مضامین

پاکستان میں شیعہ خواتین ناصبی تکفیری دہشت گردوں کا نشانہ

women shiiteکنیز فاطمہ عرف دلشاد فاطمہ اپنے شوہر کے ہمراہ کراچی کے علاقے ابو الحسن اصفہانی روڈ پر ناصبی تکفیری دہشت گردوں کے حملے میں شہید ہوئیں۔وہ دونوں میاں بیوی ایک پرائیویٹ اسپتال کے ملازم تھے۔پاکستان میں ناصبی تکفیری کالعدم دہشت گرد گروہوں سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والی کنیز فاطمہ پہلی خاتون نہیں ہیں۔چند سال قبل کراچی کے علاقے صفورہ چورنگی کے پاس یونیورسٹی روڈ پر ایک معلمہ خاتون کو بھی ناصبی تکفیری دہشت گردوں نے فائرنگ کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا تھا۔اسی طرح ایک اور واقعہ میں کوئٹہ میں ایک لیکچرر خاتون کو ناصبی یزیدی دہشت گردوں نے شہید کیا۔
سنہ 2012ء کراچی واپس آتے ہیں۔30نومبر سے ایک معصوم 13سالہ لڑکی محزل زہراکراچی کے مقامی اسپتال میں زیر علاج ہے اور زندگی او موت کی کشمکش کی جنگ لڑ رہی ہے۔،اس معصوم لڑکی کے والد سرکاری محکمہ میں 18گریڈ کے اعلیٰ افسر تھے جن کو ناصبی یزیدی دہشت گردوں نے کراچی کے علاقے شہید ملت روڈ پر اس معصوم بچی کی آنکھوں کے سامنے دہشت گردی کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا۔اس کے والد اپنی بیٹی کو اسکول چھوڑنے جا رہے تھے،محزل زہرا ساتویں جماعت کی طالبہ ہے۔ناصبی یزیدی دہشت گردوں کے حملے میں معصوم بچی کے والد شہید ہوئے جبکہ وہ بچی بھی ناصبی دہشت گردوں کی گولیوں سے نہ بچ سکی۔
ایک اور سانحہ میں معروف شیعہ اسکالر اور دانشور سعید حیدر زیدی کو کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں ان کی بیوی کی آنکھوں کے سامنے گولیوں کا نشانہ بنا کر شہید کیا گیا۔ایک اور شیعہ نوجوان باپ اپنی بیٹی کو اسکول چھوڑنے جاتے ہوئے ناصبی یزیدی دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بنا اور شہید ہو گیا۔
پاکستان کے شہر پشاور سے پاراچنار جاتے ہوئے ناصبی تکفیری دہشت گردوں نے ایک شیعہ خاتون کے چہرے پر تیزاب پھینک کر اسے شدید زخمی کر دیا۔
خواتین پر ہونے والے قاتلانہ حملوں او ر قتل کی وارداتوں کے خلاف کسی قسم کا کوئی رد عمل دیکھنے میں نہیں آ یا۔اسی طرح دیکھنے میں آیا ہے کہ زرائع ابلاغ جو آزادی کا دم بھرتے ہیں وہ بھی شیعہ خواتین پر ہونے والے ناصبی تکفیری دہشت گردوں کے حملوں پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔حکومت پاکستان اور عالمی برادری بھی پاکستان میں شیعہ خواتین کو ٹارگٹ کلنگ کرنے کے واقعات کا نوٹس لینے میں ناکام رہے ہیں۔
دنیا بھر میں دیکھا گیا ہے کہ کبھی بھی خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات سامنے آتے ہیں تو سیکولر دماغ کی این جی اوز میں کام کرنے والی خواتین سرا پا احتجاج بن جاتی ہیں لیکن پاکستان میں شیعہ خواتین پر ناصبی دہشت گردوں کے حملوں پر تاحال کسی قسم کی کوئی آواز سننے میں نہیں آ رہی۔
حالیہ دنوں کی بات ہے کہ سوات میں ملالہ یوسف زئی نامی لڑکی پر ہونے والے حملے پر دنیا بھر میں شور شرابا برپا کیا گیا۔واضح رہے کہ حملہ آور وہی ناصبی تکفیری دہشت گرد طالبان اورکالعدم دہشت گرد گروہ ہی تھے۔
پاکستان میں شیعہ خواتین کالعدم دہشت گرد گروہوں سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی اور طالبان دہشت گردوں کے حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں جبکہ کسی قسم کی احتجاجی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر شیعہ معصوم بچی محزل زہرا کے لئے کوئی آواز کیوں نہیں اٹھائی جا رہی۔آخر شیعہ خواتین پر طالبان دہشت گردوں کی جانب سے تیزاب پھینکنے کے واقعات پر کب تک مجرمانہ خاموشی قائم رہے گی؟آخر تکفیری ناصبی دہشت گردوں کی جانب سے شیعہ خواتین کے قتل پر کب تک مجرمانہ خاموشی رہے گی؟
یہ وہ تمام سوالات ہیں جو تمام حلقوں سے جوابات کے منتظر ہیں۔پاکستانی شیعہ چاہتے ہیں کہ انتہا پسند ناصبی تکفیری دہشت گردوں کو جو مسلمانوں کو اپنے ناپاک عزائم کے لئے غیر مسلم قرار دیتے ہیں اور دہشت گردی کا نشانہ بناتے ہیں ان کے خلاف سخت کاروائی کی جائے اور سخت سزا دی جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button