اولیاء، آئمہ، شہداء اور صالحین پر نظر ڈالیں! اگر وہ لوگ چاند و ستاروں کی مانند ہیں تو امام حسین (ع) ان کے بیچ سورج کی طرح چمک رہے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کی تحریک میں ایک اہم و اصلی سبق یہ ہے کہ امام حسین (ع) نے قیام کیوں کیا۔؟ امام حسین علیہ السلام سے کہا گیا: مدینہ اور مکہ میں آپ کی بہت عزت کی جاتی ہے اور یمن میں شیعوں کی بڑی تعداد ہے، کسی ایسی جگہ چلے جائیں، جہاں آپ یزید سے کوئی مطلب نہ رکھیں، اور یزید بھی آپ سے کوئی مطلب نہ رکھے۔ آپ کے اتنے مرید و شیعہ ہیں، جائیں آرام دہ زندگی گزاریں، عبادت کریں، تبلیغ کریں!

آپ نے قیام کیوں کیا؟ معاملہ کیا ہے؟ کچھ لوگ یہ کہنا پسند کرتے ہیں کہ امام (ع) یزید کی فاسد و بدعنوان حکومت کو گرا کر خود ایک حکومت بنانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ یہ امام حسین علیہ السلام کے قیام کا ہدف تھا۔ یہ بات، آدھی صحیح ہے۔ اگر اس بات کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے حکومت کی تشکیل کے لئے قیام کیا تو جو حکومت کی تشکیل کی غرض سے آگے بڑھتا ہے، وہ وہیں تک جاتا ہے، جہاں وہ یہ سمجھتا ہے کہ کام ہو جانے والا ہے۔ جیسے ہی اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کام کی انجام دہی کا امکان نہیں ہے تو اس کا فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ واپس لوٹ جائے، اگر ہدف حکومت کی تشکیل ہو تو وہاں تک انسان کے لئے آگے بڑھنا جائز ہے اور جہاں سے آگے بڑھنا ممکن نہ ہو، وہیں سے واپس لوٹ جانا چاہئے۔ اب جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ امام (ع) کے قیام کا مقصد حق پر مبنی اسلامی حکومت کا قیام تھا، اگر ان کی مراد یہ ہے تو یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ امام حسین علیہ السلام کی پوری تحریک میں یہ چیز دکھائی نہیں دیتی۔

دوسری طرف کہا جاتا ہے کہ نہیں جناب، حکومت کیا ہے، امام کو علم تھا کہ وہ حکومت کی تشکیل میں کامیاب نہیں ہوں گے، بلکہ وہ تو قتل اور شہید ہونے کے لئے آئے تھے! یہ بات کہ امام (ع) نے شہید ہونے کے لئے قیام کیا، کوئی نئی بات نہیں ہے۔ انہوں نے سوچا کہ اب رک کر کچھ نہیں کیا جا سکتا تو چلو شہید ہو کر ہی کچھ کر دیا جائے! یہ بات بھی ہماری اسلامی کتب و مدارک میں نہیں ہے کہ جاؤ خود کو موت کے منہ میں ڈال دو۔ ہماری یہاں ایسا کچھ نہیں ہے۔ مقدس شریعت میں ہم جس قسم کی شہادت سے آشنا ہیں اور جس کی نشاندہی قرآن مجید اور روایتوں میں کی گئی ہے، اس کا معنی یہ ہے کہ انسان کسی واجب یا اہم مقصد کے لئے نکلے اور اس راہ میں موت کے لئے بھی تیار رہے۔ یہ وہی صحیح اسلامی شہادت ہے، لیکن یہ صورت کہ آدمی نکل پڑے تاکہ مارا جائے اور شاعرانہ لفظوں میں اس کا خون رنگ لائے اور اس کے چھیٹے قاتل کے دامن پر پڑیں تو یہ ایسی باتیں نہیں ہیں، جن کا تعلق اس عظیم واقعے سے ہے۔ اس میں بھی کچھ حقائق ہیں، لیکن امام حسین علیہ السلام کا مقصد یہ نہیں ہے۔
 
مختصر یہ کہ نہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام نے تشکیل حکومت کے لئے قیام کیا تھا اور ان کا مقصد حکومت کی تشکیل تھا اور نہ ہی یہ کہہ سکتے ہیں کہ امام نے شہید ہونے کے لئے قیام کیا تھا بلکہ بات کچھ اور ہے۔ جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ مقصد حکومت تھا یا مقصد شہادت تھا تو ان لوگوں نے مقصد اور نتیجہ کو خلط ملط کر دیا ہے۔ جی نہیں، مقصد یہ سب نہیں تھا۔ امام حسین علیہ السلام کا مقصد دوسرا تھا، لیکن اس دوسرے مقصد تک رسائی کے لئے ایک ایسے کام کی ضرورت تھی، جس کا شہادت یا حکومت میں سے کوئی ایک نتیجہ سامنے آتا۔ البتہ آپ دونوں کے لئے تیار تھے۔

انہوں نے حکومت کے مقدمات بھی فراہم کئے اور کر رہے تھے اور اسی طرح شہادت کے مقدمات بھی فراہم کئے اور کر رہے تھے۔ اس کے لئے تیار ہو رہے تھے اور اس کے لئے بھی۔ جو بھی ہوتا صحیح ہوتا اور کوئی مسئلہ نہ ہوتا، لیکن ان میں سے کوئی بھی مقصد نہیں تھا بلکہ دو نتائج تھے، مقصد کچھ اور تھا۔ اگر ہم امام حسین علیہ السلام کے مقصد کو بیان کرنا چاہیں تو ہمیں اس طرح سے کہنا چاہئے کہ آپ کا مقصد تھا دینی واجبات میں سے ایک عظیم واجب پر عمل اور وہ ایسا واجب عمل تھا جسے امام حسین علیہ السلام سے قبل کسی نے بھی یہاں تک کہ خود پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی انجام نہیں دیا تھا۔ نہ پیغمبر اسلام (ص) نے اس واجب کو انجام دیا تھا، نہ امیرالمومنین(ع) نے اور نہ ہی امام حسن مجتبی (ع) نے۔
 
یہ ایک ایسا واجب تھا جس کا اسلام کے اقدار، افکار
اور علم کے ڈھانچے میں نہایت اہم کردار ہے۔ حالانکہ یہ واجب، نہایت اہم اور بنیادی ہے، لیکن پھر بھی امام حسین علیہ السلام کے زمانے تک اس واجب پر عمل نہیں ہوا تھا۔ امام حسین علیہ السلام کو اس واجب پر عمل کرنا تھا، تاکہ پوری تاریخ کے لئے ایک سبق ہو جائے۔ مثال کے طور پر پیغمبر اعظم (ص) نے حکومت تشکیل دی اور تشکیل حکومت پوری تاریخ اسلام کے لئے درس بن گئی۔ پیغمبر (ص) نے صرف اس کا حکم ہی صادر نہیں کیا بلکہ اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور یہ تاریخ اسلام اور بشریت کے لئے ہمیشہ کے لئے ایک درس بن گیا۔ اس واجب پر بھی امام حسین علیہ السلام کے ذریعے عمل ہونا تھا، تاکہ مسلمانوں اور پوری تاریخ کے لئے عملی سبق ہو جائے۔
 
اب سوال یہ ہے کہ کیوں امام حسین علیہ السلام یہ کام کریں؟ کیونکہ اس واجب پر عمل کے حالات، امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں ہی فراہم ہوئے تھے۔ اگر یہ حالات امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں پیش نہیں آتے، مثال کے طور پر امام علی نقی علیہ السلام کے زمانے میں یہ حالات پیش آتے۔ اگر امام حسن مجتبی یا امام صادق علیھما السلام کے زمانے میں بھی پیش آتے تو یہ لوگ بھی اس واجب پر عمل کرتے۔ امام حسین علیہ السلام کے زمانے سے قبل یہ حالات پیش نہیں آئے اور امام حسین علیہ السلام کے بعد بھی تمام دیگر ائمہ کے دور میں غیبت تک یہ حالات پیش نہیں آئے!

اس وقت فطری طور پر اس واجب پر عمل درآمد کا ان دو میں سے کوئی ایک نتیجہ ہوتا: یا اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ امام حسین علیہ السلام اقتدار و حکومت تک پہنچ جاتے۔ امام حسین علیہ السلام تیار تھے۔ اگر آپ کو اقتدار حاصل بھی ہو جاتا تو آپ اسے مضبوطی سے تھام لیتے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امیر المومنین (ع) کی طرح سماج کی رہنمائی کرتے، لیکن یہ بھی ہوسکتا تھا کہ اس واجب پر عمل درآمد سے حکومت حاصل نہیں ہوتی، شہادت ملتی، اس کے لئے بھی امام حسین علیہ السلام تیار تھے۔

امیر معاویہ کے بعد اقتدار جس نے سنبھالا، وہ ایسا شخص تھا جو ظاہری اسلام کا بھی خیال نہیں رکھتا تھا! شراب پیتا تھا اور غلط کام انجام دیتا تھا۔ علی الاعلان جنسی بدعنوانی کرتا تھا، قرآن کے خلاف بات کرتا تھا، قرآن اور دین کی رد میں اشعار پڑھتا تھا اور کھل کر اسلام کی مخالفت کرتا تھا، لیکن چونکہ اس کا نام مسلمانوں کے خلیفہ کے طور پر لیا جاتا تھا، اس لئے وہ اسلام کے نام کو ہٹانا نہیں چاہتا تھا۔ وہ اسلام پر عمل کرنے والا تھا نہ اس کے دل میں اسلام سے ہمدردی تھی، بلکہ وہ اپنے اعمال سے، اس گڑھے کی طرح، جس سے ہمیشہ گندہ پانی نکلے اور اطراف کے پانی کو آلودہ کرے، اسلامی سماج کو گندہ کر رہا تھا، اس کے وجود سے پورا اسلامی سماج گندگی سے پر ہو جاتا!
 
بدعنوان حاکم ایسا ہوتا ہے، کیونکہ حاکم، چوٹی پر ہوتا ہے اور اس سے جو کچھ نکلتا ہے، وہیں پر نہیں ٹھہرتا، بلکہ نیچے گرتا ہے اور ہر جگہ چھا جاتا ہے! عام لوگ، اپنی جگہ پر ہوتے ہیں، البتہ جس کا بالاتر مقام ہوتا ہے، جس کی سماج میں زیادہ حیثیت ہوتی ہے، اس کی بدعنوانی کا نقصان اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ عام لوگوں کی بدعنوانی ممکن ہے خود ان کے لئے یا ان کے اطراف کے کچھ لوگوں پر موثر ہو، لیکن جو لیڈر و رہنما ہوتا ہے اگر وہ بدعنوان ہو جائے، تو اس کی بدعنوانی پھیلتی اور پورے ماحول کو خراب کر دیتی ہے۔ اسی طرح سے اگر وہ نیک ہوتا ہے تو اس کی نیکی پھیلتی ہے اور ہر جگہ اس کے اثرات دیکھے جاتے ہیں۔

ایسا شخص اتنی بدعنوانیوں کے ساتھ، معاویہ کے بعد پیغمبر اعظم (ص) کا خلیفہ بن بیٹھا ہے! اس سے بڑا انحراف کیا ہوسکتا ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے قیام کیا، تاکہ اس عظیم فریضے پر عمل کریں، جس کا معنی اسلامی سماج میں بڑی گمراہی کا مقابلہ، اسلامی نظام کا تحفظ اور سماج کی تعمیر نو ہے۔ یہ کام قیام امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ذریعے ہوتا ہے، بلکہ یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ایک بڑا مصداق ہے، البتہ اس فریضے پر عمل درآمد کبھی حکومت پر اور کبھی شہادت پر منتج ہوتا ہے۔ امام حسین علیہ السلام دونوں کے لئے تیار تھے۔ امام حسین علیہ السلام نے عملی لحاظ سے پوری تاریخ اسلام کو ایک بہت بڑا سبق دیا ہے اور درحقیقت اسلام کو اپنے اور دیگر تمام زمانوں میں محفوظ کر دیا۔ اب جہاں بھی اس قسم کی بدعنوانی ہوگی، امام حسین وہاں زندہ ہیں اور اپنی روش اور عمل سے کہہ رہے ہیں کہ آپ کو کیا کرنا ہے۔ اسی لئے امام حسین اور کربلا کی یاد کو زندہ رکھا جانا چاہئے، کیونکہ کربلا کی یاد ہمارے سامنے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے درس کا عملی نمونہ پیش کرتی ہے۔

طول تاریخ میں اسلامی ممالک میں اس قسم کے حالات کئی بار پیش آئے۔ آج بھی شاید عالم اسلام میں ایسے بہت سے علاقے ہیں، جہاں ایسے حالات ہیں کہ جن میں مسلمانوں کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضے پر عمل کرنا چاہئے، اگر وہ یہ کام کرلیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انہوں نے اپنا فرض پورا کر دیا اور اسلام کو وسعت دی اور اس کی بقا کو یقینی بنا دیا۔ جو قوم فکری اور نظریاتی قید میں ہو، جس قوم کے رہنماء بدعنوان ہوں، جس قوم پر دین کے دشمن حکومت کر رہے ہوں اور اس کے مستقبل اور فیصلوں کے ذمہ دار ہوں، تو اسے امام حسین علیہ السلام کو اپنا آئیڈیل بنانا چاہیے، کیونکہ نواسہ رسول، جگرگوشہ بتول نے بتا دیا ہے کہ ان حالات میں کیا فریضہ ادا کرنا چاہئے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button