پاکستانی شیعہ خبریں

پاک فوج کا لشکر جھنگوی سے رابطوں کا انکار اور ٹرک کنڈیکٹر،امیر لشکر جھنگوی عثمان عرف سیف اللہ کردکا کو ئٹہ کینٹ سے فرار

bajwa kurdشیعت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک)کوئٹہ سمیت پاکستان بھر میں جاری دہشتگردی میں بیرونی ایجنڈے پر کالعدم لشکرجھنگوی اور کالعدم سپاہ صحابہ مصروف عمل ہیں ، جب کے خفیہ اطلاعات کے مطابق کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں دہشتگردی خصوصاًشیعہ قوم پر ہونے والے حملوں میں مرکزی کردار نائب امیر لشکر جھنگوی عثمان کرد عرف سیف اللہ کردکا ہے ، ۔تحقیقاتی اداروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں کالعدم لشکر جھنگوی کا امیر محمد عثمان کردعرف سیف اللہ کرد ہے جو ماضی میں آئل ٹینکر کا کنڈکٹراور بعد میں ڈرائیورتھا،کچھ سیکورٹی ذرائع کے مطابق وہ اب کالعدم لشکر جھنگوی کا نائب امیر بھی بن چکا ہے۔ خفیہ اداروں اور سی آئی ڈی سندھ کے آپریشن ونگ نے سیف اللہ کرد کو بھینس کالونی موڑ کراچی سے 17 دسمبر2005 کو گرفتار کیا،عثمان کردکے ساتھ مزید گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں تھیں۔ اس وقت عثمان کردکے سر کے قیمت 25 لاکھ روپے مقررتھی تاہم کراچی میں گرفتاری کے بعد اسے بلوچستان منتقل کردیا گیا جہاں اسے کوئٹہ کینٹ میں واقع انسداد دہشت گردی فورس کی ہائی سیکورٹی جیل میں رکھا گیا۔ عثمان کرد 2008 میں وہاں سے پر اسرارطورپر فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا اور آج تک مفرور ہے۔عثمان کرد کے کو ئٹہ کینٹ جیسی حساس جیل سے فرار فوج کے کردار کو نہ یہ کے مشکوک بناتی ہے بلکے کئی سوال بھی چھوڑتی ہے ۔ سانحہ کیرانی روڈ کوئٹہ کے بعد مختلف حلقوں میں اس بحث کا آغاز ہوا کے پاک فوج اور قانو ن نافذکرنے والے اداروں میں کچھ ایسے افسران موجود ہیں جو بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی میں کالعدم دہشتگرد گروہوں کی پشت پناہی میں مصروف ہیں ،تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق کوئٹہ شہر میں ہونے والے حالیہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ایف سی ، پولیس اور فوج کے ریٹائرڈاور حاضر سروس اہلکار بھی ملوث پائے گے جن کے تانے بانے کالعدم لشکر جھنگوی سے ملتے ہیں ۔ لیکن پاک فوج اور آئی ایس پی آر کے اعلیٰ عہدیداروں نے ان خبروں کی نہ صرف تردید کی بلکے ان خبروں کوفوج کے خلاف پروپگینڈہ قرار دیا، کراچی میں عثمان کردنے گرفتاری کے بعد تفتیشی اداروں کو بتایاتھا کہ وہ پیشے کے اعتبار سے آئل ٹینکرکا ڈرائیور ہے،15 سال کی عمر میں آئل ٹینکرز میں کنڈکٹری شروع کی اوراس دوران ڈرائیونگ بھی سیکھ لی ،اسی دوران ایک دن ٹرک اڈے پر داؤد بادینی سے پہلی بار ملاقات ہوئی ،بادینی سریاب روڈ پر رہتا تھا ،داؤد بادینی کے والد کا نام مولانا امیر حمزہ بادینی تھااور ان کا تعلق سپاہ صحابہ تھا، میں نے ان کے ساتھ مختلف جلسوں اور مذہبی تقریبات میں جانا شروع کردیا اوران کی تعلیمات سے متاثر ہوکر سپاہ صحابہ پاکستان میں شمولیت کا فارم بھر کران کا کارکن بن گیا۔ پانچ سال قبل ڈیرہ مراد جمالی کے ایک جلسے میں حبیب اللہ اور غلام فاروق نامی لڑکو ں سے ملاقات ہوئی جنہوں نے مجھے اپنے گاؤں کا پتا دیااور مجھے وہاں بلوالیا۔میں داؤد بادینی کو بتائے بغیر ان لڑکوں سے ملنے ڈیرہ مراد جمالی چلا گیا۔ تفصیلی ملاقات میں پتا چلا کہ ان کا تعلق کالعدم لشکر جھنگوی سے ہے۔1997 میں غلام فاروق او رحبیب اللہ کے ہمراہ چمن کے راستے قندھار اور پھر کابل چلا گیا۔افغانستان آنے کے بعدحبیب اللہ نے میری ملاقات تین آدمیوں سے کرائی جن میں ریاض بسرا، زاہد عرف عمران اور شبیرعرف ڈاکٹر سے ہوئی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button